پنجاب حکومت کی جانب سے گندم اور آٹے کی بین الصوبائی نقل و حمل پر عائد پابندیوں کے باعث خیبر پختونخوا میں گندم اور آٹے کا شدید بحران پیدا ہوگیا ہے جس کے نتیجے میں صوبے میں گندم اور آٹے کی قیمتیں ریکارڈ بلندیوں کو چھو رہی ہیں۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمد سہیل آفریدی کی ہدایت پر محکمہ خوراک خیبر پختونخوا نے حکومت پنجاب کو خط لکھ کر اس اقدام کو غیر آئینی قرار دیدیا ہے، خیبر پختونخوا کے محکمہ خوراک نے خط میں پنجاب کے محکمہ پرائس کنٹرول سے درخواست کی ہے کہ وہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 151 (1) کے تحت دیے گئے بین الصوبائی تجارت کے حق کا احترام کرتے ہوئے یہ پابندیاں فوری طور پر اٹھائے۔
خط کے مطابق خیبر پختونخوا گندم پیدا کرنے والا صوبہ نہیں ہے اور اسے اپنی روزانہ کی 14 ہزار 500 میٹرک ٹن کی ضروریات پوری کرنے کے لیے پنجاب سے درآمد پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ تاہم پنجاب کی جانب سے لگائی گئی پابندیوں نے سپلائی چین کو سخت متاثر کیا ہے۔
حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق پابندیوں کے بعد گندم اور آٹے کی قیمتوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ پشاور میں 100 کلو گندم کی قیمت 13 اگست کو 6 ہزار 175 روپے تھی جو 22 اکتوبر تک بڑھ کر 10 ہزار 675 روپے تک جا پہنچی، اسی طرح 20 کلو اسپیشل آٹے کا ریٹ ایک ہزار 630 روپے سے بڑھ کر 2 ہزار 630 روپے ہوگیا یعنی تقریباً دگنا اضافہ ہوا ہے۔
خیبر پختونخوا کے محکمہ خوراک کا کہنا ہے کہ اگرچہ 2 ہزار میٹرک ٹن آٹے کی ترسیل کی اجازت دی گئی ہے تاہم یہ مقدار صوبے کی روزانہ کی ضروریات کے لیے ناکافی ہے، یہ مسئلہ 17 اکتوبر 2025 کو وزیر اعظم پاکستان کی زیر صدارت ہونے والے اعلی سطح کے اجلاس میں بھی اٹھایا گیا تھا اور خیبر پختونخوا کو درپیش گندم کے بحران پر خصوصی توجہ دلائی گئی تھی۔
خط میں متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر پابندیاں برقرار رہیں تو آنے والے دنوں میں صوبے میں گندم اور آٹے کی قلت ہوسکتی ہے، اس صورت حال نے صوبے کی عوامی غذائی سلامتی کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے اور مارکیٹ کی قیمتوں میں عدم استحکام پیدا کر دیا ہے۔