بار کا کردار اور سیاست

اس ملک کی یہ تو پرانی روایت چلی آ رہی ہے کہ جن لوگوں کے حق میں فیصلہ آئے وہ مٹھائیا ں بانٹتے ہیں اور جن کے خلاف فیصلہ آتا ہے وہ اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں اور کبھی کبھی فیصلہ کو غیر منصفانہ بھی کہ دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس فیصلہ کے خلاف قانونی طریقہ کار کے مطابق اپیل یا نظر ثانی کا حق استعمال کرتے ہوئے انصاف حاصل کرنے کی گوشش کی جاتی ہے۔

وکلا کس بھی معاشرے کے اندر قانون اور انصاف کے نظم و نسق کا حصہ ہوتے ہیں۔ ان کا کردار ایک لا۶ آفیسر کا ہوتا ہے جو کسی بھی ادارے کے ماتحت نہیں ہوتا اور انصاف کے حصول میں ممدو معاون ہوتا ہے۔ اور بار اس سارے کردار کی نمائندہ ہوتی ہے۔ اور بار تنظیمیں وکلاء کی نمائندہ تنظیمیں ہوتی ہیں جو وکلاء برادری کی اجتماعی سوچ کی عکاسی کرتی ہیں اور اس پلیٹ فارم پر وہ اپنے شعبہ کی کارکردگی اور اس میں حائل رکاوٹوں کا بہتر حل ڈھونڈنے کا کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ تنظیمیں ہمیشہ سے غیر سیاسی اور غیر منافع بخش رہی ہیں۔ ہاں البتہ کچھ عرصہ سے سیاسی جماعتوں نے وکلاء کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے ان کے ساتھ وابسطگیاں شروع کیں اور اس طرح سیاسی گروپ بندیاں کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ وکالت ایسا شعبہ ہے جس کی ضرورت فرد سے لے کر جماعت تک ہر ایک کی ضرورت ہے۔ لہذا ان ضروریات کے پیش نظر سیاسی جماعتوں نے اس شعبہ کو بھی غیر جانبداری سے ہٹا کر صف بندیوں میں لا کھڑاکیا۔ چونکہ دونوں اطراف سے مفادات وابسطہ تھے لہذا بار میں سیاست سرایت کرتی گئی اور موجودہ صورت حال ہر ایک کے سامنے ہے۔ انفرادی ھمدردیاں تو ہر ایک کا ذاتی حق آذادی ہے مگر سیاسی گروہ بندی ، کوئی مانے یا نہ مانے، اس عالی ظرف شعبہ کی تنزلی کا سبب بنی اور آج عوام میں شائد وہ مقام نہیں جس کے اہل سمجھا جاتا تھا۔

اس کا جو سب سے بڑا نقصان ہوا وہ اس سیاست کے عدلیہ پر اثرات ہیں جس کی میں تفصیل میں نہیں جاؤں گا بلکہ ہر ذی شعور سمجھتا ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ بحثیت قوم تو ہم جو تھے تھے ہی مگر عدلیہ کے اندر ان اثرات نے ہماری اساس کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے مگر یہاں مناسب نہیں۔ صرف اتنا ہی کہوں گا کہ معاشرے ظلم کے ساتھ تو زندہ رہ سکتے ہیں مگر نا انصافی کے ساتھ نہیں۔ جب انصاف ناپید ہو جائے تو بدعنوانی لازمی امر ہے اور نتیجتاْ دہشت گردی اور بیرونی دخل انداذی جیسے خطرات ریاستوں کواپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔

بات ہورہی تھی وکلاء کی نمائندہ تنظیموں کی حیثیت اور کردار کی تو یہ ایک تنظیم ہی نہیں بلکہ ایک تربیتی ادارہ ہے جو انصاف کے حصول اور قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرنے والوں کی تربیت کرتا ہے۔ اس کی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو اس نے ملکی ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر لیڈرششپ دی اور قوموں کی تقدیریں بدلیں۔ ان اداروں ( تنظیموں) نے اپنے آپ کو سیاست سے دور رکھ کر اپنے علم، عمل اور کردار سے سیاست کے رخ بدل کر رکھ دئے۔

یہی وہ ادارے (تنظیمیں) ہیں جو عالمی سطح پر فریڈم ، انصاف ، گڈ گورننس اور انسانی حقوق کے سب سے بڑے ایوارڈز سے نوازتے ہیں جن پر افراد اور جماعتیں فخر کرتی ہیں۔ ضرورت ہے اپنے اندر صلاحیتوں اور عمل پیدا اور محسوس کرنے کی۔self-esteem سے وہ وکلاء کی سب سے بڑی طاقت ان کا کام، اتحاد اور آزادی ہے جو سیاست اور گروپ بندی سے ختم ہوجائے گی۔ میں کسی کے بد عنوان ہونے یا نہ ہونے کی بات نہیں کرتا یا کسی کے استعفیٰ دینے یا نہ دینے کی بات نہیں کرتا بلکہ وکلاء برادری کےکردار کی کرتا ہوں۔ ان کو ہمیشہ ایسی حکمت عملی اپنانی چاہیے جس سے بدعنوانی اور غیر آئینی طریقہ جات کا خاتمہ بھی ہو اور ان کی اپنی ساخت اور اہمیت بھی متاثر نہ ہو۔

طاقت کا استعمال ہمیشہ صحیح وقت ، جگہ اور موقعہ پر ہونا چاہیے۔ وکلاء کا کام سڑکوں پر نکل کر مطالبات منوانا نہیں بلکہ مطالبات کے اندر وہ طاقت پیدا کرنا ہے جو اپنے وجود کو خود منوائے۔ جس طاقت کے استعمال کی طرف اشارہ دیا جارہا ہے اس کی غرض و غائت اور حالات اور طرح کے تھے وہاں اس کا استعمال نہ صرف مناسب بلکہ مجبوری تھا اور قوم کی ساری امیدیں اس برادری پر تھیں اور اس وقت انصاف کو قائم رکھنے والا وہ نظام جس کا وکلاء حصہ تھے ذاتی طور پر نشانہ بنایا گیا تھا۔ اب نظام بذات خود مضبوط ہی نہیں بلکہ پوری طرح سے فعال بھی ہے اور اب اس کی مدد سے معاملات کو اچھے طریقے سے سنبھالا جا سکتا ہے۔ ویسے بھی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے بعد اس کو چھپایا جاتا ہے اگر روزانہ بے جا ایٹم بم چلنا شروع ہو جائیں تو دنیا تباہ ہوجائے۔ طاقت یا اقتدار بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے اور اس کا استعمال بہت بڑا امتحان۔ اگر کوئی اس کے نشہ کے زیر اثر آ جائے تو حواس باختہ ہو کر خود ہی اپنے آپ کو ننگا کر دیتا ہے۔
کسی بھی ادارہ کی عزت و تکریم اور پہچان اس کے اندر رہنے والے لوگوں سے ہوتی ہے ان کی سوچ، عمل اور کردار ہی اس ادارے کی پہچان ہوتی ہے۔ اس کو بنانا، قائم رکھنا اور بچانا بہر حال انہیں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اگر ہم واقعی بدعنوانی ختم کرنے میں سنجیدہ ہیں تو کہتے ہیں اپنی ذات اور اس نظا م سے ابتداء کرنی چاہیے جس کا ہم حصہ ہیں اور بحثیت وکیل میں بھی اس میں شامل ہوں۔ ہمیں گفتار سے نہیں کردار سے بد عنوانی سے پاک ایک ماڈل پیش کرنا ہوگا پھر دیکھئے اس کے دوسرے معاشرے پر کتنے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں-

Dr Ch Abrar Majid
About the Author: Dr Ch Abrar Majid Read More Articles by Dr Ch Abrar Majid: 92 Articles with 114972 views By profession I am Lawyer and serving social development sector for last one decade. currently serving Sheikh Trust for Human Development as Executive.. View More