منیٰ سانحہ بعض حاجیوں کی جلدبازی کی وجہ سے پیش آیا

 حج دنیا کا سب سے بڑا اجتماع ہے، جس کی سیکورٹی، حفاظت، صحت و علاج، نقل و حمل، رہائش اور کھانے پینے کی چیزوں کی فراہمی سعودی حکام کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ ہر سال عازمین حج کی اتنی بڑی تعداد کے لیے خوراک، رہائش، نکاسی آب اور ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے سعودی حکومت عازمین کے لیے غیر معمولی انتظامات کرتی ہے۔ اس سال بھی حج کے موقع پر سیکورٹی کے انتظامات کے لیے ایک لاکھ سے زاید اہلکاروں کو تعینات کیا گیا، جبکہ ایلیٹ فورس، ٹریفک اہلکار اور سول ڈیفینس کے اہلکاروں کو بھی فرائض سونپے گئے۔ان کے علاوہ دیگر بہت سے انتظامات کیے گئے۔ ان انتظامات کی بدولت ہر سال فریضہ حج انتہائی پرامن طریقے سے سرانجام پاتا ہے، لیکن اگر اس کے باوجود اچانک حادثہ رونما ہوجائے تو عقل انسانی اور اس کے تمام انتظامات پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ بدقسمتی سے حادثات سے یکسر بچاؤ ممکن نہیں ہے، کبھی انسان کے تمام تر انتظامات دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور کوئی سانحہ رونما ہوجاتا ہے۔ جمعرات کے مکہ مکرمہ کے قریب منیٰ میں بھگدڑ مچنے سے 769 حجاج کرام شہید ہوئے ہیں، جب کہ 934 سے زاید زخمی ہیں۔ سانحہ منیٰ میں اب تک 19 پاکستانیوں کی شہادت کی تصدیق ہوچکی ہے اور309 اب بھی لاپتہ ہیں۔ شہید ہونے والے پاکستانیوں میں رحیم یارخان سے توصیف افتخار، شہداد کوٹ سے تعلق رکھنے والے حج میڈیکل مشن میں شامل ڈاکٹر امیرلاشاری، ملتان سے تعلق رکھنے والی 7 سالہ بچی ثمرین جب کہ شہید ہونے والے دیگر پاکستانیوں میں کراچی کی حفصہ شعیب اور زرین نسیم، میر پور آزاد کشمیر کی نرجس شہناز، دالبندین کی بی بی زینب، بی بی مدینہ، نور محمد اور محمد اسلم کے علاوہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بھانجے اسد مرتضیٰ گیلانی شامل ہیں۔ سانحہ منیٰ میں شہید ہونے والوں میں جھنگ کے سراج احمد سراج، ایبٹ آباد کے زاہد گل کی ساس بھی شامل ہیں۔ گزشتہ روز برطانوی اخبار دی گارجین نے سانحہ منیٰ میں سب سے زیادہ 236 پاکستانیوں کے شہید ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق ایران کے 131، مراکش کے 87، بھارت اور مصر کے 14، 14 ، صومالیہ کے 8، سینیگال کے 5، ترکی اور تنزانیہ کے 4، 4، الجرائس، کینیا اور انڈونیشیا کے 3، 3 جب کہ برونڈی اور ہالینڈ کا ایک ایک شہری شہید ہوا ہے۔ وزارت مذہبی امور اور سعودی عرب میں موجود پاکستانی حکام نے برطانوی اخبار کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اخبار نے اس سانحے میں شہید ہونے والوں کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے اور غیرتصدیق شدہ اعداد و شمار دیے ہیں۔ وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف نے کہا ہے کہ ہر سال حج کے دوران کچھ لوگ لاپتہ ہوجاتے ہیں، حج مشن کے لوگوں کو پاکستانی حجاج کے کیمپوں میں تصدیق کے لیے بھیجا گیا ہے، پاکستان کے 116 لاپتہ لوگ رات تک مل گئے تھے، امید ہے تمام لوگ مل جائیں گے۔ سردار یوسف کا کہنا تھا کہ اب تک جن حجاج کرام کی شہادت کی تصدیق ہوچکی ہے، ان کے لواحقین کو سرکاری طور پر آگاہ کردیا گیا ہے۔ حج کے دوران جولوگ فوت ہوتے ہیں، ان کی تدفین یہیں پر کی جاتی ہے۔ سانحے میں شہید ہونے والوں کو بھی سعودی عرب میں ہی دفنایا جاتا ہے، جب تک تصدیق نہ ہو پاکستانیوں کی تدفین بھی نہیں کی جاسکتی۔

ایرانی میڈیا نے سیاسی اور دیگر عوامل کی بنیاد پر اس المناک واقعے کو اپنے مخصوص مفادات کے لےے استعمال کیا اور اس سانحے کو بنیاد بنا کر سعودی عرب کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کیا۔ ایران نے منیٰ میں پیش آنے والے واقعے کا ذمہ دار سعودی عرب حکومت کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حادثہ سعودی بادشاہ شاہ سلمان کے بیٹے کی وجہ سے پیش آیا، کیوں کہ ان کے آنے کی وجہ سے راستہ بند کردیا گیا تھا، جس سے ایک جگہ رش بڑھ گیا۔ سعودی عرب نے اس خبر کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ شاہ سلمان کے بیٹے محمد بن سلمان کے منی آنے کی خبر میں کوئی صداقت نہیں ہے اور اس روز وہ مکہ میں موجود ہی نہیں تھے۔ دوسری جانب ایرانی صدر حسن روحانی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں سعودی عرب میں حج کے دوران پیش آنے والے بھگڈر کے واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم سعودی وزیرِ خارجہ عادل الجبیر نے کہا ہے کہ ایران اس حادثے پر سیاست کر رہا ہے۔ دوسری جانب سعودی عرب کے مفتی اعظم کا کہنا ہے کہ حج کے دوران حادثات کو روکنا انسانی اختیار سے باہر ہے، اس لیے وزیرِ داخلہ شہزادہ محمد بن نائف کو اس واقعے کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مفتی اعظم نے کہا کہ جو چیزیں انسانی کنٹرول میں نہیں ہیں، ان کے لیے کسی کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ایرانی حکام سعودی حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ ہلاکتوں کی ذمہ داری قبول کرے۔ جبکہ ایران کے سابق صدر ہاشمی رفسنجانی کے ناظم دفتر محمد ہاشمی نے سعودی عرب میں منیٰ کے مقام پر ہونے والی بھگڈر میں بڑے پیمانے پر حاجیوں کی شہادت کے واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے اپیل کی ہے کہ اس معاملے پر سعودی حکام کی ملامت سے احتراز کرنا چاہیے اور تحقیقات سے قبل نتائج اخذ کرنے سے باز رہنا چاہیے۔ محمد ہاشمی کا نقطہ نظر ایرانی مرشد اعلیٰ علی خامنہ سمیت دوسرے متعدد اعلیٰ عہدیداروں سے قطعی مختلف ہے، جس میں انہوں نے منیٰ واقعے پر سعودی حکومت کو تنقید بنایا۔ ایرانی صدر حسن روحانی اور دوسرے ایرانی حکام نے بھی ایسے ہی بیانات دیے، جس کے بعد مبصرین نے کہنا شروع کر دیا کہ تہران سعودی عرب میں پیش آنے والے حادثے پر سیاست چمکا رہا ہے۔

مبصرین کے مطابق حج کے موقع پر پیش آنے والے حادثات کو سعودی حکومت کے ناقص انتظامات کا نتیجہ قرار دینا کسی طور بھی قرین قیاس نہیں ہے۔ ایسے انتظامات عازمین کی بشری کمزوریوں کا نتیجہ ہوتے ہیں، کیونکہ یہاں موجود ہر شخص کو آگے بڑھنے کی لگن ہوتی ہے، اس لیے بہت سے عازمین روکنے کے باوجود جلد بازی کرتے ہیں۔عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ سعودی حکام کی جانب سے انتہائی عمدہ انتظامات کیے گئے تھے۔ گرمی سے بچانے کے لیے خصوصی طور پر پانی کے اسپرے کا انتظام کیا گیا اور راستے کے دوران رضاکار کھانے کا باکسز اور ٹھنڈے پانی کی بوتلیں بھی فراہم کرتے رہے۔ عینی شاہدین کے مطابق افسوس ناک واقعہ حجاج کرام کے ایک گروپ کی جانب سے انتظامی تعلیمات کو پس پشت ڈالنے کے باعث رونما ہوا ، یہ گروپ اچانک ہی ون وے پر مخالف سمت سے چڑھ دوڑا، جس کی وجہ سے بھگدڑ مچ گئی۔ یہ گروہ بہت تیزی سے مخالف ٹریک پر چڑھ دوڑا تھا ، اوپر سے گرمی بھی بہت تھی ، حبس کا عالم تھا، جس کے باعث اتنا نقصان ہوا ، انتظامیہ کی طرف سے پیشگی اطلاع بھی تھی کہ گرمی کے باعث بہتر یہی ہوگا کہ حجاج کنکریاں عصر کے بعد ماریں۔ ذرایع کے مطابق سانحہ منیٰ بظاہر حاجیوں کی جانب سے ہدایات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے پیش آیا ہے۔ تاہم تخریب کاری کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا رہا۔ کچھ حاجی دانستہ طور پر ہدایات کو نظر انداز کر رہے تھے، جبکہ صبح 9 بجے کے قریب حاجیوں کا ایک گروپ مخالف سمت سے آیا اور بھگدڑ مچ گئی اور لوگ ایک دوسرے پر گرتے گئے۔ سماجی رہنما فردوس جمال شیخ کئی برس سے سعودی عرب میں حجاج کی خدمت میں مصروف ہیں، سانحہ منیٰ کے حوالے سے انہوں نے میڈیا کوبتایا کہ سانحہ بظاہر حادثہ ہے ، تاہم سعودی میڈیا اور حکام تخریب کاری کو بھی نظر انداز نہیں کر رہے ہیں۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق حادثہ اس وقت پیش آیا جب حاجیوں کا ایک گروپ مخالف سمت سے سامنے آیا، اس وقت حجاج مزدلفہ سے منیٰ میں جمرات پر تھے اور لاکھوں حجاج اور سامنے سے آنے والے گروپ میں ٹکراؤ ہوا، ایسا لگتا ہے کہ سامنے سے آنے والے گروپ نے ہدایات کے مطابق متعین راستہ اختیار کرنے کی بجائے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ ایسا دو ہی صورتوں میں ممکن ہے ، ایک یہ کہ دانستہ طور پر مخالف سمت کا سفر کیا جائے ، دوسرا یہ کہ یہ گروپ بذریعہ ٹرین یہاں آیا ہو اور شیطان کو کنکریاں مارنے کے بعد بھول کر مخالف سمت چل پڑا ہو۔ سعودی عرب کے اخبار السعودیہ نے حج کمیٹی کے ایک افسر کے حوالے سے خبر دی ہے کہ حاجیوں کا ایک گروپ نہ صرف دانستہ طور پر ہدایات کو نظر انداز کر رہا تھا، بلکہ مختلف مقامات پر منتظمین سے الجھنے کی کوشش کرتا رہا۔

کثیر الاشاعت عرب روزنامہ ”الشرق الاوسط“ نے ایرانی حج مشن کے ایک عہدیدار کے حوالے سے اپنی حالیہ اشاعت میں انکشاف کیا ہے کہ تقریبا تین سو ایرانی حجاج نے اسمبلی پوائنٹ سے متعلق ہدایات پر عمل نہیں کیا، جس کی وجہ سے ان حاجیوں نے جمرات سے الٹے پاؤں واپسی کی کوشش کی، جو منیٰ کی 204 نمبر شاہراہ میں حادثے کا باعث بنا۔ ”الشرق الاوسط“ سے بات کرتے ہوئے ایرانی عہدیدار کا کہنا تھا کہ ایرانی حجاج کا گروپ جمعرات کی صبح مزدلفہ سے براہ راست شیطان کو کنکریاں مارنے کو روانہ ہوا۔ اس گروپ نے اپنے لیے مخصوص خیموں میں سامان وغیرہ رکھ کر مخصوص اسمبلی پوائنٹ پر انتظار نہیں کیا۔ یہ حجاج شاہراہ 204 پر مخالف سمت کی طرف چل پڑے۔ ایرانی عہدیدار کے مطابق ان حاجیوں نے رمی ختم ہونے کا انتظار نہیں کیا، جو کہ معمول کی ہدایات کی روشنی میں کیا جاتا ہے اور اس کے برعکس الٹے پاؤں واپسی کر دی۔ واپسی کا یہ وقت دوسرے حج مشن کے لیے رمی جمرات کے نکلنے کے لیے مخصوص تھا، جس کی وجہ سے تصادم ہوا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ یہ گروپ کچھ دیر رکا، مگر دوسری سمت کو نہیں نکلا، جس کی وجہ سے حجاج کا دباؤ بڑھنے پر متعدد افراد صرف 20 میٹر چوڑے راستے سے نکلنے کی کوشش کرنے لگے۔ انہیں ذرایع نے بتایا کہ جو کچھ ہوا وہ رش یا بھگڈر کے زمرے میں نہیں آتا، بلکہ الٹے پاؤں چلنا کہلاتا ہے، جس کے یقیناً انتہائی منفی اثرات نکلے۔ مبصرین کے مطابق منیٰ میں بھگدڑ لوگوں کی جلد بازی اور بے صبری کی وجہ سے مچتی ہے۔ یہی انتظامات ہر سال ہوتے ہیں ، لیکن ہر دفعہ اور ہر روز ایسے سانحات نہیں ہوتے۔ شیطان کو پتھر مارتے وقت لوگ جلدی میں اس لیے ہوتے ہیں کہ قربانی کی پرچیاں انھیں پہلے مل چکی ہوتی ہیں، جن پر قربانی کا وقت لکھا ہوتا ہے۔ کسی وجہ سے پتھر مارنے میں دیر ہوجائے تو قربانی پہلے ہو جاتی ہے۔ چنانچہ لوگ پتھر مارنے میں جلد بازی اور بے صبری سے کام لیتے ہیں۔ بار بار اعلانات کیے جاتے ہیں کہ شیطان کو پتھر مارنے کے لیے لوگ ذرا ٹھہر ٹھہر کر آئیں اور آنے اور جانے کے راستے بھی الگ کیے گئے ہوتے ہیں، لیکن پھر بھی کہیں نہ کہیں ہجوم کے بہاؤ میں بے ترتیبی آجاتی ہے۔
 

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 636462 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.