پاکستان اور انڈیا کے میچز جو کبھی بازار سنسان کر دیا کرتے تھے، آج اپنی معنویت کھو رہے ہیں کہ ان ’ٹاکروں‘ میں اب مقابلے نامی کوئی شے ہی نہیں بچی۔ سو، جس ’برانڈ‘ کا انجام پہلے ہی معلوم ہو، اسے دیکھنے کا تکلف ہی کیسا؟

ممکن ہے براڈکاسٹرز اور عالمی کرکٹ کے اربابِ اختیار کے لیے یہ خوشی کی خبر نہ ہو، مگر پاکستانی شائقینِ کرکٹ کے لیے بہرحال اک نوید ہے کہ جو برانڈ سالہا سال ان کے اعصاب پہ سوار رہا، اب بالآخر وہ اپنے انجام کو جاتا نظر آتا ہے۔
پاکستان اور انڈیا کے میچز جو کبھی بازار سنسان کر دیا کرتے تھے، آج اپنی معنویت کھو رہے ہیں کہ ان ’ٹاکروں‘ میں اب مقابلے نامی کوئی شے ہی نہیں بچی۔ سو، جس ’برانڈ‘ کا انجام پہلے ہی معلوم ہو، اسے دیکھنے کا تکلف ہی کیسا؟
یہ حقیقت تسلیم کرنے میں عار نہیں ہونی چاہیے کہ آج دنیائے کرکٹ میں دو طبقے ہیں، ایک اوپری ذات کا طبقہ ہے جہاں گنے چنے دولتمند کرکٹ بورڈ بستے ہیں اور ایک نچلی ذاتوں کا طبقہ ہے جہاں باقی سبھی اپنی گزر بسر کرتے ہیں۔
یہ دونوں طبقے اپنی اپنی دنیاؤں میں مست رہتے ہیں، انڈیا ہر دوسرے سال آسٹریلیا اور انگلینڈ سے پانچ پانچ ٹیسٹ میچز کھیل لیتا ہے اور اگر آئی پی ایل کے باوجود کچھ وقت بچ رہے تو وہ بھی ہنسی خوشی ان ہی ٹیموں سے ون ڈے اور ٹی ٹونٹی سیریز کھیلتے نکل جاتا ہے۔
جہاں ایلیٹ طبقے میں پانچ پانچ ٹیسٹ میچز رواج پا رہے ہیں، وہیں دوسری جانب بات اب دو ٹیسٹ میچز سے بھی گھٹتے گھٹتے پانچ پانچ ٹی ٹونٹی کھیلنے تک آ چکی ہے۔

دقت مگر تب ہوتی ہے جب یہ دونوں طبقے سال بھر بعد کہیں ایک ہی میلے میں اکٹھے ہو جاتے ہیں اور معیارات کا فرق اپنے انتہائی درجے میں دکھائی دیتا ہے۔ مقابلہ یکسر بے جوڑ ہو جاتا ہے اور برانڈ کی بچی کھچی ساکھ گرنے لگتی ہے۔
اگرچہ ورلڈ ایونٹس اور کثیر قومی ٹورنامنٹس میں انڈیا کا پلڑا ہمیشہ پاکستان پہ بھاری ہی رہا ہے مگر دو دہائیاں پہلے یہ خلیج ایسی وسیع نہ تھی کہ جن کنڈیشنز میں انڈین ٹیم 180 رنز بنانے کی صلاحیت رکھتی ہو، وہاں پاکستانی بیٹنگ 130 تک بھی نہ پہنچ پائے۔
جن کنڈیشنز میں انڈین پیس اٹیک نے پاور پلے میں ہی پاکستان کو چوٹ پہنچا دی، وہاں پاکستانی پیس نے پہلے دو اوورز میں ہی میچ یکطرفہ کر دیا۔ جہاں انڈین سپنرز نے پاکستانی بلے بازوں کو مبہوت کر چھوڑا، وہاں پاکستانی سپنرز انڈیا کے لیے تر نوالہ ثابت ہوئے۔
ماڈرن ٹی ٹونٹی کرکٹ میں مار دھاڑ کا جو رجحان ہے، وہاں نئے آنے والے بلے بازوں کا سارا زور باؤنڈری عبور کرنے پہ ہی رہتا ہے۔ پاکستان کی نئی ٹی ٹونٹی اپروچ بھی اسی کے گرد گھومتی ہے۔
اور ایسے میں کوئی یہ نہیں جاننا چاہتا کہ جہاں چھ گیندوں پہ ایک چھکا اور ایک چوکا دس رنز دے سکتے ہیں، وہاں دوڑ کر دس رنز کیسے بنائے جا سکتے ہیں اور بے خطر کرکٹ کس طرح کھیلی جا سکتی ہے۔

پاکستانی تھنک ٹینک کو یہاں یہ بھی ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے کہ اگر وہ اپنی سٹریٹیجی سپن کے گرد ترتیب دے رہا ہے تو جواباً حریف سپنرز بھی عمل میں آئیں گے اور ان سے نمٹنے کو بلے بازوں کے پاس سویپ شاٹ جیسے وسائل بھی ہونا چاہییں۔
جہاں کنڈیشنز بلے بازی کے لِے آسان نہ ہوں اور حریف بولنگ اٹیک بھی اس کوالٹی کا ہو، وہاں بلے بازوں کو ادراک کرنا ہوتا ہے کہ سٹرائیک روٹیشن کے لِے بھی ویسی ہی محنت درکار ہو گی جو عمومی حالات میں باؤنڈری بٹورنے کو ہوتی ہے۔
انڈین سٹریٹیجی کی خوبی رہی کہ نہ صرف بولنگ اٹیک نے پاور ہٹنگ کے راستے روکے رکھے بلکہ سٹرائیک روٹیشن مشکل بنا کر ڈاٹ بالز کا پہاڑ بھی کھڑا کر دیا۔ اب جو بیٹنگ یونٹ اپنی آدھی اننگز صرف دفاع میں ہی گزار دے، وہ بھلا خود سے قوی حریف کا مقابلہ کیا کرے گا؟
کرکٹ کے دونوں طبقات میں مہارت اور معیار کا جس قدر فرق آ چکا ہے، وہاں پاکستان جیسی ٹیموں کے لیے انڈیا جیسی ٹیموں کو ہرا پانے کا ایک ہی رستہ ہے کہ وہ سٹریٹیجی میں انھیں مات کر دیں یا پھر ایک دو کھلاڑی اپنے قد سے بڑی پرفارمنس دکھا جائیں۔
پاکستان کرکٹ کے لیے مایوس کن ایک اور اتوار کا سبق یہ رہا کہ آج کے بعد وقوع پذیر ہونے والے ہر پاکستان انڈیا میچ کو ’برانڈ‘ سمجھنے کی بجائے ایک معمول کی کرکٹ کارروائی سمجھا جائے اور اس پہ اتنا ہی دھیان دیا جائے جتنا خود پی سی بی کرکٹ پہ دیتا ہے۔