مصیبت میں پکارتا رہا میں ہر سُو مدد کے واسطے،
لیکن میری مدد کو میرے سِوا کوئی نہ پہنچا کبھی۔
میں تنہا جلتا رہا، لوگ تماشائی بنے رہے،
چمکتی روشنی میں میرا سایہ بھی نہ تھا کبھی۔
نہ اپنوں نے سنی دل کی صدا، نہ غیروں نے سمجھا کچھ،
غرض تنہائیوں میں دل کو چین ہی نہ آیا کبھی۔
کسی نے درد پوچھا، زخم کو محسوس بھی نہ کیا،
دلِ مجروح پر مرہم سا لفظ آیا نہ تھا کبھی۔
وفا کا نام لے کر وہ فقط وعدوں میں مصروف تھا،
جو خوابوں میں رہا، وہ خواب بھی سچ ہو نہ سکا کبھی۔
مظہرؔ کی خاک بھی شاید سوالی تھی دعاؤں کی،
لبوں سے بھی کسی کے نام اُس کا آ نہ سکا کبھی۔