سچ کہو کس نے لیا دل کہ جو پایا نہ گیا
Poet: دانش By: دانش, Sialkotسچ کہو کس نے لیا دل کہ جو پایا نہ گیا
یاں ہمیں تم ہیں کوئی اور نہ آیا نہ گیا
دل میں تھی آگ لگی دیدۂ تر کو دیکھو
گھر جلا پاس کا اور اس سے بجھایا نہ گیا
دن یہ فرقت کا بڑھا چار پہر ساعت بھر
پائے دیوار سے ہٹ کر کہیں سایا نہ گیا
دل تڑپتا رہا پھر ضعف کے باعث مجھ سے
ضبط کا اپنے بھی احسان اٹھایا نہ گیا
دل مرا مر کے رہا آٹھ پہر پہلو میں
ہائے محتاج کا مردہ تھا اٹھایا نہ گیا
وعدہ کر کر کے جگایا مجھے راتوں کو مگر
میری سوتی ہوئی قسمت کو جگایا نہ گیا
یا تو یہ شوق تھا حال ان کو سناؤں جو ملیں
وائے قسمت جو ملے وہ تو سنایا نہ گیا
غیر جب ہو گیا ناراض منانے کو گئے
ایک دن روٹھ گیا میں تو منایا نہ گیا
بزم سے اس کی چلے آؤ جو بگڑا وہ بت
بیٹھنے کو کوئی فقرہ بھی بنایا نہ گیا
میرے مرنے کی خبر سن کے بھلا کیا آتے
ان سے اک بار عیادت کو بھی آیا نہ گیا
ان کی مہندی کی رہی خوب جمالی رنگت
ہم سے تو رنگ بھی محفل میں جمایا نہ گیا
مٹ گئے سنگ در یار پہ گھس گھس کے جبیں
اپنی تقدیر کے لکھے کو مٹایا نہ گیا
دونوں مجبور رہے ضعف و نزاکت کے سبب
ہم وہاں جا نہ سکے یار سے آیا نہ گیا
دور بیٹھا ہوا بھی ہم کو نہ وہ دیکھ سکے
بزم میں غیر کو پہلو سے اٹھایا نہ گیا
اس نزاکت پہ نہ کیوں جان کو قرباں کر دوں
کہ گلے پر مرے خنجر بھی پھرایا نہ گیا
ایک شب عرش پہ محبوب کو بلوا ہی لیا
ہجر وہ غم ہے خدا سے بھی اٹھایا نہ گیا
بزمؔ طاقت یہ گھٹی ہجر کی شب آہ جو کی
دل سے لب تک کئی ٹھیکوں میں بھی آیا نہ گیا
اب کہ کوئی حسرت بھی نہیں رکھتے
آنکھ کھلی اور ٹوٹ گئے خواب ہمارے
اب کوئی خواب آنکھوں میں نہیں رکھتے
خواب دیکھیں بھی تو تعبیر الٹ دیتے ہیں
ہم کہ اپنے خوابوں پہ بھروسہ نہیں رکھتے
گزارا ہے دشت و بیاباں سے قسمت نے ہمیں
اب ہم کھو جانے کا کوئی خوف نہیں رکھتے
آباد رہنے کی دعا ہے میری سارے شہر کو
اب کہ ہم شہر کو آنے کا ارادہ نہیں رکھتے
گمان ہوں یقین ہوں نہیں میں نہیں ہوں؟
زیادہ نہ پرے ہوں تیرے قریں ہوں
رگوں میں جنوں ہوں یہیں ہی کہیں ہوں
کیوں تو پھرے ہے جہانوں بنوں میں
نگاہ قلب سے دیکھ تو میں یہیں ہوں
کیوں ہے پریشاں کیوں غمگیں ہے تو
مرا تو نہیں ہوں تیرے ہم نشیں ہوں
تجھے دیکھنے کا جنوں ہے فسوں ہے
ملے تو کہیں یہ پلکیں بھی بچھیں ہوں
تیرا غم بڑا غم ہے لیکن جہاں میں
بڑے غم ہوں اور ستم ہم نہیں ہوں
پیارے پریت ہے نہیں کھیل کوئی
نہیں عجب حافظ سبھی دن حسیں ہوں
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
۔
چلے ہو آپ بہت دور ہم سے ،
معاف کرنا ہوئا ہو کوئی قسور ہم سے ،
آج تو نرم لہجا نہایت کر کے جا ،
۔
درد سے تنگ آکے ہم مرنے چلیں گے ،
سوچ لو کتنا تیرے بن ہم جلیں گے ،
ہم سے کوئی تو شکایت کر کے جا ،
۔
لفظ مطلوبہ نام نہیں لے سکتے ،
ان ٹوٹے لفظوں کو روایت کر کے جا ،
۔
ہم نے جو لکھا بیکار لکھا ، مانتے ہیں ،
ہمارا لکھا ہوئا ۔ ایم ، سیاعت کر کے جا ،
۔
بس ایک عنایت کر کے جا ،
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
ہم بے نیاز ہو گئے دنیا کی بات سے
خاموش! گفتگو کا بھرم ٹوٹ جائے گا
اے دل! مچلنا چھوڑ دے اب التفات سے
تکمیل کی خلش بھی عجب کوزہ گری ہے
اکتا گیا ہوں میں یہاں اہل ثبات سے
اپنی انا کے دائروں میں قید سرپھرے
ملتی نہیں نجات کسی واردات سے
یہ دل بھی اب سوال سے ڈرنے لگا وسیم
تھک سا گیا ہے یہ بھی سبھی ممکنات سے
جسم گَلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
روئے کیوں ہم جدائی میں وجہ ہے کیا
ہے رنگ ڈھلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
ہوں گم سوچو میں، گم تنہائیوں میں، میں
ہے دل کڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے
بے چاہے بھی اسے چاہوں عجب ہوں میں
نہ جی رکتا مرا ہائے فراق کیا ہے
مٹے ہے خاکؔ طیبؔ چاہ میں اس کی
نہ دل مڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے






