اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ آپ اداکارہ ریما لامبا کو جانتے ہیں تو شاید آپ کا جواب نفی میں ہوگا۔ اگر آپ ایک خاص اداکارہ کے بہت بڑے مداح نہیں ہیں تو آپ کے بہت زیادہ غور کرنے پر بھی شاید آپ کو کچھ یاد نہ آئے۔لیکن ملائکہ اروڑوہ کے بارے میں لکھتے ہوئے مجھے یاد آیا کہ ملیکا یا ملکہ شراوت بھی تو انتہائی بولڈ اداکارہ تھیں جو ایک چھوٹے سے قصبے سے آئیں اور بالی وڈ کے حواس پر چھا گئیں۔یہ تجسس ہوا کہ ان دنوں وہ کہاں ہیں اور کیا کر رہی ہیں تو پتہ چلا کہ آج تو ان کا 49 واں جنم دن ہے اور پھر کیا تھا ہم نے ان کی تلاش شروع کر دی۔وہ ہم کو کہاں ملیں یہ باتیں بعد میں لیکن پہلے ان کے جنم دن پر ہم ان کے جدوجہد کی کہانی جانے کی کوشش کرتے ہیں جو کسی مسالہ فلمی کہانی سے کم نہیں۔ اور اگر کبھی ان کی بایوپک بنائی جاتی ہے تو وہ یقینا ہٹ رہے گی۔ہاں، تو ہم ریما لامبا کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ خیال رہے کہ ملیکا شراوت ہی ریما لامبا ہیں اور جب 24 اکتوبر 1976 کو وہ ہریانہ کے حصار ضلعے کے موتھ گاؤں میں لامبا خاندان میں پیدا ہوئيں تو انھیں ’ریما‘ نام دیا گیا۔ یہ ریاست لڑکوں کی محبت کے لیے بدنام ہے کیونکہ یہاں مردوں کی شرح کہیں زیادہ ہے۔ اور لڑکیوں کی پیدائش کوئی بہت خوشی کی بات نہیں۔لیکن ان کی تعلیم اور پرورش انڈین دارالحکومت دہلی میں ہوئی جو ان کے آبائی گھر سے بہت زیادہ دور نہیں۔ ابتدائی تعلیم متھرا روڈ پر قائم معروف دہلی پبلک سکول سے کی جبکہ دہلی یونیورسٹی کے کالج میرانڈا ہاؤس سے فلسفے میں ڈگری حاصل کی۔فلموں سے قبل انہوں نے امیتابھ بچن اور شاہ رخ خان جیسے بڑے سٹار کے ساتھ اشتہار میں کام کیا تھا لیکن فلموں میں ان کی انٹری بہت معمولی رہی۔ ان کی پہلی فلم ’جینا صرف میرے لیے‘ (2002) میں وہ ریما لامبا کے نام سے ہی آئیں۔لیکن اس کے اگلے سال آنے والی رومانٹک فلم ’خواہش‘ (2003) نے یہ پیغام دیا کہ انڈین سینما کے افق پر ایک ایسا ستارہ طلوع ہوا ہے جو نوجوانوں میں ہیجان پیدا کر دے گا۔ اس کے بعد معروف فلم ساز مہیش بھٹ نے اپنے بھانجے عمران ہاشمی کے ساتھ ملیکا کو فلم ’مرڈر‘ میں کیا پیش کیا کہ انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔
ملیکا شراوت سماج کے ٹیبوز پر بھی کھل کر بات کرنے کے لیے مشہور ہوئیں۔ فوٹو: انسٹاگرام
ناقدین نے فلم کے جرات مندانہ کردار میں ان کے اعتماد کو نوٹ کیا اور عمران کے ساتھ ان کے بوس و کنار کے منظر پر ہر سطح سے بات ہوئی۔ انہوں نے بولڈ سین کی نئی عبارت لکھی۔
انگریزی اخبار دی انڈین ایکسپریس کے مطابق کہیں اسے فلم میں بڑھتی ولگریٹی کے نام پر مسترد کیا گیا تو کہیں اسے خواتین کی جنسیت کا پرتو کہا گيا۔ فلم کے بعد انھوں نے انٹرویوز میں واضح طور پر بیان کیا ہے کہ کس طرح ان کی آن سکرین بولڈ شخصیت نے ان کے بارے میں لوگوں کے تاثرات کو تشکیل دیا، اور یہ تاثرات مثبت اور منفی دونوں تھے۔انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے ملیکا شراوت نے کہا: ’میں بہت خوش قسمت تھی۔۔۔ میں ممبئی آئی۔ مجھے خواش اور مرڈر جیسی فلمیں ملیں۔ مجھے زیادہ جدوجہد نہیں کرنی پڑی۔ لیکن فلموں کے بعد بہت سارے مرد اداکاروں نے میرے ساتھ بہت زیادہ آزادی لینا شروع کر دیا۔‘درحقیقت، بالی وڈ میں ان کی ابتدائی شبیہہ کی تعریف روایتی ’ہیروئن‘ سے ہٹ کر تھی اور وہ بھی ایسے وقت جب ہندوستانی سنیما جنسیت اور خواتین کی خودمختاری کی عکاسی کے معاملے میں جدوجہد کر رہا تھا۔فلم ’مرڈر‘ کے بعد ملیکا شراوت مختلف فلموں میں نظر آئیں۔ جن میں رومانس کامیڈی ’پیار کے سائیڈ ایفیکٹس‘ (2006) میں ان کے کردار کو سراہا گیا۔ اس میں وہ ’خواہش‘ اور ’مرڈر‘ جیسی فلموں کے کردار سے مختلف کردار ادا کر رہی تھیں۔اگلے سال بلاک بسٹر کامیڈی فلم ویلکم (2007) میں وہ مرکزی دھارے کی فلم میں نظر آئيں۔ لیکن اس سے قبل ہی وہ انڈیا کے باہر بھی اپنے لیے مواقع تلاش کر رہی تھیں چنانچہ اس حوالے سے انھیں چینی فلم ’دی متھ‘ میں دیکھا جا سکتا ہے۔
ملیکا شراوت ان دنوں لاس اینجلس میں مقیم ہیں۔ فوٹو: انسٹاگرام
ملیکا شراوت اپنے بولڈ سینز کے ساتھ ساتھ سماج کے ٹیبوز پر بھی کھل کر بات کرنے کے لیے مشہور ہوئیں۔ انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے کاسٹنگ کاؤچ، سنیما میں خواتین پر عائد کی جانے والی اخلاقیات، ہیرو اور ہیروئنز کی عمر پر دوہرے معیار، اور پلاسٹک سرجری وغیرہ پر بات کی۔
انڈیا ٹوڈے کے مطابق انہوں نے کئی پروجیکٹس صرف اس لیے کھو دیے کیونکہ ان سے ’آف سکرین مباشرت‘ کے لیے کہا گیا اور انہوں نے انکار کر دیا۔انہوں نے اس حقیقت پر بھی بات کی کہ انہیں ان کے بولڈ سین کی وجہ سے ’ٹائپ کاسٹ‘ بنا دیا گيا اور ان کی اسی قسم کے کردار کے لیے موزوں ہونے کی شبیہ بنائی گئی۔بہرحال انڈیا میں ہالی وڈ اور انڈین سینما سے باہر جانے کا ایک دور آیا جس میں پرینکا چوپڑا اور دیپکا پاڈوکون پیش پیش نظر آتی ہیں کہ انہوں نے ہالی وڈ کے ساتھ کئی اہم پروجیکٹس کیے۔ اس رجحان کے پیش نظر ملیکا شراوت نے بھی قسمت آزمائی کی اور سب سے پہلے وہ معروف اداکار جیکی چین کے فلم ’متھ‘ میں نظر آئیں۔اس کے دس سال بعد وہ ڈینیل لی کی چینی ایڈونچر فلم ’ٹائم ریڈرز‘ میں جُنگ بوران اور لوہان کے ساتھ نظر آئیں۔ انڈین سینما نے ایک طرح سے ان کے بولڈ موقف کی وجہ سے ان سے اپنا منہ موڑ لیا۔
ملیکا شراوت فٹنس سے متعلق اپنی ویڈیوز اور تصاویر پوسٹ کرتی رہتی ہیں۔ فوٹو: انسٹاگرام
اب ملیکا شراوت اپنے کیریئر کے ایک مختلف مرحلے پر ہیں تاہم وہ سوشل میڈیا پر سرگرم ہیں۔
گذشتہ سال انہوں نے ’وکی ودیا کا وہ والا ویڈیو‘ میں اداکار راج کمار راؤ کے ساتھ فلموں میں واپسی کی ہے۔ اسی طرح مارچ 2025 میں ایسی رپورٹس آئی تھیں کہ وہ ایڈونچر ریئلٹی ٹی وی شو ’خطروں کے کھلاڑی‘ کے 15ویں سیزن میں شامل ہو سکتی ہیں۔اسی طرح سلمان خان کی میزبانی والے ریئلٹی شو ’بگ باس-19‘ میں بھی ان کی شمولیت کی بات ہو رہی تھی لیکن جولائی 2025 میں عوامی طور پر یہ بھی واضح کیا کہ وہ اس میں شرکت نہیں کر رہی ہیں۔کئی حالیہ انٹرویوز میں انہوں نے انڈسٹری میں عمر پرستی کے بارے میں بات کی ہے اور انہوں نے ان کرداروں سے منع کر دیا ہے جو انہیں ’ماں‘ کے طور پر پیش کرنے کے خواہاں تھے۔ انہوں نے پلاسٹک سرجری یا بوٹوکس کروانے سے بھی انکار کیا ہے۔فلموں سے الگ انہوں نے سماجی مسائل پر کھل کر بات کی ہے۔ مثال کے طور پر کانز فلم فیسٹیول میں انہوں نے ’انسانی اسمگلنگ‘ کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے ’لاک می اپ‘ کیج سٹنٹ میں حصہ لیا۔وہ اکثر اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو خواتین کو بااختیار بنانے، خود کی تصویر اور خود مختاری کے بارے میں بات کرنے کے لیے بھی استعمال کرتی ہیں۔
بالی وڈ میں قدم رکھنے سے قبل انہوں نے امیتابھ بچن کے ساتھ اشتہار میں کام کیا تھا۔ فوٹو: انسٹاگرام
انہیں ہم نے تلاش کیا تو وہ لاس اینجلس میں اپنے ایک خوبصورت سے گھر میں رہتی ملیں جس کے بارے میں وہ اپنے انسٹا گرام پر پوسٹ کرتی رہتی ہیں۔ وہ اپنے اس فارم ہاؤس نما گھر کی سیر بھی کراتی ہیں جہاں سوئمنگ پول، بڑے گھنے درخت، سبزہ زار وغیرہ ہیں۔ کسی اعلٰی متوسط طبقے کی سوچ سے بھی عمدہ رہائش ہے۔
ان کے ساتھ وہاں ان کا کتا بھی نظر آتا ہے۔ وہ فٹنس سے متعلق اپنی ویڈیوز اور تصاویر شیئر کرتی رہتی ہیں۔ابھی حال ہی میں انہوں نے ہندو تہوار دیوالی کی مناسبت سے تصاویر شیئر کیں اور وہ جب بھی اپنے گھر سے باہر بیرون ملک جاتی ہیں تو وہ ایسی پوسٹ کرتی ہیں کہ جیسے وہ اپنے گھر کو شدت کے ساتھ یاد کر رہی ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ انڈیا میں او ٹی ٹی پلیٹ فارمز آنے کے بعد فلم ناظرین آگے بڑھ چکے ہیں اور شاید ہی کسی کو ملیکا شراوت کی یاد آئے جو ایک زمانے میں ’بولڈ سین‘ کا مترادف تھیں۔