"میری بیٹی صرف ساڑھے پانچ سال کی تھی، جب ڈاکٹرز نے کہا کہ اس کے آنتوں میں پولِپ ہے اور فوری آپریشن ضروری ہے۔ میں نے سوچا کہ شاید آپریشن سے میری بچی کا درد ختم ہو جائے گا، لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا... وہ آپریشن ٹیبل پر ہی مجھ سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئی۔ اس کے بعد لوگوں نے الٹا مجھے ہی قصوروار ٹھہرا دیا کہ میں نے اپنی بیٹی کو کھو دیا۔"
یہ دردناک اعتراف سینئر اداکارہ نعیمہ خان نے شاعر و میزبان وسی شاہ کے پروگرام میں آنسوؤں کے ساتھ کیا، جہاں وہ اپنی تین دہائیوں پر مشتمل فنی سفر، خاندان اور اپنی زندگی کے نشیب و فراز پر بات کر رہی تھیں۔
پاکستان ٹیلی ویژن کے سنہری دور سے وابستہ نعیمہ خان اپنی سادہ مگر جاندار اداکاری کے باعث ہمیشہ ناظرین کے دلوں میں خاص مقام رکھتی ہیں۔ مگر اس بار ان کا کردار نہیں، بلکہ ان کی ماں بننے کی داستان سب کے دلوں کو چھو گئی۔
نعیمہ خان نے بتایا کہ ان کی بیٹی جب پہلی جماعت میں تھی تو اچانک طبیعت خراب ہوئی۔ اسپتال لے جانے پر معلوم ہوا کہ آنتوں میں پولپ ہے، جس کے علاج کے لیے آپریشن ہی واحد حل بتایا گیا۔ ایک ماں کی حیثیت سے انہوں نے فوراً فیصلہ کیا کہ اپنی بچی کو درد سے نجات دلانا ہی ان کی ذمہ داری ہے، مگر یہ آپریشن ان کی زندگی کا سب سے خوفناک موڑ ثابت ہوا۔ وہ لمحہ جب ڈاکٹرز نے انہیں بتایا کہ ان کی بیٹی اب نہیں رہی، ان کی دنیا ہی اجڑ گئی۔
انہوں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا، "اس دکھ کے بعد نہ صرف میرا دل ٹوٹا بلکہ لوگوں کے طعنے بھی برداشت کرنے پڑے۔ کسی نے کہا میں نے لاپرواہی کی، کسی نے کہا کہ میں نے جلدبازی میں اپنی بچی کو کھو دیا، لیکن کوئی یہ نہ سمجھ سکا کہ ایک ماں نے اپنی جان سے پیاری اولاد کو کیسے اپنی آنکھوں کے سامنے کھویا۔"
نعیمہ خان نے مزید بتایا کہ اس حادثے کے بعد جب ان کی دوسری بیٹی پیدا ہوئی، تو انہیں محسوس ہوا کہ ان کی پہلی بچی لوٹ آئی ہے۔ انہوں نے جذباتی لہجے میں کہا، "میں ابھی بے ہوش تھی جب خواب میں اپنی وہی بچی میرے پاس آئی اور کہا، 'امی میں واپس آ گئی ہوں'۔ اس کے بعد میں نے اسے دو بار خواب میں دیکھا، اور ہر بار دل میں یہی یقین پختہ ہوا کہ میری وہ بیٹی مجھے دوبارہ مل گئی ہے۔"
یہ کہانی صرف ایک ماں کے دکھ کی نہیں، بلکہ اس یقین کی ہے کہ محبت کبھی ختم نہیں ہوتی، وہ کسی نہ کسی صورت لوٹ آتی ہے۔ نعیمہ خان کے ان الفاظ نے سننے والوں کو رُلا دیا، مگر ساتھ ہی یہ احساس بھی دلایا کہ فنکاروں کے چہروں پر مسکراہٹ کے پیچھے کتنے درد چھپے ہوتے ہیں۔