پاکستان میں 15 ستمبر سے ایچ پی وی ویکسین لگانے کی قومی مہم شروع کی جا رہی ہے۔ حکام کے مطابق ملک بھر میں نو سے 14 سال عمر کی لڑکیوں کو سرنج کے ذریعے یہ ویکسین دی جائے گی تاکہ انھیں بچہ دانی سے جڑے سرویکل کینسر سے بچایا جا سکے۔

پاکستان میں 15 ستمبر سے ایچ پی وی ویکسین لگانے کی قومی مہم شروع کی جا رہی ہے۔ حکام کے مطابق ملک بھر میں نو سے 14 سال عمر کی لڑکیوں کو سرنج کے ذریعے یہ ویکسین دی جائے گی تاکہ انھیں بچہ دانی سے جڑے سرویکل کینسر سے بچایا جا سکے۔
ماہرین کے مطابق سرویکل یعنی بچہ دانی کے منھ پر بننے والے کینسر کی تشخیص سکریننگ کے ذریعے ممکن ہےتاہم غفلت، تشخیص یا علاج میں تاخیر کے باعث یہسب سے جان لیوا کینسرز میں سے ایک ہے۔
پاکستان کے وزیر صحت مصطفی کمال نے بی بی سی کو بتایا کہ ویکسینیشن مہم کے پہلے مرحلے میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، پنجاب، سندھ اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بچیوں کو 15 ستمبر سے 27 ستمبر تک ویکسین لگوائی جا سکے گی۔ جبکہ دوسرے مرحلے میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں اس مہم کو شروع کیا جائے گا۔
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر (ڈی ایچ او) ڈاکٹر راشدہ بتول نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان میں ہر سال اندازاً پانچ ہزار خواتین سرویکل کینسر کا شکار ہوتی ہیں اور ان میں سے تین ہزار خواتین کی موت اسی بیماری کی وجہ سے ہوتی ہے۔
انھوں نے اس ویکسین کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’بدقسمتی سے خواتین سرویکل کینسر کی علامات پر تاخیر سے توجہ دیتی ہیں۔‘
ڈاکٹرز کے مطابق عام طور پر شادی شدہ یا بڑی عمر کی خواتین میں ہیومن پیپیلوما وائرس (ایچ پی وی) پایا جاتا ہے۔
تو سوال یہ ہے کہ پاکستان میں پہلی بار شروع ہونے والی ایچ پی وی ویکسین کی قومی مہم میں صرف نو سے 14 سال کی کم عمر بچیوں کو ہی کیوں شامل کیا جا رہا ہے؟
اس کے ساتھ ساتھ ایچ پی وی کیا ہے اور سرویکل کینسر کی علامات کیا ہیں؟ ہم نے اس تحریر میں انھی سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔

ایچ پی وی ویکسین کیا ہے اور پاکستان میں کس کو لگائی جائے گی؟
ہیومن پیپی لوما وائرس یعنی ایچ پی وی انسانی جسم میں جلد کی تہوں میں پایا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ایچ پی وی انفیکشن ہی ستّر فیصد سے زائد مریضوں میں سرویکل کینسر کا سبب بنتا ہے جو کہ چھاتی کے سرطان کے بعد دنیا میں خواتین میں پایا جانے والا سب سے عام سرطان ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق ایچ پی وی ویکسین اس وقت بہترین کام کرتی ہے جب بچیاں ابتدائی عمر میں ایچ پی وی وائرس کا شکار ہونے سے پہلے یہ لگوا لیں، کیونکہ یہ صرف انفیکشن سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ یہ وائرس لگ جائے تو پھر یہ جسم کو اس سے نجات نہیں دلا سکتا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ یہ وائرس اتنے بڑے پیمانے پر پھیل چکا ہے کہ بچیوں کو اُن کے بالغ ہونے سے پہلے ہی اس سے بچاؤ کی ویکسین لگوا لینا زیادہ فائدہ مند ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق ویکسین کی ایک یا دو ڈوزز کافی ہوتی ہیں جن افراد میں قوت مدافعت کی کمی ہے، انھیں اس کی تین ڈوزز بھی دی جا سکتی ہیں۔
ایچ پی وی وائرس کی تقریباً 100 سے زائد اقسام ہیں اور اس انفیکشن کی زیادہ تر علامات ظاہر نہیں ہوتیں، البتہ اس کی کچھ اقسام میں ہاتھ، پاؤں اور منھ کے اندر چھالے بن جاتے ہیں۔
بہت سے متاثرہ مریضوں کو کافی عرصے تک یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ انفیکشن کا شکار ہو چکے ہیں اور بہت سے کیسز میں بہتر قوت مدافعت کی وجہ سے بغیر کسی علاج کے اس وائرس سے نجات حاصل کر لیتے ہیں۔
لیکن ایچ پی وی کے زیادہ ہائی رسک کیسز میں ٹشوز کی غیر معمولی نشونما کینسر کا باعث بن سکتی ہے۔

’پاکستان میں سرویکل کینسر سے سالانہ قریب تین ہزار اموات‘
پاکستان میں اتنی کم عمر بچیوں کو ویکسین لگانے کے پیچھے حکمت عملی کیا ہے اور یہ مہم اس وقت شروع کرنے کی وجوہات کیا ہیں؟
اس سوال کے جواب میں وفاقی وزیر صحت مصطفی کمال نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پاکستان بھی عالمی ادارہ صحت کی اس مہم کا حصہ ہے جس کے تحت 2030 تک دنیا کی کم از کم 90 فیصد بچیوں کو ویکسین کے ذریعے سرویکل کینسر سے محفوظ بنانا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’پہلے مرحلے میں سندھ، پنجاب اسلام آباد اور (پاکستان کے زیر انتظام) کشمیر میں اس مہم کو شروع کیا جا رہا ہے۔ پہلے فیز میں ہمارا ہدف نو سے 14 سال کی عمر کی 1 کروڑ 30 لاکھ بچیوں کو ویکسین کے ذریعے سرویکل کینسر سے بچانا ہے جبکہ پورے پاکستان کے لیے ہمارا ٹارگٹ ایک کروڑ 80 لاکھ کم عمر بچیاں ہیں جنھیں اس خطرناک کینسر سے محفوظ بنایا جائے گا۔‘
مصطفی کمال کے مطابق یہ ویکسین بچیوں کو انجیکشن کی صورت میں دی جائے گی۔ اسلام آباد کے تمام سکولز، بنیادی صحت کے تمام مراکز اور دیگر مخصوص پوائنٹس پر بچیوں کو یہ ویکسین لگائی جائے گی۔
اسلام آباد کی ضلعی ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر راشدہ بتول نے بتایا کہ ’عالمی ادارہ صحت کی سفارشات کے مطابق اس ویکسین کی سب سے موثر عمر نو سے 14 سال ہے۔ اس عمر کی بچیوں کا مدافعتی نظام ویکسین کے خلاف سب سے مضبوط رد عمل پیدا کرتا ہے اور ویکسین کی سنگل ڈوز سے اس کینسر کے خلاف مکمل تحفظ مل جاتا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ پاکستان سمیت اس خطے اور دنیا کے بیشترممالک میں کینسر کی اس قسم کی شرح کافی ذیادہ ہے۔ ’پاکستان میں ہر سال اندازاً پانچ ہزار خواتین سرویکل کینسر کا شکار ہوتی ہیں اور ان میں سے تین ہزار خواتین اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔‘
ان کے مطابق ’بدقسمتی یہ ہے کہ زیادہ تر کیسز جب سامنے آتے ہیں تب بیماری آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہوتی ہے۔ اس مرض کو خاموش قاتل بھی کہا جاتا ہے کہ اس کی علامات تاخیر سے سامنے آتی ہیں یا عموما خواتین نظر انداز کر جاتی ہیں جس کے باعث بروقت روک تھام اور تشخیص محدود ہو جاتی ہے۔‘
ڈاکٹر راشدہ نے دعویٰ کیا کہ سرویکل کینسر سے بچاؤ کے لیے ویکسین وقت کی ضرورت ہے۔
’اس بار وفاقی اور صوبائی سطح پر ایک جامع اور بڑے پیمانے کی مہم کا مقصد بھی یہی ہے کہ آنے والی نسل کو ایسے مرض سے بچایا جائے جس سے نا صرف خواتین کی اپنی زندگی متاثر ہوتی ہے بلکہ ایک پورے خاندان اور معاشرے پر اس کا اثر پڑتا ہے۔‘

ایچ پی وی ویکسین کتنی موثر ہے؟
یہاں تک یہ بات تو واضح ہو گئی کہ کم عمر بچیوں کو ویکسین دینے کی وجہ کیا ہے تاہم کیا بڑی عمر کی خواتین کے لیے بھی سرویکل کینسر سے بچاؤ کے لیے ایچ پی وی ویکسین موثر ثابت ہوتی ہے؟
اس سوال کے جواب میں ڈی ایچ او ڈاکٹر راشدہ کا کہنا تھا کہ ’جہاں تک بڑی عمر کی خواتین کا تعلق ہے تو ویکسین ان کے لیے بھی کارگر ہے تاہم بڑی عمر میں مدافعتی نظام اتنا مضبوط نہیں ہوتا اس لیے ان کو ایک سے زائد ڈوز کی ضرورت ہوسکتی ہے۔‘
تاہم انھوں نے واضح کیا کہ ’حالیہ قومی مہم میں صرف بچیوں کو شامل کیا گیا ہے تاکہ ان کو مستقبل میں سرویکل کینسر کے خطرے سے دوررکھا جا سکے۔‘
’ایچ پی وی ویکسین شادی شدہ اور بڑی عمر کی خواتین کے لیے بھی فائدہ مند ہے تاہم سب سے ذیادہ موثر جب ہوتی ہے جب ان میں ایچ پی وی موجود نہ ہو۔ بعض دفعہ بڑی عمر یاجنسی تعلقات میںموجود خواتین میں یہ وائرس پہلے سے موجود ہوتا ہے اس لیے ان پر اس ویکسین کا اثر محدود ہو سکتا ہے۔‘
ساتھ ہی انھوں نے وضاحت دی کہ ’ تاہم پھر بھی یہ ویکسین مستقبل میں مزید انفیکشن یا بیماری کے بڑھنے سے تحفظ فراہم کر سکتی ہے اس لیے ڈاکٹر کے مشورے کے بعد خواتین یہ ویکسین لگوا سکتی ہیں لیکن اس قومی مہم میں صرف اس عمر کی بچیاں شامل ہیں۔‘
عالمی تحقیق کے مطابق ایچ پی وی ویکسین بچہ دانی کے منھ پر بننے والے کینسر سے طویل المدت تحفظ دیتی ہے۔ اس کا اثر کم از کم 15 سے 20 سال تک ہوتا ہے اور بعض صورتوں میں زندگی بھر کا تحفظ دیتا ہے۔
ڈاکٹر راشدہ کہتی ہیں کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس میں فی الحال بوسٹر کی ضرورت نہیں۔
’نو سے 14 سال تک کے ایج گروپ میں یہ ویکسین دی جائے تو بوسٹر کی ضرورت نہیں تاہم 14 سال کی عمر کے بعد قوت مدافعت اس قدر مضبوط نہیں رہتی کہ زندگی بھر کا تحفظ دے تو اس صورت میں بعض دفعہ بوسٹر کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔‘
مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ یہ ویکسین سرویکل کینسر کے کیسز میں 90 فیصد کمی کا باعث بن رہی ہے۔
پیپ سمیئر ٹیسٹ سے بروقت تشخیص
سرویکل کینسر کی تشخیص کے لیے سکریننگ کا طریقہ کار کیا ہے؟
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر راشدہ نے بتایا کہ اس کینسر کی ابتدائی تشخیص پیپ سمیئرسکریننگ کے ذریعے ممکن ہے۔
’پیپ سمیئر ٹیسٹ ہوتا ہے جس کے زریعے اس کینسر کی بروقت تشخیص ہو سکتی ہے اور ابتدائی سٹیجز پر علاج ممکن ہے تاہم بدقسمتی سے زیادہ تر خواتین معائنہ دیر سے کرواتی ہیں جس سے علاج مہنگا اور مشکل ہو جاتا ہے۔‘
واضح رہے کہ پیپ سمیئر میں ایک چھوٹے سےطبی اوزار سے کوئی کٹ لگائے بغیر سرویکس کے گرد گھما کر وہاں کے خلیات کا نمونہ لے لیا جاتا ہے۔
ان کے مطابق ویکسین کے زریعے بیماری سے بچاو سب سے موثر اور کم خرچ راستہ ہے۔
’ویکسین جسم کے مدافعتی نظام کو اس قدر محفوظ اور مضبوط بنا دیتا ہے کہ جب بھی ایچ پی وی وائرس جسم میں داخل ہو تو وہ بیماری پیدا نہ کر سکے۔ اس وائرس کے لیے اینٹی باڈیز پیدا ہو جاتی ہیں اور وہ وائرس سے لڑ کر اس کو بیماری کا سبب نہیں بننے دیتیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ایچ پی وی ویکسین 149 ممالک میں یہ پہلے ہی استعمال کی جا چکی ہے تو کہیں سے بھی اس کے سائیڈ ایفیکٹس رپورٹ نہیں ہوئے۔
’ ویکسین لگانے کے بعد ہلکا بخار، انجیکشن لگنے کے مقام پر ہلکی سی سرخی ہو سکتی ہے جس کے لیے پیراسیٹامول لی جا سکتی ہے۔‘
پاکستان میں ویکسین کے چیلنجز

یاد رہے کہ پاکستان میں جب سے پولیو مہم کا آغاز ہوا جب سے ہی ویکسین کے خلاف مخصوص پروپیگنڈا سامنے آتا دیکھا گیا۔ یہی معاملہ کووڈ 19 کی عالمی وبا کی ویکسین کے وقت بھی دیکھا گیا۔
کینسر کے خلاف حالیہ قومی مہم کی تشہیر میں بھی سوشل میڈیا پر اس ویکسین کے حوالے سےوقتاً فوقتاً تحفظات پر مبنی آرا سامنے آ رہی ہیں۔
تو کیا اس بار بھی حکومت کو ماضی کی طرح چیلینجز کا سامنا ہو سکتا ہے اور اس کے لیے کیا حکمت عملی اپنائی جا رہی ہے۔
اس سوال کے جواب میں وفاقی وزیر مصطفی کمال نےتسلیم کیا کہ چیلینجز ضرور ہیں لیکن ان کو مد نظر رکھ کر لوگوں کو سمجھایا اور سب کو ساتھ شامل کیا۔
’اس بار ہم نے آگاہی مہم سے پہلے ہی تمام مکتبہ فکر کو ساتھ شامل رکھا ہے جس میں تمام انفلوئنسرز، میڈیا، علما سمیت سب کو اعتماد میں لیا تاکہ اس مہم کو کامیاب بنایا جا سکے۔‘
انھوں نے ویکسین مخالف مہم کے حوالے سےسوال کے جواب میں پولیو کیسز کی مثال دی ۔
’ساڑھے پانچ کروڑ بچوں میں سے اگر 60 ہزاربچوں کو والدین پولیو کے قطرے نہیں پلوا رہے تو یہ شرح بہت کم ہے۔ جو لوگ پولیو کے قطرے پلوا رہے ہیں تو کیسز اسی لیے کم ہیں کیونکہ ورنہ کیسز 26 نہیں بلکہ 25 ہزارہوتے۔‘
ان کے مطابق سعودی عرب، ملائشیا، انڈونیشیا، متحدہ عرب امارات ، مڈل ایسٹ کے تمام ممالک ایچ پی وی ویکسین کو متعارف کروا چکے ہیں۔
دوسری جانبڈاکٹر راشدہ کہتی ہیں کہ ویکسین کے لیے آگاہی اور اس دوران مختلفافواہیں وہ ہمیشہ ہی بہت بڑا چیلینج رہی ہیں۔
’اس بار ہم نے موثر حکمت عملی بناتے ہوئے سکولوں، مساجد،کمیونٹی، والدین علما، میڈیا اور بچیوں کو اعتماد میں لیا۔ کمینوٹی میں بااثر افراد کو اعتماد میں لے کر بتایا کہ اس ویکسین کا مقصد کیا ہے اور مستقبل میں بچیوں کو کس طرح بچاؤ میں مددگار ہو گی۔‘
’بلوچستان اور خیبرپختونخواہ میں قومی مہم دوسرے مرحلے میں‘
وفاقی وزیر مصطفی کمال نے بلوچستان اور خیبرپختونخواہ میں ویکسین کا مرحلہ شروع نہ ہونے کے سوال پر بتایا کہ پہلافیز مکمل ہوتے ہی پھر اگلے ایک سے دو ماہ میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان بھی دوسرے مرحلے میں نو سے 14 سال کی بچیوں کو ویکسین لگائی جائے گی تاکہ بچیوں کا مستقبل محفوظ بنایا جائے۔
ان کے مطابق ’گاوی( بین الاقوامی ادارہ جو ترقی پزیر ممالک میں ویکسین کی فراہمی کے لیے کام کرتا ہے)اس میں ہمارا مرکزی ڈونر ہے جو ہمیں یہ ویکسین فراہم کر رہا ہے تاہم اس میں صوبوں کی پانچ فیصد کنٹریبیوشن ہے۔‘
ان کے مطابق دنیا بھر میں 150 سے زائد ممالک میں یہ ویکسین کامیابی سے متعارف کی جا چکی ہے اور تقریبا تمام مسلم ممالک اس کو استعمال کر چکے ہیں۔ گاوی اس میں ہمارا مرکزی ڈونر ہے لیکن صوبائی حکومتیں بھی اس میں حصہ ڈال رہی ہیں۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس پروگرام کے آغاز سے پہلے قومی سطح پر تمام صوبوں کے ساتھ اس پر مشاورت ہوئی اور صوبے اس پر رضا مند بھی ہیں تاہم سب نے اپنی اپنی ٹائم لائن سیٹ کی ہے۔
’خیبرپختونخوا اور بلوچستان نے کہا کہ ہم کو اپنے حصے کے فنڈز کے انتظاماتکے لیےتھوڑا وقت چاہیے تو وہ دونوں صوبے اس مہم کو دوسرے مرحلے میں مکمل کریں گے۔‘