الیکشن میں بھاری اکثریت کے لیے نریندر مودی کی منصوبہ بندی کیا ہے؟

image

انڈیا میں عام انتخابات چھٹے ہفتے میں داخل ہو چکے ہیں اور وزیراعظم نریندر مودی کی تصویریں غریبوں کو دیے گئے چاولوں کے پیکٹ سے لے کر شہروں اور قصبوں میں بڑے بڑے پوسٹروں تک ہر چیز پر نظر آ رہی ہیں۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) وزیراعظم کی مقبولیت پر بھروسہ کر رہی ہے کیونکہ وہ انڈیا کی پارلیمنٹ میں بھاری اکثریت حاصل کرنا چاہتی ہے۔

بی جے پی کا پیغام ہے کہ ’مودی نے اقتصادی ترقی دی، بنیادی ڈھانچے کی اپ گریڈیشن کی اور دنیا میں انڈیا کی پوزیشن کو بہتر بنایا ہے۔‘

بی جے پی اور اس کے اتحادیوں نے انڈیا کے ایوان زیریں کی 543 میں سے 400 نشستوں کو ہدف بنایا ہے جو کہ 2019 میں 352 سے زیادہ ہے۔ وہ کچھ ایسے اہم حلقوں میں مقامی حکمت عملی بھی استعمال کر رہے ہیں جس سے انہیں امید ہے کہ وہ اپوزیشن سے سیٹیں چھین لیں گے۔

رائے عامہ کے جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ یکم جون کو ووٹنگ ختم ہونے پر مودی تیسری بار غیر معمولی کامیابی حاصل کریں گے۔ لیکن انڈین تاریخ میں صرف ایک بار کسی پارٹی نے 400 کا ہندسہ عبور کیا ہے اور وہ بھی 1984 میں جب کانگریس پارٹی کی لیڈر اندرا گاندھی قتل ہوئیں۔

اس بات کا جائزہ لینے کے لیے کہ دائیں بازو کا قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) اس ہدف کو کس طرح حاصل کرے گی، روئٹرز نے این ڈی اے اور اپوزیشن لیڈروں، سیاسی تجزیہ کاروں اور دیگر لوگوں سے بات کی۔

انہوں نے بی جے پی کے تین اہم ہتھکنڈوں کی نشاندہی کی جن میں حزب اختلاف کے تجربہ کار ارکان اسمبلی کو ہٹانے کے لیے مشہور شخصیات کو کھڑا کرنا، مسیحوں جیسی اقلیتوں سے اپیل کر کے اپوزیشن کے جنوبی مضبوط گڑھ پر سبقت لینا اور دوبارہ کھینچی گئی اور ملک کے شمال میں کچھ اپوزیشن کے زیر کنٹرول علاقوں میں ہندو ووٹر کو اپنی جانب راغب کرنا شامل ہے۔

پارٹی کی انتخابی حکمت عملی کی نگرانی کرنے والے بی جے پی کے صدر جے پی نڈا نے اپریل میں روئٹرز کو بتایا تھا کہ ’حکمت عملی، تنظیمی وابستگی اور حکمت عملی کی لچک کا مجموعہ ایسی سیٹوں پر جگہ بنانے میں مدد کرے گا جو پہلے کبھی پارٹی کے پاس نہیں تھیں۔‘

کیرالہ کے ایک مسیحی ووٹر جیانت جوزف نے کہا کہ وہ بی جے پی کی حمایت کر رہے ہیں (فوٹو روئٹرز)کانگریس پارٹی کے صدر ملکارجن کھرگے نے کہا کہ ’مودی صرف بھاری اکثریت چاہتے ہیں تاکہ پارلیمنٹ میں کسی بھی پالیسی معاملے پر بحث و مباحثے کو ختم کیا جا سکے۔‘

ابتدائی ووٹنگ میں کم ٹرن آؤٹ کے بعد حالیہ دنوں میں بی جے پی کے کچھ عہدیدار بھاری اکثریت حاصل کرنے کے بارے میں کم پُراعتماد نظر آئے ہیں۔

مغربی حکمت عملی

بی جے پی کے صدر جے پی نڈا نے تسلیم کیا کہ بھاری اکثریت حاصل کرنے کے لیے پانچ جنوبی ریاستوں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا، جو انڈیا کی تقریباً 20 فیصد آبادی ہے، لیکن روایتی طور پر وہاں سے ان کی پارٹی کو ووٹ نہیں ملتے۔

2019 میں این ڈی اے نے آندھرا پردیش، کرناٹک، کیرالہ، تمل ناڈو اور تلنگانہ میں 130 میں سے صرف 31 سیٹیں جیتی تھیں، جہاں بہت سے مسلمان اور مسیحی ووٹر ہیں۔

کیرالہ میں بی جے پی کے اقلیتی ونگ کے جنرل سیکریٹری جیجی جوزف نے کہا کہ گزشتہ عام انتخابات میں کیرالہ میں بی جے پی کو ایک بھی سیٹ نہیں ملی تھی۔

کیرالہ کے ایک مسیحی ووٹر جیانت جوزف نے کہا کہ وہ بی جے پی کی حمایت کر رہے ہیں کیونکہ انہوں نے میڈیا رپورٹس پڑھی ہیں کہ مسلمان مرد مسیحی خواتین سے شادی کر کے انہیں اسلام قبول کروا رہے ہیں، تاہم زیادہ تر اعتدال پسند ہندو بڑے پیمانے پر جبری تبدیلی مذہب کے الزامات کو ایک سازشی نظریہ سمجھتے ہیں۔

کنگنا رناوت اس سال بی جے پی کے لیے انتخاب لڑنے والے پانچ اداکاروں میں سے ایک ہیں (فوٹو انڈین ایکسپریس)سٹار امیدوار

شمالی ریاست ہماچل پردیش کے منڈی حلقے میں بی جے پی نے اقتدار پر کانگریس پارٹی کی گرفت کو توڑنے کے لیے بالی ووڈ اداکارہ کنگنا رناوت کو کھڑا کیا ہے۔

اداکارہ اس سال بی جے پی کے لیے انتخاب لڑنے والے پانچ اداکاروں میں سے ایک ہیں۔

شمالی حکمت عملی

قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) شمال میں اپوزیشن کے زیر کنٹرول علاقوں میں ہندو ووٹر کو اپنی جانب راغب کے لیے بھی کوشاں ہے۔

این ڈی اے شمال مشرقی ریاست آسام میں کامیابی کی امید کر رہی ہے، جہاں اس نے 2019 میں 14 میں سے 9 سیٹیں جیتی تھیں۔ آسام کے بی جے پی کے وزیر اعلی، ہمنتا بسوا سرما نے مارچ میں کہا تھا کہ وہ 13 سیٹیں جیتنے کے لیے پراعتماد ہیں۔

اسی طرح جموں و کشمیر کی پانچ میں سے تین سیٹیں مسلم اکثریتی ہیں اور اپوزیشن کے پاس ہیں۔ لیکن این ڈی اے کو امید ہے کہ وہ ان میں سے ایک جیت لے گی۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.