انتظار
Poet: فہد ندیم برقؔ By: Fahad Nadeem 'Burq', Lahoreکسی نے مجھ سے پوچھا انتظار کیا ہے
تو میں نے کچھ دیر یہ ذرا سوچا ہے
دل سے بھی گفتگو کے دوران پوچھا ہے
پھر ذرا خلوت میسر ہوئی تو یہ لکھا ہے
انتظار ہے ایک چوٹ، ایک زخم، ایک گھاؤ
بیچ سمندر تپتی دھوپ میں لکڑی کی ٹوٹی ناؤ
لیکن ہے یہ اتنا ہی شیریں، اس سے ہے اتنا ہی لگاؤ
کیونکہ یار اگر انتظار ہی نہیں کرنا تو نہ دل لگاؤ
ہم سب نے سنا تو ہے کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے
تو کیوں یہ بھول جاتے ہیں کہ پھل کا بھی کوئی راستہ ہوتا ہے
جو کہ نہ ہی آسان، نہ ہی سیدھا ہوتا ہے
لیکن انتظار کے بعد منزل کو پانے کی لذت بھی کیا ہے؟
بِنَا صبر کے رشتے کیا، محبت کیا ہے، نفرت کیا ہے؟
سچ پوچھو تو دنیا کی سب سے خوبصورت چیز ہے انتظار
کہ جب تمہارا دل بولے اُسے پکار، اور پکار!
تمہاری عقل بولے کہ نہیں، ابھی انتظار
تمہارا دل بولے کر دے آج اقرار
تمہاری عقل بولے کہ نہیں… ابھی انتظار
دل کہے اور کہے اور کہتا رہے کہ کر دے یہ دریا پار
تمہاری عقل بولے کہ نہیں… ابھی انتظار
تو ایسے میں عقل کی سنو ہر بار
کیونکہ زور لگانے سے جو تمہیں فی الوقت چاہیے وہ ملے گا
لیکن اگر جو تمہارے لیے اچھا ہے اُسے چاہتے ہو میرے یار
تو بس عقل کی سنو کہ… نہیں، ابھی انتظار
اب کہ کوئی حسرت بھی نہیں رکھتے
آنکھ کھلی اور ٹوٹ گئے خواب ہمارے
اب کوئی خواب آنکھوں میں نہیں رکھتے
خواب دیکھیں بھی تو تعبیر الٹ دیتے ہیں
ہم کہ اپنے خوابوں پہ بھروسہ نہیں رکھتے
گزارا ہے دشت و بیاباں سے قسمت نے ہمیں
اب ہم کھو جانے کا کوئی خوف نہیں رکھتے
آباد رہنے کی دعا ہے میری سارے شہر کو
اب کہ ہم شہر کو آنے کا ارادہ نہیں رکھتے
گمان ہوں یقین ہوں نہیں میں نہیں ہوں؟
زیادہ نہ پرے ہوں تیرے قریں ہوں
رگوں میں جنوں ہوں یہیں ہی کہیں ہوں
کیوں تو پھرے ہے جہانوں بنوں میں
نگاہ قلب سے دیکھ تو میں یہیں ہوں
کیوں ہے پریشاں کیوں غمگیں ہے تو
مرا تو نہیں ہوں تیرے ہم نشیں ہوں
تجھے دیکھنے کا جنوں ہے فسوں ہے
ملے تو کہیں یہ پلکیں بھی بچھیں ہوں
تیرا غم بڑا غم ہے لیکن جہاں میں
بڑے غم ہوں اور ستم ہم نہیں ہوں
پیارے پریت ہے نہیں کھیل کوئی
نہیں عجب حافظ سبھی دن حسیں ہوں
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
۔
چلے ہو آپ بہت دور ہم سے ،
معاف کرنا ہوئا ہو کوئی قسور ہم سے ،
آج تو نرم لہجا نہایت کر کے جا ،
۔
درد سے تنگ آکے ہم مرنے چلیں گے ،
سوچ لو کتنا تیرے بن ہم جلیں گے ،
ہم سے کوئی تو شکایت کر کے جا ،
۔
لفظ مطلوبہ نام نہیں لے سکتے ،
ان ٹوٹے لفظوں کو روایت کر کے جا ،
۔
ہم نے جو لکھا بیکار لکھا ، مانتے ہیں ،
ہمارا لکھا ہوئا ۔ ایم ، سیاعت کر کے جا ،
۔
بس ایک عنایت کر کے جا ،
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
ہم بے نیاز ہو گئے دنیا کی بات سے
خاموش! گفتگو کا بھرم ٹوٹ جائے گا
اے دل! مچلنا چھوڑ دے اب التفات سے
تکمیل کی خلش بھی عجب کوزہ گری ہے
اکتا گیا ہوں میں یہاں اہل ثبات سے
اپنی انا کے دائروں میں قید سرپھرے
ملتی نہیں نجات کسی واردات سے
یہ دل بھی اب سوال سے ڈرنے لگا وسیم
تھک سا گیا ہے یہ بھی سبھی ممکنات سے
جسم گَلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
روئے کیوں ہم جدائی میں وجہ ہے کیا
ہے رنگ ڈھلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
ہوں گم سوچو میں، گم تنہائیوں میں، میں
ہے دل کڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے
بے چاہے بھی اسے چاہوں عجب ہوں میں
نہ جی رکتا مرا ہائے فراق کیا ہے
مٹے ہے خاکؔ طیبؔ چاہ میں اس کی
نہ دل مڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے






