اگر تیرا اشارہ اے نگاہ یار ! ہو جائے
Poet: Hazrat Allama Pir Syed Naseer-ud-Din Naseer Gillani (Golra Sharif) By: Khalid Roomi, Rawalpindi اگر تیرا اشارہ اے نگاہ یار ! ہو جائے
تو دن پھر جائین میرے، اور بیڑا پار ہو جائے
توجہ سے تری محروم اگر بیمار ہو جائے
دوا بے سود ہو جائے ، دعا بے کار ہو جائے
جدائی کا تصور تک نہ ہو ، وہ پیار ہو جائے
جبین شوق جذب آستان یار ہو جائے
جو تم آؤ تو کلیاں مسکرائیں، پھول کھل اٹھیں
بہار انگڑائیاں توڑے ، چمن بیدار ہو جائے
قیامت ہے ، کرشمہ ہے ، نگاہ یار کی جنبش
کوئی مدہوش ہو جائے ، کوئی ہشیار ہو جائے
ہماری زندگی کا آسرا سوز محبت ہے
سکوں مل جائے تو جینا ہمیں دشوار ہو جائے
ابھی جلدی ہی کیا ہے ، میں ابھی زندہ سلامت ہوں
تم آنا جب، کہ جب ، میت مری تیار ہو جائے
عدو جب بزم میں ہو اپنا ہونا کب مناسب ہے
کہیں ایسا نہ ہو باتیں بڑھیں ، تکرار ہو جائے
یہ پیمانہ نہیں، ساقی سے پیمان محبت ہے
جسے اقرار ہو ٹھرے ، جسے انکار ہو “ جائے“
نصیر اب تو سفینہ ڈوبنے کو ہے کوئی دم میں
وہ آ جائیں تو شاید اپنا بیڑا پار ہو جائے
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






