’جب میں 16 سال کی تھی، سی آئی اے نے مجھ پر دماغی کنٹرول کے تجربات کیے تھے‘

لانا پونٹنگ ان ہزاروں لوگوں میں سے ایک بن گئیں جنہیں سی آئی اے کی دماغی کنٹرول سے متعلق خفیہ تحقیقات کے حصے کے طور پر تجربات کا نشانہ بنایا گیا۔

لانا پونٹنگ کو پہلی چیز جو ایلن میموریل انسٹی ٹیوٹ، مونٹریال کینیڈا میں ایک سابقہ نفسیاتی ہسپتال کے بارے میں یاد آتی ہے، وہ بو ہے جو دواؤں کی تھی۔

وہ کینیڈا کے صوبے مینیٹوبا میں اپنے گھر سے بی بی سی کو بتاتے ہیں، ’مجھے اس جگہ کی شکل پسند نہیں آئی۔ یہ مجھے کسی ہسپتال کی طرح نہیں لگتا تھا۔‘

وہ ہسپتال جو کبھی سکاٹش شپنگ میگنیٹ کی رہائش گاہ تھا، اپریل 1958 میں ایک ماہ کے لیے ان کی رہائش گا بننے والا تھا جب ایک جج نے حکم دیا کہ اس وقت کی 16 سالہ لڑکی کو ’نافرمان‘ رویے پر سرزنش کی جائے۔

یہیں پر لانا پونٹنگ ان ہزاروں لوگوں میں سے ایک بن گئیں جنہیں سی آئی اے کی دماغی کنٹرول سے متعلق خفیہ تحقیقات کے حصے کے طور پر تجربات کا نشانہ بنایا گیا۔

اب وہ ان دو لوگوں میں سے ایک ہیں جن کا نام کلاس ایکشن کے مقدمے میں شامل ہے جو ان تجربات کے کینیڈین متاثرین نے دائر کیا ہے۔

جمعرات کو ایک جج نے رائل وکٹوریہ ہسپتال (جو میک گل یونیورسٹی سے منسلک ہے) کی اپیل کو مسترد کر دیا، جس سے مقدمہ آگے بڑھنے کا راستہ صاف ہو گیا۔

ان کے میڈیکل ریکارڈ کے مطابق جو اس نے حال ہی میں حاصل کیا، اوٹاوا سے مونٹریال منتقل ہونے کے بعد لانا پونٹنگ گھر سے بھاگ رہی تھیں اور ان دوستوں کے ساتھ گھوم رہی تھیں جو ان کے والدین کو پسند نہیں تھے۔

وہ ایک عام نوعمرلڑکی تھیں۔ انھوں نے یاد کیا۔

لیکن ایک جج نے انھیں ایلن میموریل انسٹی ٹیوٹ میں بھیجنے کا فیصلہ کیا، جو ’ایلن‘ کے نام سے مشہور ہے۔

سی آئی اے کی تحقیقات

ایک بار وہاں پہنچ کر، وہ ایم کے الٹرا کے نام سے مشہور سی آئی اے کے خفیہ تجربات میں نادانستہ شریک بن گئی۔

سرد جنگ کے منصوبے نے سائیکیڈیلک ادویات جیسے ایل ایس ڈی، الیکٹرو شاک ٹریٹمنٹ، اور مبینہ طور پر برین واشنگ تکنیکوں کے انسانوں پر ان کی رضامندی کے بغیر اثرات کا تجربہ کیا۔

اس منصوبے میں 100 سے زائد اداروں نے حصہ لیا، جن میں امریکہ اور کینیڈا کے ہسپتال، جیلیں اور سکول شامل ہیں۔

ایلن میں، میک گل یونیورسٹی کے ایک محقق ایون کیمرون نے مریضوں کو نشہ دیا اور انھیں ریکارڈنگز سنانے پر مجبور کیا، بعض اوقات ہزاروں بار اس عمل میں جسے اس نے ’سکیننگ‘ کہا۔

لانا پونٹنگ کو سینکڑوں بار یہی ریکارڈنگ سننی پڑی۔

وہ یاد کرتی ہیں کہ کیسے انھیں سننا پڑا کہ ’یہ بار بار دہرایا گیا: تم ایک اچھی لڑکی ہو، تم ایک بری لڑکی ہو۔‘

ڈاکٹریٹ کے طالب علم جورڈن ٹوربے جنھوں نے ان تجربات اور ان کے اخلاقی اثرات پر تحقیق کی ہے وہ وضاحت کرتے ہیں کہ یہ تکنیک ’نفسیاتی ڈرائیونگ‘ کی ایک شکل تھی۔

وہ کہتے ہیں ’بنیادی طور پر مریضوں کے دماغوں کو زبانی اشارے کے ذریعے جوڑ دیا گیا تھا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ جبری نیند، جبری حسی محرومی اور جبری کوما کے لیے ادویات کے اثرات کا بھی مطالعہ کیا گیا۔

میڈیکل ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ لانا پونٹنگ کو ایل ایس ڈی کے ساتھ ساتھ سوڈیم ایمیٹل، باربیٹیوریٹ جیسی دوائیں دی گئی تھیں۔ اس کے علاوہ ڈیسوکسائن اور نائٹرس آکسائیڈ گیس، ایک دوا جو ہنسنے والی گیس کے طور پر جانی جاتی ہے۔

کیمرون نے اپنی ایک میڈیکل فائل میں لکھا، ’30 اپریل تک، مریض کا سکین ہو چکا تھا۔۔۔ نائٹرس آکسائیڈ دیے جانے پر وہ کافی تناؤ کا شکار اور انتہائی پرتشدد ہو گئی تھی، ان کا آدھا جسم بستر کے اوپر تھا اور وہ چیخنے لگی تھی۔‘

یہ فائل لانا پونٹنگ نے معلومات کی آزادی کی درخواست کے ذریعے حاصل کی تھی۔

مونٹریال میں ایلن میموریل انسٹی ٹیوٹ وہ جگہ ہے جہاں کینیڈا میں سی آئی اے کی حمایت یافتہ تجربات ہوئے
BBC
مونٹریال میں ایلن میموریل انسٹی ٹیوٹ وہ جگہ ہے جہاں کینیڈا میں سی آئی اے کی حمایت یافتہ تجربات ہوئے

ایک طویل قانونی جنگ

سخت حقیقت یہ ہے کہ ایم کے الٹرا (MK-Ultra) تجربات کی خبر پہلی بار 1970 کی دہائی میں سامنے آئی۔

اس کے بعد، کئی متاثرین نے امریکہ اور کینیڈا کے خلاف مقدمے دائر کرنے کی کوشش کی۔ امریکہ میں یہ مقدمے زیادہ تر ناکام رہے، لیکن 1988 میں ایک کینیڈین جج نے امریکی حکومت کو حکم دیا کہ وہ نو متاثرین کو 67,000 ڈالر ادا کرے۔

سنہ 1992 میں، کینیڈین حکومت نے 77 متاثرین کو 80,000 امریکی ڈالر ادا کیے، اگرچہ اس نے ذمہ داری قبول نہیں کی۔

لانا پونٹنگ ان میں شامل نہیں تھیں کیونکہ ان کے مطابق انھیں ابھی تک معلوم نہیں تھا کہ وہ بھی متاثرین میں سے ہیں۔

دہائیوں تک انھیں شک تھا کہ ان کے ساتھ کچھ غلط ہوا لیکن انھیں یہ پتہ نہیں تھا کہ وہ ان تجربات میں شامل رہی ہیں، اور یہ حقیقت انھیں حال ہی میں معلوم ہوئی۔

ان کا کہنا ہے کہ انھیں ایلن (Allan)میں کیا ہوا، یا اس کے بعد آنے والے سالوں کی بہت کم یادیں ہیں۔

لانا پونٹنگ کی شادی ہوئی اور وہ مینیٹوبا منتقل ہوگئیں، جہاں ان کے دو بچے ہوئے جن کے ساتھ ان کا آج بھی قریبی تعلق ہے، اور اب وہ چار پوتے پوتیوں کی دادی ہیں۔

لیکن وہ کہتی ہیں کہ انھیں ایلن میں اپنے وقت کے طویل مدتی اثرات نے ہمیشہ متاثر کیا ہے۔

وہ کہتی ہیں ’میں نے اپنی پوری زندگی میں یہ محسوس کیا کیونکہ میں سوچتی تھی کہ میں اس طرح کیوں سوچتی ہوں یا میرے ساتھ کیا ہوا تھا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ انھیں اپنی پوری زندگی ذہنی صحت کے مسائل سے نمٹنے کے لیے دوائیں لینا پڑیں، جنہیں وہ اس تجرباتی ادارے میں گزارے گئے وقت سے جوڑتی ہیں، ساتھ ہی انھیں بار بار ڈراؤنے خواب بھی آتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں ’کبھی کبھی میں رات کو چیختے ہوئے جاگ جاتی ہوں، جو کچھ میرے ساتھ ہوا اس کی وجہ سے۔‘

علامتی تصویر
Getty Images

انصاف کا انتظار

رائل وکٹوریہ ہسپتال اور میک گل یونیورسٹی نے اس معاملے میں تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ معاملہ عدالت میں ہے۔

حکومت نے بی بی سی کو 1992 کے اپنے سابقہ معاہدے کی طرف حوالہ دیا، جس کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ یہ ’انسانی ہمدردی‘ کی بنیاد پر کیا گیا تھا اور اس میں قانونی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی تھی۔

لانا پونٹنگ کے لیے، یہ مقدمہ ان کی زندگی کے اس باب کو بالآخر بند کرنے کا ایک موقع ہے۔

وہ کہتی ہیں ’کبھی کبھی میں اپنے لیونگ روم میں بیٹھی ہوتی ہوں اور میرا ذہن ماضی میں چلا جاتا ہے اور میں سوچتی ہوں کہ میرے ساتھ کیا کچھ ہوا تھا، جب بھی میں کیمرون کی کوئی تصویر دیکھتی ہوں، مجھے بہت غصہ آتا ہے۔‘

اگرچہ کیمرون کا کام ایم کے الٹرا تجربات کا مترادف بن چکا ہے، ٹوربے کہتے ہیں کہ ان کی تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیمرون اس وقت نہیں جانتے تھے کہ انھیں سی آئی اے کی جانب سے فنڈ کیا جا رہا ہے۔

ان کا امریکی خفیہ ایجنسی کے ساتھ تعاون 1964 میں ختم ہو گیا تھا اور اس کے کچھ ہی عرصے بعد وہ 1967 میں دل کا دورہ پڑنے سے وفات پا گئے۔

لیکن، چاہے وہ فنڈنگ کے ذریعے سے واقف تھے یا نہیں، ٹوربے کا کہنا ہے کہ انھیں معلوم ہونا چاہیے تھا کہ ان کے تجربات غیر اخلاقی تھے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ وہ امید کرتے ہیں کہ مقدمہ آگے بڑھے گا اور متاثرین کو کسی نہ کسی شکل میں انصاف کا احساس ملے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ واقعی اس بارے میں نہیں ہے کہ مریضوں کو وہ سب کچھ واپس دیا جائے جو انھوں نے کھو دیا کیونکہ وہ ممکن نہیں بلکہ اس بارے میں ہے کہ یہ یقینی بنایا جائے کہ ان کی تکلیف بے مقصد نہ تھی اور ہم اس سے کچھ سیکھیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US