عوامی لیڈران کس طرح کے ہونے چاہیں

پاکستان میں 8 فروری 2024 کو الیکشن کی گہماگی اور اس میں زیادہ تر اکثریت نوجوانوں کی جو اپنی اپنی جماعت کے لیے جس طرح محنت کرکے لوگوں کو ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ بوتھ لیکر جارہے تھے. نہ انہیں یہ پتہ کے ان کی جماعت کا آنے والا لیڈر اپنی جیت کے بعد ان کی محنت کو بھول تو نہیں جائیگا. ہر سیاسی جماعت کا لیڈر اپنے جلسوں و جلوس میں جس طرح کی جذباتی تقاریر کرکے اپنے ووٹ کے لیے عوام کے جزبات سے کھیل رہے ہوتے ہیں.
مگر جیتنے کہ وہ نہ اپنے کارکنان سے نہ ہی اپنی عوام سے بالکل قطع تعلق کرلیتے ہیں. ان ہی فاصلوں سے عوام اور لیڈر میں بھی فاصلہ بڑھ جاتا ہے. مگر آجکل جس طرح کے حالت کی وجہ سے بھی لیڈران کو عام عوام سے دور ہی رکھا جاتا ہے.
مگر پھر بھی اپنے روزمرہ کی مُلاقاتوں میں بھی وہی مافیہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار مخلص کارکنان و عوام کو اپنے محبوب لیڈران سے دور ہی رکھتے ہیں .
پاکستان میں آزادی کے بعد چند گنے چُنے لیڈران عوامی لیڈران رہے ہیں جن میں قائداعظم، لیاقت علی، فاطمہ جناح ، زوالفقار علی بھٹو و بے نظیر بھٹو ان کو آپ عوامی لیڈران کہہ سکتے ہیں.
مگر آجکل کے دور میں عمران خان کو عوامی لیڈران کہہ سکتے ہیں جس نے عوام سے اپنا رابطہ برقرار رکھا جس کی وجہ سے عوام بھی اس سے محبت کرتی ہے. جبکہ دوسرے تو *ہماری قسمت میں "لیڈر" نہیں "دھندے والے لوگ" ہیں....!!*
مگر انہی لیڈران میں ہمارے پڑوسی ملک کے بھی ایک عوامی لیڈران گزرے ہیں مگر ان کو عوامی لیڈران بنانے میں تربیت بھی دیکھنی چاہیے کہ یہ عوامی لیڈران کس طرح ایک لیڈر بنے.

*‏جواہر لال کے والد نے بیٹے کو شاہی خاندان کی طرح پڑھایا، نوابوں جیسی پرورش کی، کیمبرج یونیورسٹی میں تعلیم دلائی اور جب وہ بیرسٹر بن کر ہندوستان واپس آگئے تو انہیں الٰہ آباد میں اچھے کلائنٹس لے کر دیئے.*
*‏لیکن جواہر لال نہرو کمیونسٹ ذہنیت کے مالک تھے ، وہ سیاست میں آ کر معاشرے میں مساوات پیدا کرنا چاہتے تھے.*
*والد نے بہت سمجھایا مگر جب دال نہ گلی تو انہوں نے ایک دن جواہر لال نہرو کی الماری سے سارے قیمتی سوٹ، جوتے اور سگار نکالے اور دوستوں کے بچوں میں تقسیم کر دیئے اور ان کی جگہ ‏کھدر کے دو پائجامے اور تین کرتے لٹکا دیے اور ہاتھ سے بنی ہوئی دیسی جوتی رکھوا دی.*
*جواہر لال کے کمرے سے سارا فرنیچر بھی اٹھوا دیا گیا، فرش پر کھردری دری اور موٹی چادر بچھا دی اور خانساماں کو حکم دے دیا تم کل سے صاحبزادے کو جیل کا کھانا دینا شروع کر دو اور بیٹے کا جیب خرچ ‏بھی بند کر دیا گیا.*
*جواہر لال نہرو نے جب اپنے کمرے کا یہ حال دیکھا تو رات کو مسکراتے ہوئے والد کے پاس آئے، بڑے نہرو صاحب اس وقت اسٹڈی میں ٹالسٹائی کا ناول وار اینڈ پیس پڑھ رہے تھے.*
*بیٹے نے پوچھا; آپ مجھ سے خفا ہیں...؟*
*‏موتی لال نے کتاب سے نظریں اٹھائیں اور نرم آواز میں جواب دیا:*
*میں تم سے ناراض ہونے والا دنیا کا آخری شخص ہوں گا.*
*چھوٹے نہرو نے پوچھا؛*
*پھر آپ نے اتنا بڑا آپریشن کیوں کر دیا...؟*
*والد نے بیٹے سے کہا؛*
*صاحب زادے، تم نے جو راستہ چنا ہے اس میں ‏جیل، بھوک اور خواری کے سوا کچھ نہیں، میں چاہتا ہوں تم آج ہی سے ان تمام چیزوں کی عادت ڈال لو جو اس راستے میں تمہیں پیش آنے والی ہیں..!*
*‏دوسرا یہ کہ غریب کے پاس اعتبار کے سوا کچھ نہیں ہوتا لہٰذا یہ انتہائی سوچ سمجھ کر دوسروں پر اعتبار کرتے ہیں. تم اگر عام آدمی کی بات کرنا چاہتے ہو تو پھر تمہیں خود بھی عام آدمی ہونا چاہیے...!*
*تم انگلینڈ کے سوٹ اور اٹلی کے جوتے پہن کر غریب کی بات کرو گے تو ‏تم پر کوئی اعتبار نہیں کرے گا میں نہیں چاہتا دنیا میرے بیٹے کو منافق کہے...! چنانچہ تم آج سے وہ کپڑے پہنو گے جو غریب پہنتا ہے اور تم اتنے پیسے ہی خرچ کرو گے جتنے غریب کی جیب میں ہوتے ہیں...!*
*‏جواہر لال نہرو نے والد کا ہاتھ چوما اور پھر مرنے تک کھدر کے کپڑے اور دیسی جوتے پہنے اور غریبوں جیسا سادہ کھانا کھایا...!*
*ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ ایسی لیڈر شپ کا فقدان ہے. پاکستان میں لیڈروں کا تعلق عموماً ایسے گھرانوں سے ہے جو ملکی خزانہ لوٹنے باہر ملک میں اپنے اور بچوں کو اُن پیسوں سے عالی شان محلات میں جاکر رہتے ہیں اور مُلک سے ہی لوٹ مار کےان پیسوں سے عیاشی کرتے ہیں.*
*ہم ڈرٹی پالیٹکس کے ایک خوف ناک جوہڑ میں غوطے کھا رہے ہیں. ملک کی 35 سال سے کچھ بڑی سیاسی جماعتیں غریبوں کی باتیں ضرور کرتی ہیں لیکن ان کے لیڈروں کا لائف ‏سٹائل اور ان کی شخصیت , ان کی باتوں سے میچ نہیں کرتی.*
*ہزاروں کنال کے بنگلوں اور فارم ہاؤسز میں رہنے والے ، کئی کئی لاکھ ماہانہ تنخواہ اور دنیا بھر کی مراعات و پروٹوکول لینے والے ، بیرون ملک بڑے گھر اور بینک بیلنس رکھنے والے بلٹ ‏پروف گاڑی اور جہاز و ہیلی کاپٹر کو گلی کے موٹر سائیکل کی طرح استعمال کرنے والے ہمارے سابقہ وزیراعظم ایک غریب ملک کے رہنما نہیں ہوسکتے...!*
*‏اگر رہنما لینا ہے تو واقعی عمران خان جیسا ہو جو غریب عوام کا دُکھ کو اپنا دکھ سمجھتا ہے. جس کا پہنا کھانا پینا بھی عام عوام کی طرح ہے. جو عام شہریوں کے بیچ بیٹھ کر ان کے مسائل سنتا اور ان کے سات ہی رات بیٹھ کر لاہور کے گھر کے باہر ان کے ساتھ کرکٹ کھیلتا ان کی رائے لیتا اپن جماعت کو آگے بڑھانے کے لیے تجاویز مانگتا جب ہی یہ عوام اس کے لیے تن من دھن کی بازی لگانے کے لیے رات دن تیار رہتے ہیں. حالیہ الیکشن میں جس طرح عوام اس کے لیے ووٹ دینے نکلی وہ عوامی لیڈر کی پہچان ہے. اس ہی طرح کی جرمن چانسلر اینجلا کی طرح دو تین سوٹوں اور ایک ہی کوٹ کیساتھ پانچ سالہ دور اقتدار پورا کرے اور دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں کو اپنے کردار سے گرویدہ بنا لے...!*
*ایرانی صدر احمدی نژاد کی طرح دو دفعہ صدر رہنے کے بعد تہران کی ایک یونیورسٹی میں لیکچرار کی نوکری کرے۔۔۔!*
*‏باراک اوباما کی طرح صدارت سے فارغ ہو کر کرایہ کا مکان ڈھونڈتا پھرے...!* ==============
*ہماری قسمت میں عمران سے پہلے جو ان 35 سالوں میں لیڈر نہیں دھندے والے لوگ آئے ہیں جو اپنے فیملی ممبرز کے اندرون اور بیرون ملک اکاؤنٹ بھرتے جا رھے ہیں اور عوام کا تو کوئی ذکر اذکار ھی نہیں....!!*

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 187 Articles with 81184 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.