وزیرِاعظم شہباز شریف کے گرد نواز شریف کے ہم خیال ساتھیوں کا اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟

گذشتہ روز پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے پاکستان مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ کو اپنا مشیر برائے سیاسی و عوامی امور مقرر کرنے کی خبر نے پاکستان کے سیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے، حال ہی میں ہونے والی ان تعیناتیوں کی وجہ کیا ہے؟
nawaz sharif
Getty Images

گذشتہ روز پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے پاکستان مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ کو اپنا مشیر برائے سیاسی و عوامی امور مقرر کرنے کی خبر نے پاکستان کے سیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ چند روز قبل ہی وزیرِاعظم شہباز شریف نے وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کو نائب وزیرِاعظم مقرر کیا تھا۔

وفاقی حکومت میں نظر آنے والی تبدیلوں کو زیادہ اہم اس لیے سمجھا جا رہا ہے کیونکہ رانا ثنا اللہ اور اسحاق ڈار دونوں ہی وزیرِاعظم شہباز شریف کے بڑے بھائی نواز شریف کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔

رانا ثنا اللہ کا شمار ن لیگ کے ان سینیئر رہنماؤں میں ہوتا ہے جو کہ رواں برس عام انتخابات میں شکست کے سبب اسمبلی تک نہ پہنچ سکے تھے۔

رانا ثنا اللہ اور میاں جاوید لطیف انتخابات کے بعد ن لیگ کے اندر سے اُٹھنے والی ان آوازوں میں سے تھے جو اپنی ہی جماعت کی کابینہ سے خوش نہیں تھے۔

رانا ثنا اللہ متعدد مرتبہ وزیرِ داخلہ محسن نقوی اور وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب پر تنقید کرتے ہوئے نظر آئے۔

ایک موقع پر انھوں نے محسن نقوی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا تھا کہ ’یہ ان کی مہربانی ہے کہ وہ وزیرِاعظم نہیں بننا چاہتے اور وزارتِ داخلہ پر ہی اکتفا کیا ہوا ہے انھوں نے۔ وہ جو چاہے بن سکتے ہیں۔‘

خیال رہے کہ یہ دونوں شخصیات کسی بھی سیاسی جماعت کا حصہ نہیں تھیں پھر بھی نہ صرف انھیں سینیٹر منتخب کروایا گیا بلکہ انھیں وفاقی کابینہ کا حصہ بھی بنایا گیا۔

وزیرِاعظم شہباز شریف وزارتِ عظمیٰ کے ساتھ ساتھ ن لیگ کی صدارت کی ذمہ داریاں بھی سنبھالے ہوئے ہیں اور رانا ثنا اللہ ان شخصیات میں سے ایک ہیں جو اعلانیہ کہہ چکے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ ’پارٹی کی صدارت اب نواز شریف خود سنبھالیں۔‘

وزیرِ خارجہ اور سینیٹر اسحاق ڈار کی بطور نائب وزیرِاعظم اور رانا ثنا اللہ کی وزیرِ اعظم کے مشیر برائے سیاسی و عوامی امور تقرریاں اس طرف اشارہ کر رہی ہیں کہ شاید سابق وزیرِاعظم نواز شریف اپنی جماعت اور حکومتی معاملات پر مزید کنٹرول حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔

نواز شریف، رانا ثنا اللہ، پاکستان، اسحاق ڈار
Getty Images
وزیرِ اعظم کے مشیر برائے سیاسی و عوامی اُمور رانا ثناءاللہ خان کو وفاقی وزیر کا درجہ حاصل ہو گا

کیا ن لیگ کے اندر کوئی رسہ کشی چل رہی ہے؟

رواں برس ہونے والے انتخابات سے قبل ن لیگ کی جانب سے کہا جا رہا تھا کہ نواز شریف چوتھی مرتبہ ملک کے وزیرِاعظم بنیں گے لیکن الیکشن کے نتائج کے بعد یہ رائے عام ہوئی کہ واضح مینڈیٹ اور اکثریت نہ ملنے کے سبب انھوں نے خود ہی وزارتِ عظمیٰ سے دور رہنے کو ترجیح دی تاہم نواز شریف کی جانب سے تاحال اس بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

نواز شریف اور ان کی جماعت نے شہباز شریف کو وزیرِاعظم کا امیدوار نامزد کیا اور وہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم) اور دیگر چھوٹی جماعتوں کی حمایت سے دوسری مرتبہ پاکستان کے وزیرِاعظم منتخب ہو گئے۔

پاکستان کی موجودہ اور ماضی کی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کی کابینہ میں ’مقتدرہ‘ (اسٹیبلشمنٹ) کے حمایت یافتہ لوگوں کی آمد سے ن لیگ میں اختلافات نے جنم لینا شروع کر دیا۔

لاہور میں مقیم سیاسی تجزیہ کار اجمل جامی کہتے ہیں کہ ’انتخابات کے بعد نواز شریف کے قریبی ساتھیوں کی جانب سے ایسے بیانات سامنے آئے جیسے کہہ رہے ہوں کہ نواز شریف کے ساتھ کوئی دھوکا ہو گیا ہو۔‘

نواز شریف، شہباز شریف، پاکستان، وزیر اعظم، ن لیگ
Getty Images
رانا ثنا اللہ ن لیگ پنجاب کے صدر ہیں جنھیں گذشتہ روز وزیرِ اعظم شہباز شریف کا مشیر برائے سیاسی امور تعینات کیا گیا ہے

ماضی میں بھی ن لیگ کے اندر تقسیم کی خبریں منظرِعام پر آتی رہی ہیں اور یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر کام کرنے کے حامی ہیں۔

اجمل جامی سمجھتے ہیں کہ ن لیگ اسحاق ڈار کی بطور نائب وزیرِاعظم اور رانا ثنا اللہ کی وزیراعظم کے مشیر کے تقرریوں کو ’معمول کی سرگرمی‘ قرار دے رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ یہ فیصلے ’سٹیک ہولڈرز‘ کی مشاورت سے کیے گئے ہیں۔

’لیکن میرے خیال میں یہ معمول کی سرگرمی نہیں ہے بلکہ ایسا معاملہ ہے جہاں سے اکثر کھٹ پٹ یا اختلافات کی ابتدا ہوتی ہے۔‘

لاہور میں مقیم تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ ’محسن نقوی اور محمد اورنگزیب کی وفاقی کابینہ میں شمولیت کے بعد ن لیگ کے کچھ رہنماؤں بشمول رانا ثنااللہ نے اپنی ہی جماعت کو طعنے دینا شروع کر دیے تھے کہ موجودہ حکومت ان کی جماعت کی حکومت نہیں۔‘

ان کے مطابق ’ن لیگ کے رہنماؤں کے ایسے بیانات نواز شریف کے بیانیے کے لیے تو اچھے تھے لیکن حکومت کے لیے نہیں۔

’رانا ثنا اللہ اور اسحاق ڈار کی تقرریوں سے حکومت نے اس تاثر کو رد کرنے کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ نواز شریف حکومت میں اپنی موجودگی کا احساس دلانے کی کوشش کر رہے ہیں اور انھیں اس میں کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔‘

نواز شریف، شہباز شریف، پاکستان، وزیر اعظم، ن لیگ
Getty Images
اسحاق ڈار کو پاکستان کا نائب وزیراعظم مقرر کیا گیا ہے

’پارٹی میں کوئی تقسیم نہیں‘

دوسری جانب ن لیگ اس تاثر کی تردید کرتی ہوئی نظر آتی ہے کہ جماعت میں کوئی تقسیم پائی جاتی ہے۔

ن لیگ کے رہنما نہال ہاشمی پارٹی رہنما رانا ثنا اللہ کے حالیہ بیانات کو ’تعمیری تنقید‘ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کا مقصد حکومت کی کارکردگی کو بہتر کرنا ہے۔

نہال ہاشمی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اسحاق ڈار کی نائب وزیرِاعظم اور رانا ثنا اللہ کی بطور مشیر تقرریاں ن لیگ کی حکمتِ عملی کا حصہ ہے جس کے تحت وہ معاشی اور سیاسی صورتحال کو بہتر کرنا چاہتے ہیں۔

’حال ہی میں وزیراعظم کی سعودی عرب میں متعدد غیر ملکی سربراہان سے معاشی معاملات پر بات چیت ہوئی ہے اور اسحاق ڈار کو نائب وزیراعظم اس لیے مقرر کیا گیا ہے تاکہ وہ بطور وزیرِ خارجہ بھی اور نائب وزیراعظم بھی ان معاملات پر فالو اپ کر سکیں۔‘

رانا ثنا اللہ کی وفاقی کابینہ میں شمولیت پر نہال ہاشمی نے کہا کہ ’وہ حکومت کی جانب سے سیاسی معاملات دیکھیں گے کیونکہ وزیراعظم اکثر غیر ملکی دوروں پر ہوتے ہیں اور انھیں ضرورت تھی ایک ایسے رہنما کی جو ان کا بوجھ بانٹ سکے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’جماعت میں کوئی تقسیم نہیں اور رہی بات نواز شریف صاحب کی پارٹی کی صدارت سنبھالنے کی تو جب 2017 میں ایک سازش کے تحت انھیں صدارت سے ہٹایا گیا تھا تو شہباز شریف نے خود کہا تھا کہ پارٹی کی صدارت نواز شریف کی امانت ہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.