نایاب معدنیات: کیا چین کے ہاتھ ڈونلڈ ٹرمپ کی دُکھتی رگ لگ چکی ہے؟

چین کو ان نایاب معدنیات کی پروسیسنگ میں تقریبا اجارہ داری حاصل ہے جو سمارٹ فونز سے لے کر لڑاکا طیاروں تک ہر چیز کی تیاری کے لیے اہم ہے۔
معدنیات
Getty Images

گذشتہ ہفتے چین کی وزارت تجارت نے ایک دستاویز شائع کی تھی جس کا عنوان تھا ’اعلان نمبر 62 برائے 2025‘۔

لیکن یہ محض کوئی بیوروکریٹک پیغام نہیں تھا کیونکہ اس نے امریکہ کے ساتھ جاری چین کی محصولات سے متعلق نازک سی ’جنگ بندی‘ کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

اس دستاویز کے ذریعے چین نے اپنی نایاب معدنیات کی برآمدات پر نئی پابندیوں کی تفصیل دی ہے۔ یہ ایک ایسا اقدام ہے جو اہم معدنیات کی عالمی فراہمی پر چین کی گرفت کو مضبوط کرے گا اور اس کے ذریعے ڈونلڈ ٹرمپ کو یاد دلایا گیا ہے کہ امریکہ کے ساتھ تجارتی جنگ جاری رہنے کی صورت میں چین کا کتنا فائدہ ہے۔

چین کو اِن نایاب معدنیات کی پروسیسنگ میں تقریباً اجارہ داری حاصل ہے، یہ معدنیات سمارٹ فونز سے لے کر لڑاکا طیاروں تک لگ بھگ ہر بڑی چیز کی تیاری میں استعمال ہوتی ہیں۔

نئے قوانین کے تحت غیر ملکی کمپنیوں کو اب ایسی مصنوعات برآمد کرنے کے لیے چینی حکومت کی منظوری کی ضرورت ہو گی، چاہے اُن مصنوعات میں نایاب معدنیات کی انتہائی تھوڑی سی مقدار بھی شامل ہو۔ کمپنیوں کو چینی حکومت کو معدنیات کے طے شدہ استعمال کے بارے میں بھی بتانا ہو گا۔

اس کے جواب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی چینی مصنوعات پر مزید 100 فیصد محصولات یعنی ٹیرف عائد کرنے اور اہم سافٹ ویئرز پر برآمدی کنٹرول لگانے کی دھمکی دی ہے۔

امریکی وزیر خزانہ سکاٹ بیسنٹ نے کہا ہے کہ ’یہ چین بمقابلہ دنیا ہے۔ انھوں نے سپلائی چین اور پوری آزاد دنیا کی صنعتی بنیاد پر ایک بازوکا (راکٹ لانچر کی قسم) تان لیا ہے اور ہم یہ برداشت نہیں کریں گے۔‘

جمعرات کو چین نے کہا تھا کہ امریکہ نے نایاب معدنیات پر عائد پابندیوں کے بارے میں جان بوجھ کر غیر ضروری غلط فہمی اور خوف و ہراس پیدا کیا ہے۔

چینی وزارت تجارت کے ترجمان نے مزید کہا کہ ’بشرطیکہ برآمدی لائسنس کی درخواستیں شہری استعمال کے لیے تیار ہوں، انھیں منظور کیا جائے گا۔‘

نایاب زمینی معدنیات ایف 35 جیسے لڑاکا طیاروں میں بھی استعمال ہوتی ہیں
Getty Images
نایاب زمینی معدنیات ایف 35 جیسے لڑاکا طیاروں میں بھی استعمال ہوتی ہیں

اس ہفتے دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں نے ایک دوسرے کے جہازوں پر نئی بندرگاہ فیس عائد کر دی ہے۔

مئی میں اعلیٰ امریکی اور چینی عہدیداروں کی ثالثی کے بعد تجارتی جنگ میں آنے والا سکون اب ختم ہوتا نظر آ رہا ہے۔

رواں ماہ کے اواخر میں ٹرمپ اور چین کے صدر شی جن پنگ کے درمیان ملاقات متوقع ہے اور ماہرین نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ نایاب معدنیات پر عائد پابندیوں کے باعث چین کو اس ملاقات میں برتری حاصل ہو گی۔

آسٹریلیا کی ایڈتھ کوون یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی بزنس لیکچرر ناؤس میک ڈوناگ نے کہا کہ چین کی نئی پابندیوں سے ’نظام کو جھٹکا‘ لگے گا کیونکہ وہ امریکی سپلائی چین میں کمزوریوں کو نشانہ بناتی ہیں۔

انھوں نے مزید کہاکہ ’ایسے وقت میں اس طرح کے اعلان نے واقعی مذاکرات کی اس ٹائم لائن کو متاثر کیا ہے، جیسی امریکی چاہتے تھے۔‘

نایاب زمینی معدنیات ٹیکنالوجی کی ایک پوری رینج جیسے سولر پینل، الیکٹرک کاروں اور فوجی آلات کی پیداوار کے لیے ضروری ہیں۔

مثال کے طور پر، ایک ایف-35 لڑاکا طیارے کو اس کے سٹیلتھ کوٹنگز، موٹرز، ریڈار اور دیگر پرزوں کے لیے 400 کلوگرام سے زیادہ نایاب معنیات کی ضرورت ہوتی ہے۔

ایڈوائزری فرم نیولینڈ گلوبل گروپ سے وابستہ نتاشا جھا بھاسکر نے کہا کہ چین کی نایاب معدنیات کی برآمدات بھی دنیا کی برقی گاڑیوں کی موٹروں میں مقناطیس کے لیے استعمال ہونے والی دھاتوں کی فراہمی کا تقریبا 70 فیصد ہے۔

یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سڈنی سے تعلق رکھنے والی اہم معدنیات کی محقق مرینا ژانگ نے کہا کہ بیجنگ نے عالمی نایاب معدنیات کی پروسیسنگ کی صلاحیت پر اپنا غلبہ حاصل کرنے کے لیے سخت محنت کی ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ملک نے اس شعبے میں ایک وسیع ٹیلنٹ پول کو پروان چڑھایا ہے، جبکہ اس کا تحقیق اور ترقی کا نیٹ ورک اپنے حریفوں سے برسوں آگے ہے۔

اگرچہ امریکہ اور دیگر ممالک نایاب معدنیات کی فراہمی کے لیے چین کے متبادل تیار کرنے کے لیے بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رہے ہیں، لیکن وہ ابھی بھی اس مقصد کو حاصل کرنے سے دور ہیں۔

نایاب معدنیات کے اپنے بڑے ذخائر کے ساتھ آسٹریلیا کو چین کے لیے ایک ممکنہ چیلنج سمجھا جا رہا ہے۔

مرینا ژانگکہتی ہیں کہ ’لیکن اس کا پیداواری بنیادی ڈھانچہ اب بھی غیر ترقی یافتہ ہے، جس کی وجہ سے پروسیسنگ نسبتا مہنگی ہے۔ یہاں تک کہ اگر امریکہ اور اس کے تمام اتحادی نایاب معدنیات کی پروسیسنگ کو ایک قومی منصوبہ بناتے ہیں توبھی میں کہوں گی کہ چین تک پہنچنے میں کم از کم پانچ سال لگیں گے۔‘

نایاب معدنیات اگرچہ چین کی برآمدات کا بڑا حصہ نہیں مگر اس کے باوجود دنیا کے لیے ان کی بہت اہمیت ہے
Getty Images
نایاب معدنیات اگرچہ چین کی برآمدات کا بڑا حصہ نہیں مگر اس کے باوجود دنیا کے لیے ان کی بہت اہمیت ہے

اپریل میں بیجنگ کی اعلان کردہ نئی پابندیوں کی وجہ سے عالمی سطح پر سپلائی کا بحران پیدا ہوا تھا۔

چین کے تازہ ترین سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ستمبر میں اہم معدنیات کی برآمدات میں ایک سال پہلے کے مقابلے میں 30 فیصد سے زیادہ کمی واقع ہوئی ہے۔

لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ برآمدات میں کمی سے چین کی معیشت کو نقصان پہنچنے کا امکان نہیں ہے۔

نیویارک یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی پروفیسر صوفیہ کالانٹزاکوس کا کہنا ہے کہ نایاب معدنیات چین کی سالانہ 18.7 کھرب ڈالر کی معیشت کا ایک بہت ہی چھوٹا حصہ ہیں۔

کچھ اندازوں کے مطابق برآمدات کی قیمت چین کی سالانہ مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کے 0.1 فیصد سے بھی کم ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگرچہ چین کے لیے نایاب معدنیات کی معاشی قدر بہت کم ہو سکتی ہے لیکن اُن کی سٹریٹجک قدر ’بہت بڑی ہے‘، کیونکہ وہ بیجنگ کو امریکہ کے ساتھ بات چیت میں زیادہ فائدہ دیتے ہیں۔

چین پر ’دھوکہ دہی‘ کا الزام لگانے کے باوجود بیسنٹ نے مذاکرات کے دروازے کھلے چھوڑے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’مجھے یقین ہے کہ چین بات چیت کے لیے تیار ہے اور مجھے امید ہے کہ اس میں کمی کی جا سکتی ہے۔‘

جمعرات کو امریکی نجی ایکویٹی گروپ بلیک سٹون کے چیف ایگزیکٹیو سٹیفن شوارزمین کے ساتھ ملاقات کے دوران چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے بھی بات چیت کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔

چینی وزارت خارجہ کی ویب سائٹ کے مطابق وانگ نے کہا کہ ’دونوں فریقوں کو مؤثر رابطے جاری رکھنے چاہییں، اختلافات کو مناسب طریقے سے حل کرنا چاہیے اور چین اور امریکہ کے تعلقات کی مستحکم، صحت مند اور پائیدار ترقی کو فروغ دینا چاہیے۔‘

پروفیسر کالانٹزاکوس نے کہا کہ چین نے حال ہی میں جو کچھ کیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ ان تجارتی مذاکرات سے پہلے ’چیزوں کو ترتیب دے رہا ہے۔‘

نتاشا بھاسکر کاکہنا ہے کہ نایاب معدنیات کی برآمدات کو روکنے کی شکل میں بیجنگ نے واشنگٹن پر سازگار معاہدے کے خاطر دباؤ ڈالنے کے لیے اپنا’بہترین لیور‘ ڈھونڈ لیا ہے۔

اعلی امریکی حکام نے حالیہ چینی فیصلے کے بعد چین کو ’ناقابل اعتماد‘ قرار دیا ہے
Getty Images
اعلی امریکی حکام نے حالیہ چینی فیصلے کے بعد چین کو ’ناقابل اعتماد‘ قرار دیا ہے

سنگاپور مینجمنٹ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے جیاؤ یانگ کا خیال ہے کہ اگرچہ بیجنگ کے پاس قلیل مدتی کارڈ ہیں، لیکن واشنگٹن کے پاس کچھ سٹریٹجک آپشنز موجود ہیں۔

پروفیسر جیاؤ کا کہنا ہے کہ امریکہ محصولات کو کم کرنے کی پیشکش کر سکتا ہے، جو بیجنگ کے لیے پُرکشش ہو گی کیونکہ تجارتی جنگ نے اس کے مینوفیکچررز کو سخت متاثر کیا ہے۔

چین کی معیشت اس کی بنائی اور برآمد کی جانے والی اشیا سے حاصل ہونے والی آمدنی پر انحصار کرتی ہے۔

تازہ ترین سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ کو اس کی برآمدات میں ایک سال پہلے کے مقابلے میں 27فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

پروفیسر میک ڈوناگ نے کہا کہ واشنگٹن چین کو مزید تجارتی پابندیوں کے ساتھ نشانہ بنانے کی دھمکی بھی دے سکتا ہے تاکہ اس کے ٹیکنالوجی کے شعبے کی ترقی کی کوششوں میں رکاوٹ پیدا ہو۔

مثال کے طور پر وائٹ ہاؤس نے پہلے ہی نویڈیاکے جدید ترین چپس کی خریداری کو روک کر چین کی اعلی سیمی کنڈکٹرز کی ضرورت کو نشانہ بنایا ہے۔

لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے اثرات صرف محدود ہونے کا امکان ہے۔

پروفیسر میک ڈوناگ نے کہا کہ ’بیجنگ کی ٹیک انڈسٹری کو نشانہ بنانے والے اقدامات چین کو سست کر سکتے ہیں لیکن یہ اسے مکمل طور پر ناکارہ نہیں بنا سکتے۔ ‘

انھوں نے مزید کہا کہ چین نے اپنی حالیہ معاشی حکمت عملی سے ظاہر کیا ہے کہ وہ اپنے طویل مدتی اہداف کے حصول کے لیے کچھ تکلیف برداشت کرنے کو تیار ہے۔

’چین معاملات کو ایسے ہی جاری رکھ سکتا ہے چاہے امریکی برآمدی کنٹرول کے تحت اس کی بہت زیادہ لاگت آتی رہے۔‘

’لیکن اگر چین ان نایاب معدنیات کی فراہمی کو منقطع کر دیتا ہے تویہ سچ میں ہر ایک کی صنعت کو روک سکتا ہے۔ ا سے بہت زیادہ فرق پڑے گا۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US