مجھے تیری بے ُرخی کا ملال بہت ہے
میں ہو گئی خاموش مگر
مجھے تیرا خیال بہت ہے
یہ کیسا موڑ آیا زندگی میں
کہ ہو گئے ہم ُجدا مگر
شاید ! تیرے دل میں بھی
میرے لیے پیار بہت ہے
تھک گئی ہیں میری آنکھیں
تیرا راستہ دیکھتے دیکھتے
میں کیسے تجھے سمجھاوں
کہ ان آنکھوں میں انتظار بہت ہے
آئی ہیں شام آج پھر ُاداسی لے کر
میں مسکرا رہی ہوں مگر
میرے اندر آنسوؤں کا سہلاب بہت ہے
ُتو کرتا نہیں میری
قسموں پے یقین جاناں
پر مجھے تو تیری بےجان
باتوں پے بھی یقین بہت ہے