“ سیاسی جماعتیں نوجوانوں کو انتخابات میں ٹکٹ کیوں نہیں دیتی؟”

پاکستان میں سنہ 1970 اور 1977 کے الیکشن میں متعدد سیاستدان ایسے اُمیدوار ہوتے تھےان کے علاوہ بھی متعدد ایسے امیدوار تھے جو الیکشن سے قبل تو عام شہری یا سیاسی کارکن تھے یا اپنے علاقوں میں سوشل ورکر کے طور پر بھی جانے پہچانے جاتے تھے پھر انہوں نے سیاسی جماعتوں نے ٹکٹ دیے اور پھر پھر دیکھتے ہی دیکھتے انھوں نے اپنے حلقوں میں بڑے بڑے طرم خان کو وہ شکست فاش دی کے پورا پاکستان بھی حیران و پریشان ہوگئے تھے۔

آج تقریبا لگ بھگ 55 برس بعد ایک اور الیکشن ہوا ہی چاہتا ہے. مگر کسی بھی سیاسی جماعت میں کوئی سیاسی وورکر تو درکنار علاقائی متوسط یا لوئیر کلاس عہدیدار کو ٹکٹ دینا تو درکنار اب عام نوجوان کے لیے منتخب ہونا ناممکنات میں تصور کیا جانے لگا ہے.

پھر پاکستان میں یہ 1977 کے بعد پاکستان میں انتخابات جیتنا ایک عام نوجوان کی ہاتھ میں تھا تو وہ کیا صورتحال پیدا ہوئیں جن کے باعث اب یہ مشکل سے مشکل تر ہوگیا ہے اور آج ایک عام نوجوان کو الیکشن لڑنے کے لیے اب کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟

گذشتہ کئی دہائی کے دوران پاکستان میں عام انتخابات سے قبل سیاسی لیڈران کی شعلہ باز تقاریر اور ان کی جانب سے نوجوانوں کے بہتر مواقعوں اور مستقبل کے لیے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا جانا تو معمول رہا ہے لیکن پارلیمان میں ان کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر رہی ہے۔اور اس ہر آج تک کبھی کسی سیاسی رہنما نے اس پر کُھل کر میڈیا یا اپنی جماعت کے عہدیداروں کو اس پر اعتماد میں لیا ہو یہ اس مُلک کی اور ان نوجوانوں کی بدقسمتی ہے جس مُلک میں % 45 بنتا ہے 18سے 35 سال کی عمر کے ووٹرز کی تعداد ہیں.

اس کی ایک بڑی وجہ کل ووٹرز میں سے 18 سے 35 سال کی عمر کے درمیان موجود ووٹرز کی تعداد ہے۔ الیکشن کمیشن کے ستمبر 2023 کے اعداد وشمار کے مطابق 18 سے 35 برس کی عمر کے درمیان ووٹرز کی تعداد پانچ کروڑ 68 لاکھ سے زیادہ ہے جو کل تعداد کا تقریبا %45 فیصد بنتا ہے.

سنہ 2024 میں تمام سیاسی جماعتوں کے منشور میں خانہ پری کے لیے نوجوانوں کی بہتری کے لیے منصوبوں اور اقدامات کے بارے میں کئی کئی پالیسیاں مُرتب کیں ہیں اور میڈیا کے سامنے بڑے بڑے دعوئے کیے گئے مگر ایک بار پھر پاکستان مسلم لیگ ( ن ) اورپیپلز پارٹی کی جانب سے نوجوان اور نظریاتی کارکنوں کو ایک بار پھر ہر الیکشن کی طرح ٹکٹ نہ دینے پر ہی اتفاق کیا گیا اور وہی وراثتی سیاسی خاندان کو ٹکٹ جاری کیے گئے.

جبکہ سنہ 2013 کے انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف کی جانب سے ملک بھر میں مختلف نشستوں پر نئے چہروں کو موقع دیا گیا تھا اور جہاں اکثر کو اس دوران شکست کا سامنا کرنا پڑا وہیں کچھ حلقوں میں ایسے امیدوار فتحیاب بھی ہوئے۔ جو آج پاکستان کی سیاست میں دوسری جماعتوں کے مرکزی جماعت کے دو دو تین مرتبہ منتخب ہونے والے اُمیدواروں کے ہم پلہ سے بھی اور اپنے سیاسی شعور سے بھی بہت آگے ہیں.

مگر جہاں پی ٹی آئی نے سنہ 2013 میں بڑے پیمانے پر نئے چہروں اور نوجوانوں پر انحصار کیا وہیں سنہ 2018 میں اسے وہی مسلم لیگ ( ن ) اور پیپلزپارٹی کی طرز ہر وہی کھیل اقتدار میں آنے کے لیے الیکٹیبلز یعنی ایسے پُشتی سیاست دان جو کئی مرتبہ انتخابات جیت چکے تھے ان ہی کا سہارا لینا پڑا اور اب پی ٹی آئی کو اپنی جماعت کے نام اور نشان و بانی کے بغیر آزاد اُمیدوار کی حثیت سے الیکشن میں مختلف انتخابی نشان لیکر انتخابی عمل میں حصہ لینا پڑ رہا ہے.

آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں پڑھے لکھے نوجوانوں کو انتخابات میں بطور امیدوار کھڑا کرنے سے کیوں کتراتی ہیں؟

کیا پاکستان کے سیاسی نظام میں عام پڑھے نوجوانوں کی عدم موجودگی اپنی جگہ ایک تلخ حقیقت ہے یا سیاسی جماعتیں ان پڑھے لکھے نوجوانوں کے آنے سے وراثتی سیاست کا ڈبہ گول ہوسکتا ہے.

دیکھا جائے تو ضیاء کے دور میں جو بنیاد رکھی گئی تھی یعنی 1985 کے غیر جماعتی انتخابات جو کرائے گئے تھے اس کے بعد سے مڈل کلاس سیاسی کارکنوں کے لیے سیاست میں جگہ کم ہو گئی ہے۔

پھر ایک دور ایسا بھی آیا کہ ’سنہ 1985 کے الیکشنز کے بعد سے نظریات کی بجائے روپیہ پیسہ شامل ہو گیا۔ اس کے علاوہ کچھ عرصے بعد طُلباء یونینز پر پابندی لگادی اور اس کے بعد ٹریڈ یونینز بھی اس طرح سے فعال نہیں ہوسکیں . جس کی وجہ سے نہ تو اسٹوڈنٹ یونینز سے پڑھے لکھے منجھے ہوئے نوجوان سامنے آئے اور نہ ہی نظریات رکھنے والے اچھے دُھلے ہوئے نوجوانوں کی پاکستانی سیاست میں جگہ رہی اور سنہ 2002 کے بعد سے یہ مکمل طور پر ایک پلاننگ کے تحت ختم ہو گئی یا کردی گئی.

جبکہ ہمارے مُلک میں سیاسی جماعتوں نے اپنے تنظیمی اسٹریکچر بھی اتنے مضبوط جان کرکے نہیں کیے کہیں صیح کے نوجوان کارکن ایک درجے سے دوسرے درجے پر انٹرا پارٹی الیکشن کے ذریعے آگے آکر وراثتی سیاست کو دفن نہ کردیں اور یوں الیکشن بھی دن بدن مہنگے تر ہوتے گئے۔ اور مڈل کلاس کے نوجوان اتنا سرمایہ نہ ہونے سے پس پشت ہوتے گئے اور سرمایہ دار اور زمیندار و بلڈر مافیہ گٹھ جوڑ ان جماعتوں کو چندہ کے نام پر جماعتوں میں الگ ہی پہچان بنتے گئے.

اور اس طرح کے الیکشن میں کوئی بھی بہترین اخلاق والا و پڑھا لکھا ہو یا شریف النفس سماجی ورکر مگر وہ نہ تو وہ اثر و رسوخ رکھنے والے خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور نہ ہی امیر ہیں اس لیے وہ الیکشن لڑیں بھی تو ہار جائیں گے۔

پاکستان میں ہر الیکشن پر اُمیدوار کی ’الیکشن مہم کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ آپ کو اصل میں گراؤنڈ پر انفراسٹرکچر کتنا بڑا ملتا ہے۔ انفراسٹرکچر سے یہاں مراد جان پہچان، نظریاتی کارکن، دفاتر اور بیورکریسی میں تعلقات ہیں۔

بات یہاں ہی ختم نہیں ہوتی اس کے بعد ایک بہت بڑا چیلنج رقم جمع کرنا ہے۔ الیکشن کمیشن نے جو قانون بنایا ہوا ہے اس کی حدود میں کوئی جماعت یا اُمیدوار آج تک پورا نہیں اُترتا ، یہ کروڑوں کی گیم ہو چکی ہے.
ان سب کو پھر کراس کرنے کے بعد پھر آخری مرحلہ ہوتا ہے ریاست۔ اگر وہ چاہے تو وہ بڑی جماعتوں کے امیدواروں کو کبھی بھی بے ،،،،، کر سکتی ہے، تو وہ بھی خوف ہوتا ہے کہ تھانے اور،،،،،،،، کو کیسے ہینڈل کریں۔

ان ہی تین چار چیزیں مل کر ایک انتہائی مشکل صورتحال بن جاتی ہے اور پھر عام لوگ اس ہی لیے کہتے ہیں کہ یہ کسی شریف بندے یا پڑھے لکھے بندے کا کام ہی نہیں آج کل کی پاکستان کی سیاست میں. پاکستان کے علاوہ دنیا بھر کے ایسے ممالک جہاں جمہوری نظام مضبوط ہے وہاں جہاں بھی نئی لیڈرشپ آرہی ہے وہ طلبا یونین، ٹریڈ یونین، کسان کمیٹیوں اور سول سوسائٹی کی بڑی تنظیموں سے آتی ہے تاہم پاکستان میں یہ نظام کئی دہائیوں سے تقریباً اب ناپید ہوگیا ہے۔

’اگر عوام یہی انتظار کرتے رہیں گی کہ پہلے اصلاحات ہوں گی اور طلبا یونینز اور ٹریڈ یونینز بنیں گی اس کے بعد ہم آئیں گے تو ہمیں 40 سال ہو گئے ہیں اس کا انتظار کرتے ہوئے مزید 40 سال بعد بھی شاید کچھ نہ ہو تو ہمیں خود اصلاحات کرنے والا بننا ہے۔

ہر جمہوری مُلک میں ’طلبا اور ٹریڈ یونین جمہوریت کی بنیاد ہوتی ہیں اور اگر اب بھی ان کے بغیر چلتے رہے اور الیکشن میں جاتے رہے اور ان یونینز کو نہیں بنائیں گے تو پھر جمہوریت پر ایسا ہی دور رہے گا اور جو ابھی چل رہا ہے وہی معاملات رہیں گے۔

’سیاست تعارف کے ذریعے ہوتی ہے۔ اسی بنیاد پر لوگ اُمیدوار کو پہچانتے ہیں اور پھر ووٹ دیتے ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک دن اُمیدوار اٹھیں اور سوچیں کہ آپ نے الیکشن لڑنا ہے اور لوگ آپ کو ووٹ دے کر جتوا دیں گے۔
اس وقت پاکستان میں ’آبادی بڑھنے کے بعد آج کل حلقے اتنے بڑے ہو چکے ہیں لیکن سیٹیں نہیں بڑھائی جاتیں یہ بھی ایک الگ قصہ ہے سیٹیں نہ بڑھنے کا یہی وجہ ہے کہ اب ایک صوبائی اسمبلی کا حقلہ قومی اسمبلی کے قریب جا پہنچا ہے اور ایک حلقے میں ڈھائی لاکھ سے تین لاکھ سے زیادہ لوگ موجود ہیں۔

’ایسے میں الیکشن ویسے ہی کسی عام پاکستانی کے ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں کیونکہ آپ کے لیے ووٹرز تک پہنچنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔‘
اس کے لیے الیکشن کمیشن کو ان الیکشن میں تبدیلی نچلی سطح سے شروع کرنا فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ اس کو ’بلدیاتی انتخابات اور یونین کونسل کے الیکشن سے شروع کیا جا سکتا ہے اور اس کے بعد آہستہ جب لوگ ایک دوسرے کو جاننے لگیں تو صوبائی اور قومی اسمبلی کی جانب دیکھ سکتے ہیں۔‘

جبکہ اس وقت ہر سیاسی جماعت جیتنے والے امیدواروں کو چنتی ہے۔ چاہے وہ علاقہ کا بدمعاش ہو یا مالدار ہو ’اس لیے کسی بھی نوجوان امیدوار کو ٹکٹ ملنا دشوار ہوتا ہے اگر وہ اشرافیہ میں کسی بھی رہنما کی اولادوں میں سے نہ ہو۔ ورنہ اس کو اپنی جماعت میں جگہ بنانی پڑے گی اور پھر اپنے حلقے میں بھی جگہ بنانی پڑتی ہے۔‘

ہماری تمام سیاسی جماعتوں میں نوجوانوں کی گرومنگ کی جگہ ہونا چاہیے ’ہمیشہ سے اثر و رسوخ رکھنے والے خاندانوں میں ٹکٹوں کی تقسیم ہوتی رہی لیکن اب کچھ صورتحال 2024 کے الیکشن میں پی ٹی آئی نے آزاد ممبروں کی جو حمایت کی ہے . اس میں کافی تعداد نوجوان نسل سے تعلق رکھتی ہے شاید آئندہ دوسری جماعتیں بھی ان صورتحال کی وجہ سے اپنے بدلاؤ میں تبدیلی لائے.

پاکستان میں ہر اُمیدوار کی ’فنانشل پوزیشن مضبوط ہونا اہم ہے۔ کیونکہ ’آپ نے ریلیاں اور جلسے بھی کرنے ہیں، پیٹرول بھی ڈلوانا ہے، روزانہ کے اخراجات بھی بھرنے ہیں، اپنے دفاتر میں آنے والے ووٹرز کی خاطر تواضع بھی کرنی ہے۔ تو ظاہر ہے آپ کو خرچہ کرنا پڑتا ہے۔‘

جیسا کے ان الیکشن میں ن لیگ کی جانب سے اس مرتبہ ’نوجوان، پڑھے لکھے، پیسے والے اور محنت کرنے والے لوگوں کو یوتھ کوارڈینیٹر بنایا گیا ہے۔

پاکستان میں وہ اُمیدوار ’اس طرح کے لوگ جو محنتی ہوتے ہیں وہ آگے ضرور آتے ہیں لیکن انھیں موروثی سیاسی خاندانوں کی نسبت محنت زیادہ کرنی پڑتی ہے۔الیکشن کے بعد نئے الیکشن میں پارلیمنٹ، مقننہ ، ریاست و حزب اختلاف کو ’اس ثقافت، اس نظام کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اگر ایسے ہی چلتا رہا تو لوگوں کا جمہوریت سے اعتبار اٹھ جائے گا.

اور آئندہ الیکشن میں ٹرن آوٹ بھی کم سے کم ہوتا جائیگا اور مڈل کلاس عوام الیکشن میں ووٹ ڈالنے سے دور ہوتیں جائینگی یہی مڈل کلاس لوگ ہیں جو چاہے شہر میں ہوں یا دیہات میں ان ہی لوگوں نے الیکشن کی کمپین کے دوران میلا لگایا وا ہوتا ہے. اگر اس ہی نے ووٹ سے کنارہ کشی اختیار کرلی تو پھر یہ الیکشن الیکشن نہ رہینگے.

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 187 Articles with 81246 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.