کس کو بتائیں کیسے چہرہ نکھر گیا ہے
ہر دن تماشہ سہتے کتنا بکھر گیا ہے
انسان کی جبلت ہی مختلف بنی ہے
فطرت انوکھی ہی ہے وہ در بدر گیا ہے
ممنوعہ اک شجر کے پھل کی کشش ہوئی تھی
شیطان سے بہک کر وہ پھر سے ڈر گیا ہے
داتا سخی ہے، در ہر دم رہتا ہے کھلا بھی
گر عاجزی رہے تو سن وہ کدھر گیا ہے
کرتا معاف تو کر لیں غلطیاں بہت سی
نادان بھکتا ہے سختی سے وہ مر گیا ہے
امید و خوف، ایماں کی پہچاں جو ہے وشمہ
مظبوط بھی بنا لیں، محنت جو کر گیا ہے