اے پاگل لڑکی
Poet: By: Owais sherazi, Lahoreاے پاگل لڑکی
زندگی ایک کتاب ھے
اس کتاب میں
غم لکھنا چھوڑ دو
اب ھنسی لکھو
خوشی لکھو
اپنے ھاتھ سے
پاگل لڑکی
پاگل پن چھوڑ دو
زندگی صرف غم نہیں
صرف عذاب نہیں
صرف دھوپ نہیں
صرف رونے کا نام نہیں
صرف سزا نہیں
رشتوں کے نام
پر درد
کیوں سہتی ھو
اس درد کو
اب مٹا دو
اس درد سے اب
جان چھڑا لو
پاگل لڑکی
زندگی حسین بھی ھے
مہکتا پھول بھی ھے
ٹھنڈی چھاؤں بھی ھے
اسلئے اے پاگل لڑکی
عذابوں سے نکل آؤ
اب مسکرانا سیکھو
درد کے اندر چھپی خوشی
اپنے دامن میں بھر لو اب
تمہیں اے پاگل لڑکی
ھمت کرنی ھو گی
ھمت کرنی ھو گی
لیکن
پاگل لڑکی
سب سے پہلے تمہیں
اپنے آپ سے
دوستی کرنی ھو گی
اپنا
اعتبار کرنا ھو گا
ان دکھوں کو
ان غموں کو
خیرباد کہنا ھو گا
اپنی خوشیوں کو پانا ھو گا
بس تمہیں اپنے قدموں کو
آگے آگے آگے
لے جانا ھو گا
بس خوشیاں
تمہاری ھوں گی
اور پھر
تمہیں خوش دیکھ کر
میں بھی
بہت
خوش ھوں گا
اب کہ کوئی حسرت بھی نہیں رکھتے
آنکھ کھلی اور ٹوٹ گئے خواب ہمارے
اب کوئی خواب آنکھوں میں نہیں رکھتے
خواب دیکھیں بھی تو تعبیر الٹ دیتے ہیں
ہم کہ اپنے خوابوں پہ بھروسہ نہیں رکھتے
گزارا ہے دشت و بیاباں سے قسمت نے ہمیں
اب ہم کھو جانے کا کوئی خوف نہیں رکھتے
آباد رہنے کی دعا ہے میری سارے شہر کو
اب کہ ہم شہر کو آنے کا ارادہ نہیں رکھتے
گمان ہوں یقین ہوں نہیں میں نہیں ہوں؟
زیادہ نہ پرے ہوں تیرے قریں ہوں
رگوں میں جنوں ہوں یہیں ہی کہیں ہوں
کیوں تو پھرے ہے جہانوں بنوں میں
نگاہ قلب سے دیکھ تو میں یہیں ہوں
کیوں ہے پریشاں کیوں غمگیں ہے تو
مرا تو نہیں ہوں تیرے ہم نشیں ہوں
تجھے دیکھنے کا جنوں ہے فسوں ہے
ملے تو کہیں یہ پلکیں بھی بچھیں ہوں
تیرا غم بڑا غم ہے لیکن جہاں میں
بڑے غم ہوں اور ستم ہم نہیں ہوں
پیارے پریت ہے نہیں کھیل کوئی
نہیں عجب حافظ سبھی دن حسیں ہوں
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
۔
چلے ہو آپ بہت دور ہم سے ،
معاف کرنا ہوئا ہو کوئی قسور ہم سے ،
آج تو نرم لہجا نہایت کر کے جا ،
۔
درد سے تنگ آکے ہم مرنے چلیں گے ،
سوچ لو کتنا تیرے بن ہم جلیں گے ،
ہم سے کوئی تو شکایت کر کے جا ،
۔
لفظ مطلوبہ نام نہیں لے سکتے ،
ان ٹوٹے لفظوں کو روایت کر کے جا ،
۔
ہم نے جو لکھا بیکار لکھا ، مانتے ہیں ،
ہمارا لکھا ہوئا ۔ ایم ، سیاعت کر کے جا ،
۔
بس ایک عنایت کر کے جا ،
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
ہم بے نیاز ہو گئے دنیا کی بات سے
خاموش! گفتگو کا بھرم ٹوٹ جائے گا
اے دل! مچلنا چھوڑ دے اب التفات سے
تکمیل کی خلش بھی عجب کوزہ گری ہے
اکتا گیا ہوں میں یہاں اہل ثبات سے
اپنی انا کے دائروں میں قید سرپھرے
ملتی نہیں نجات کسی واردات سے
یہ دل بھی اب سوال سے ڈرنے لگا وسیم
تھک سا گیا ہے یہ بھی سبھی ممکنات سے
جسم گَلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
روئے کیوں ہم جدائی میں وجہ ہے کیا
ہے رنگ ڈھلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
ہوں گم سوچو میں، گم تنہائیوں میں، میں
ہے دل کڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے
بے چاہے بھی اسے چاہوں عجب ہوں میں
نہ جی رکتا مرا ہائے فراق کیا ہے
مٹے ہے خاکؔ طیبؔ چاہ میں اس کی
نہ دل مڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے






