سمندر نہیں دیکھا
Poet: Azhar By: Mohammad Azhar Nazir, doha qatarبجلی سی لپک جاتی ہے بیاں سنتے ہیں رہتے
جب پردہ اٹھا کرتا ہے وہ منظر نہیں دیکھا
تیرے رعب حسن مغرور کا ہے انداز بیاں اور
جو تجھ کو فتح کر لے سکندر نہیں دیکھا
ان حسیں آنکھوں میں میں دور تک اترا
منزل کا پتا نام نشاں ستمگر نہیں دیکھا
محفل میں بھری چھو کے تیرا ہاتھ ہی گزرے
ساحل تک ہی پہنچے ہیں سمندر نہیں دیکھا
اظہر ہے وہیں کوچہ جاناں میں شب روز
باہر سے نظر رکھے ہے اندر نہیں دیکھا
More Love / Romantic Poetry






