الحاج محمد عباس خان…بیروٹ میں شرافت، دیانت اور نجابت کا ایک استعارہ

اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ انعامات انسان کیلئے ایسے ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے انسان کے مادی، فکری اور شعوری وزن میں اضافہ ہو جاتا ہے، ذات خداوندی نے ان انعامات کو اپنے قبضہ قدرت میں رکھا ہوا ہے، آپ جانتے ہیں کہ یہ انعامات و عطیات الہیٰہ(Devine Gifts)کیا ہیں، جن کیلئے کسی تعلیمی ڈگری، لمبے چوڑے خاندانی پس منظر یا اشرافیہ سے تعلق ہونا ضروری نہیں ہے…؟ ان میں رزق، صحت، علم، دولت، اولاد، عزت و وقار (دل سے) اور ادراک و وجدان شامل ہیں، بہت کم دنیائے قدیم سے عہد جدید تک ایسے لوگ ہیں جو ان انعامات سے اکٹھے سرفراز ہوئے یا انہوں نے اپنی قابلیت، اہلیت یا کسی اور وجہ سے انہیں حاصل کیا ہو۔ یہ انعامات نسبی و کسبی بھی نہیں اور ربُّ الارباب جسے چاہتا ہے ان انعامات کو بندوں کی جھولی میں ڈال دیتا ہے۔

آپ بیروٹ آئیں تو بغیر کسی تعارف کے محض یہ دریافت کریں کہ بیروٹ میں شرافت، نجابت اور دیانت میں افضل کون ہے تو آپ کو بہت سارے دوسرے لوگوں کے ساتھ ساتھ جس شخص کا نام ملے گا وہ الحاج محمدعباس خان مرحوم آف چھجہ، سنٹرل بیروٹ ہیں…سوال یہی ہے کہ آخر وہی کیوں؟

تقریباً ہم میں سے ہر آدمی یہ تجربہ تو ضرور رکھتا ہے کہ…لاریب… دولت بھی انعام خداوندی کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ کے بعد قاضیُ الحاجات ہے مگر اس کا سائیڈ ایفیکٹ یہ ہے کہ اگر یہ کم ظرف انسان کو اپنی بانہوں میں لے لے تو اس کی باڈی لینگویج، رویے بلکہ اکثر اوقات رشتوں تک کو بھلا دیتی ہے، ایسے صاحب ثروت کے معیاراتِ انسانی بھی بدل جاتے ہیں، اکثر ان کی ظاہری ٹپ ٹاپ دوسروں سے کورنش بجا لانے کا تقاضا بھی کرتی ہے، کچھ لوگ پوجا کی حد تک صاحب زر کی خوشامد میں آگے چلے جاتے ہیں مگر بہت کم لوگ ایسے ہیں کے اربوں روپے کے مالک (Billioners) ہونے کے باوجود اپنی پاکبازی ، خاکبازی، راست بازی، پارسائی اور شرافت و نجابت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے نہ ہی اپنے بھائی بندوں اور سماج کے کسی چھوٹے یا بڑے طبقہ کے کسی چھوٹے یا بڑے فرد کیلئے ان کے رویہ میں تبدیلی آتی ہے یا وہ اپنی باڈی لینگویج سے اظہار فخر و انبساط کی ہی نمائش کرتے ہیں، راقم الحروف نے اپنی زندگی میں ایسی ہی چند شخصیات کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا ہے، ان گنے چنے افراد میں میر خلیل الرحمٰن (بانی جنگ گروپ)، عبدالستار ایدھی اور حاجی محمد عباس خان شامل ہیں، یہ تینوں افراد اپنے عہد کی اتنی جائیداد، دولت اور اثر و رسوخ کے مالک تھے کہ اندازہ ہی کیا جا سکتا ہے، ان تینوں نے اپنے اپنے شعبے میں ایک امپائر کھڑی کی اور تینوں اپنے اپنے کام اور کارہائے نمایاں میں اتنے نمایاں ہو گئے کہ میں نے ان کی اردل میں بڑے بڑے فرعونوں کو ہاتھ باندھے کھڑا دیکھا ہے، برسوں پہلے میں سہریاں باسیاں میں بسم اللہ مارکیٹ کے پاس پنڈی جانے کیلئے کھڑا تھا کہ ایک سادہ سا آدمی وہاں سے گزرا، دعا سلام کی اور وہ آگے بڑھ گیا، وہاں ہی ایک اور شخص نے مجھ سے پوچھا کہ آپ انہیں جانتے ہیں، میں نے نفی میں سر ہلایا تو اس نے کہا کہ یہ باسیاں کا سب سے امیر کبیرآدمی ہے جس کے راولپنڈی، اسلام آباد اور کراچی میں ٹرانسپورٹ، ہوٹلنگ اور پٹرول پمپوں کے کاروبار ہیں اور سینکڑوں ملازمیں اس کے پاس کام کرتے ہیں۔ میں اس لئے حیران تھا کہ دولت کی اتنی فراوانی نے اس کی آنکھ سے حیا، دماغ سے شرافت اور اپنے رویے سے نجابت نہیں چھینی تھی اور اس نے میرے خُسر ماسٹر خطیب الرحمٰن جدون مرحوم کے حوالے سے میرے ساتھ جس گرمجوشی اور محبت سے ہاتھ ملایا تھا اس کے لمس اور گرمی کو آج تک نہیں بھول سکا۔

حاجی محمد عباس خان کو اگر بیروٹ کے (ڈھونڈ عباسی) نوائیسال قبیلہ کے ماتھے کا جُھومر کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا، اس قبیلے میں نمبردار حبیب اللہ خان بھی گزرے ہیں وہ بھی ان صفات ثلاثہ سے ہی متصف تھے اب ان کے صاحبزادے نمبردار گلاب خان ان کے سماجی مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں، حاجی محمد عباس خان کے والد اکرم خان نے 1946-49ء میں تحریک آزادی کشمیر میں بھی قابل فخر اور قابل تقلید کردار ادا کیا تھا، حاجی محمد عباس خان سردار عنایت الرحمٰن عباسی کے بھی دست راست تھے اور انہوں نے ان کی دامے، درہمے اور سخنے ہر طرح کی مدد اور حمایت کی تھی، میری حاجی محمد عباس خان سے 2009ء میں بہت تفصیلی ملاقات ہوئی، میں سیروڑہ کی طرف سے آ رہا تھا اور وہ شہپال مارکیٹ کے سامنے اپنی جیپ پارک کر رہے تھے، انہوں نے نہایت شفقت سے اپنے ساتھ چلنے کو کہا اور ہم نے ڈنہ کی مسجد میں نماز عصر ادا کی ، دوران گفتگو ان سے بیروٹ کے 100سو سال سے زائد افراد سے متعلق معلومات حاصل کیں،میں نے ان سے ان کی جد و جہدِ زندگانی کے بارے میں بہت کچھ دریافت کیا تھا، انہوں نے بتایا کہ میں نے عملی زندگی کا آغاز کراچی سے کیا تھا، اور پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے خود ٹرانسپورٹر بنا دیا، دن رات محنت کی اور اسی کی مہربانی سے پولٹری انڈسٹری میں آ ج ہماری ساکھ اور ایک نام ہے۔ میں والد گرامی مولانا محمد عبداللہ علوی کے دور میں بھی ان کے ہاں آیا جایا کرتا تھا، میں نے ہمیشہ انہیں سنجیدہ اور متفکر پایا، انہیں میں نے آخری بار حاجی ایوب خان (سیڈا والے افتخار عباسی کے نانا) کے جنازہ میں دیکھا تھا، غالباً دونوں ہم عمر بھی تھے، قبر پر مٹی ڈالتے ہوئے ان کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھی،ان کا یہی حال سرکل بکوٹ کے پہلے ٹرانسپورٹر راجہ نذر خان کو سپرد خاک کرتے وقت چند سال قبل دیکھا تھا۔

میرے والد گرامی مولانا محمد عبداللہ علوی نے دیوبند سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد 13سال وہاں تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا، 1948ء میں وہ ڈگری شہر (تھرپارکر، سندھ) میں اپنے بڑے بھائی مولانا محمد ایوب علوی کے ہاں آ گئے اور وہاں مدرسہ علویہ کے قیام کے علاوہ ذاتی کاروبار بھی سیٹ کیا، وہ قیام پاکستان سے قبل ہندوستان کے علماء کی تنظیم جمیعت علمائے ہند کے نمایاں عہدیدار تھے اور پاکستان آنے کے بعد سندھ میں تحریک ختم نبوت میں اہم کردار ادا کیا تھا مگر اپنے آبائی وطن میں کچھ ذاتی گھریلو حالات کی وجہ سے مجبور ہو کر وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ڈگری سے بیروٹ واپس آ گئے، یہاں حالات نے انہیں گُھٹنوں تک مجبور کر دیا جس کی وجہ سے انہیں بارِِ دِگر مسجد اور مکتب کی طرف ہی رجوع کرنا پڑا، پہلے انہوں نے جلیال (داخلیات بیروٹ) اور پھر مُنشی اقبال خان اور حاجی محمد عباس خان کے کہنے پر چھجہ، بیروٹ میں درس و تدریسِ قرآنی کا سلسلہ شروع کیا، راقم الحروف نے جب ہائی سکول بیروٹ سے 1978ء میںمیٹرک میں دوسری پوزیشن حاصل کی تو حاجی عباس خان مرحوم نے والد صاحب سے میرے مستقبل کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے حاجی صاحب کو میری اعلیٰ تعلیم کے بارے میں بتایا جس پر وہ بہت خوش ہوئے اور والد گرامی کو یقین دہانی کروائی کہ آپ کا بیٹا پڑھنے والا بنے اس کی مالی اعانت میں کروں گا، ایسے وقت میں کہ میری والدہ محترمہ کے چھوٹے اور بڑے بھائی خصوصاً ممتاز شاہ مجھے طنز سے کہا کرتا تھا کہ "تیرے باپ دادا کون سے ایف اے بی اے ہیں کہ تو بھی ایف اے بی اے کریگا" مگر قدرت بڑی کارسازہے اورکسی کی بھی زندگی میں اپنا کردار ادا کرتی ہے، اس نے حاجی صاحب جیسا فرشتہ میری مدد کو بھیج دیا اور بی اے تک مجھے حاجی صاحب کی تعلیمی میدان میں بھر پور استعانت حاصل رہی، میں اور مسعود عباسی دونوں بکوٹ کے مرحوم کالج کے آخری سٹوڈنٹس ہیں، دونوں لوئر بیروٹ سے روزانہ بکوٹ جاتے اور آتے تھے، کبھی حاجی صاحب نے اپنے فرزند مسعود عباسی اور مجھ میں کوئی فرق نہیں رکھا، اگر ان کی استعانت مجھے حاصل نہ ہوتی تو میں آج ممتاز شاہ کا بے دام "ٹِہلاّ" (Loser) ہوتا، جیسے کہ ان لوگوں نے متعدد بار اس کی کوشش بھی کی۔

حاجی عباس خان کے برادر بزرگ منشی اقبال خان بھی بڑی مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک تھے، وہ میرے نانا مولوی فضل حسین شاہ اور تایا مولانا محمد اسماعیل علوی کے شاگرد تھے، انہوں نے اپنے اساتذہ کا عمر بھر نہ صرف بیحد احترام کیا بلکہ بعد از وفات ان کا ناڑوٹہ میں مزار بھی بنوایا، انہوں نے ہی ایک نشست میں میری معلومات میں اضافہ کیا کہ بیروٹ کے اولین ٹرانسپورٹروں میں کھنی بگلہ کے ٹھیکیدار محمد امین خان بھی شامل تھے، بیروٹ میں عبدالمجید عباسی کے علاوہ ان کے ایک صاحبزادے سری نگر والی اہلیہ سے محمد شفیع قریشی بھی ہیں جو بھارت کی حکمران کانگریس پارٹی کے سینئر عہدیدار اور بھارتی صوبے بہار کے1991ء اور اتر پردیش کے 1993ء میں گورنر بھی بنائے گئے، وہ آج کل بھارت کے اقلیتوں سے متعلق قومی کمیشن کے چیئرپرسن ہیں جنہیں وفاقی وزیر کا درجہ حاصل ہے۔

منشی محمد اقبال خان اور حاجی محمد عباس خان اپنے اسلاف کی ایک روشن قندیل تھے، منشی محمد اقبال خان نے بھی ایک بھرپور سماجی زندگی بسر کی اور اپنی وفات تک کتنے ہی معاملات کو فیصل کیا کہ اہلیان بیروٹ ان پر آج بھی ناز کرتے ہیں، انہوں نے گورنمنٹ ہائی سکول بیروٹ کی سابقہ عمارت کی تعمیر کیلئے کراچی سے خیبر تک چندہ اکٹھا کیا اور ذاتی حیثیت سے بھی جو بن پڑا کیا، سکول کی یونین کونسل کے اس وقت کے چیئرمین سردار محمد عرفان خان کی جاری کردہ تعمیراتی رپورٹ 1964ء کے مطابق منشی محمد اقبال خان اور حاجی محمد عباس خان نے اس سکول کیلئے تمام جستی چادریں عطیہ کی تھیںجو آجکل نامعلوم افراد اکھاڑ کر پتھروں سمیت لے جا رہے ہیں۔آخری عمر میں منشی محمد اقبال خان کو اپنے جواں سال صاحبزادوں کی وفات کا صدمہ برداشت کرنا پڑا، حاجی محمد عباس خان گزشتہ دو تین برسوں سے کاروبار سے الگ تھلگ تھے اور انہوں نے تمام تر کاروباری ذمہ داری مسعود عباسی اور مامون الرشید عباسی کے حوالے کر رکھی تھی، مسعود عباسی اور ان کے چھوٹے بھائی بھی احساس خود نمائی کے خلاف ہیں اور اپنے والد محترم کی طرح باغ و بہار شخصیت کے مالک ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں، ان کے اہل خانہ اور بہن بھائیوں کو یہ صدمہ برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور صبر جمیل سے نوازے۔

حاجی عباس خان کہو شرقی کی خانال برادری کے داماد تھے، ان کی خوشدامن سکینہ بی بی ان خواتین اساتذہ میں شامل تھیں جو موجودہ نسل کی مائوں کی "استانی جی"کہلاتی تھیں، میری والدہ مرحومہ سمیت اہلیان بیروٹ کی 90فیصد مائیں انہی کی شاگردی ہیں، وہ بھی کیا زمانہ تھا کہ استانی جی سمیت عجائب بی بی (موجودہ گرلز ہائر سیکنڈری سکول بیروٹ کی پرنسپل فرخ بی بی کی دادی مرحومہ)، اور مرد اساتذہ میں مولوی فضل حسین شاہ، مولانا اسماعیل علوی، مولانا یعقوب علوی بیروٹوی، علی حیدر خان (باسیاں) اور دیگر مقامی اساتذہ نے اس پرآشوب دور میں اپنے شاگردوں کو جس محنت اور جانفشانی سے علم منتقل کیا آج بھی وہ شاگرد ان کی آخری ابدی آرامگاہوں کے قریب سے گزرتے ہوئے انہیں بسم اللہ پڑھ کر دعائے مغفرت کرتے ہیں، چھجہ کے حاجی برادران انہی شاگردوں میں سے تھے جو علم اور عالم کی اہمیت کا مکمل ادراک رکھتے تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں اس علم دوستی کا ایوارڈ بھی دیا، حاجی برادران کی تمام اولاد اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے اور وہ قومی ، علاقائی اور مقامی سطح پرکسی سیاسی عہدہ اور لالچ کے بغیر اپنا مثبت اور تعمیری کردار ادا کر رہے ہیں اور یہی لوگ قومی خزانے کو سب سے زیادہ ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں،اس کے علاوہ نیشنل بنک آف پاکستان (بیروٹ برانچ) کا تمام کاروبار بھی حاجی برادران کی برادی کے 60 فیصد شیئرز کا ہی مرہون منت ہے۔

Mohammed Obaidullah Alvi
About the Author: Mohammed Obaidullah Alvi Read More Articles by Mohammed Obaidullah Alvi: 52 Articles with 58764 views I am Pakistani Islamabad based Journalist, Historian, Theologists and Anthropologist... View More