“؟چل پڑے شوق آوارگی میں “

نیو یارک شہر (یعنی نیا یارک) ریاست متحدہ امریکہ کا سب سے بڑا شہر ہے اور دنیا کے عظیم ترین شہروں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ کسی زمانے میں اس کو بگ ایپل (big apple) بھی کہا جاتا تھا۔ نیویارک کے اس شہر کی آبادی 8.2 ملین ہے، جبکہ شہر 321 مربع میل (تقریباً 830 مربع کلومیٹر) پر پھیلا ہوا ہے۔

یہ براعظم شمالی امریکہ کی سب سے گنجان آبادی والا شہر ہے۔ مضافاتی علاقوں کی آبادی سمیت 18.7 ملین کی آبادی کے ساتھ نیویارک دنیا کے بڑے شہری علاقوں میں سے ایک ہے۔ نیویارک امریکہ کا سب سے زیادہ آبادی والا شہر کے علاوہ یہ مرکزی مالیاتی کا بھی ایک مرکز نیویارک شہر مانا جاتا ہے.

اس ہی نیویارک میں روشنیوں کا جگمگاتا شہر ٹائم اسکوائر ( نیویارک ) اس شہر کو دنیا والوں کا شہر کے نام سے جانا و پہچانا جاتا ہے. کیونکہ اس شہر میں تمھیں امریکیوں کا کوئی ہجوم نظر نہیں آئیگا اور اِس شہر کو امریکیوں کا نہیں بلکہ دنیا والوں کا شہر ہی نظر آئیگا۔

اس میں مختلف رنگ، نسل، مذہب، قوم و زبان کے ساتھ ہر نظر آنے والا شخص ایک دوسرے جیسا ہی نظر آتا ہے لیکن ہے مختلف۔ نیویارک میں لوگوں کو جو شے اِس شہر میں ایک دوسرے سے جوڑے رکھتی ہے وہ ’’جستجو ‘‘ ہے۔ کوئی اس شہر میں اپنے ایک بہتر مستقبل کی جستجو میں ہے تو کوئی یہاں مواقع کی جستجو میں ہے، کوئی اپنے آرام و سکوں کی جستجو میں تو کوئی پیچھے رہ جانے والوں کے لئے ایک بہتر آج کی جُستجو میں ہے، جبکہ میں بھی ایک ’’جُستجو ‘‘ کے آس میں یہاں تک آن پہنچا۔ میری جُستجو جو تھی جاننا، سیکھنا اور یہ سمجھنا کہ وہ کیا چیز ہے، جو ایک قوم کو دوسری اقوام سے مخلتف بناتی ہے، میری جُستجو کی منزل چل رہی ہے لیکن میرا اِس شہر میں آج آخری دن ہے۔

اِس شہر کی چکاچوند روشنیوں کا مرکز ”ٹائم اسکوائر‘‘ ہے۔ یہ شہر ایونیوز اور اسٹریٹس میں تقسیم ہے۔ ٹائم اسکوائر، نیویارک کے ’’صدر‘‘ کا ریگل چوک ہے۔ یہ تھیٹرز کے لئے مشہور براڈ وے ایونیو اور سینونتھ ایونیو کا سنگم ہے۔

اِس کی روشنیاں آنکھوں اور خوابوں کو روشن کرتی ہیں۔ آنے والوں کی حیرانی، جانے والوں کی مسکراہٹیں اور حسرتیں، دوستوں کا، جوڑوں کا، خاندانوں کا روشنیوں کے ساتھ تصویریں کھنچواتے ہوئے یہ عہد کہ یہ روشنی ہمارے رشتوں میں ہمیشہ روشن یادوں کی طرح رہے، یہ سب دیکھنا بہت پُرکشش لگتا ہے۔

ٹائم اسکوائر کو دنیا بھر میں عوام کے پیدل چلنے والوں کے لئے مصروف ترین راستہ بھی مانا جاتا ہے۔ اکثر عام دنوں میں روزانہ 3 لاکھ سے زائد کے قریب لوگ پیدل گزرتے ہیں جبکہ روزانہ 1 لاکھ 60 ہزار سے زائد کے قریب لوگ کاروں، بسوں میں سوار ہوئے یہ روشنی کا سمندر پار کرتے ہیں اور جبکہ خاص دنوں میں یہ تعداد پانچ لاکھ لوگ روزانہ کے حساب تک جا پہنچتی ہے۔

جبکہ اتنی بڑی تعداد میں عام لوگوں کا ایک جگہ سے روزانہ کی بنیاد پر یہاں سے گزرنا ، کسی بھی اشتہاری پروڈکٹ کے لئے ایک بہترین جگہ دنیا بھر میں مشہور ہے اسی ہی وجہ سے اِن طویل و بُلند عمارتوں پر لگی ہوئی اشتہاری اسکرینز دنیا کی بڑی بڑی کمپنیوں کے نت نئے پراڈکٹس کے اشتہارات سے جگمگاتی رہتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اِن اسکرینز پر اشتہار دینے کی قیمت پاکستانی روپے کے حساب سے کروڑوں میں ہے۔

ٹائم اسکوائر کے ایک جانب جہاں بڑے بڑے شاپنگ اسٹورز، ریستوران ہیں وہیں دوسری طرف براڈ وے کے مشہور تھیٹرز ہیں، جہاں ڈرامے کئی سالوں سے جاری ہیں اور آرٹ اور ڈرامے کے شوقین افراد کو کئی دن قبل اور بعض دفعہ کئی مہینے قبل مشہور شوز کی بکنگ کروانی پڑتی ہے اور اِن شوز کی قمیت 25 ہزار پاکسستانی روپے سے لے کر کئی لاکھ تک جا پہنچتی ہے، لیکن اعلیٰ پائے کے فنکاروں کو براہِ راست پرفارم کرتے دیکھنے کا مزہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔

ٹائم اسکوائر کی سینٹرل بلڈنگ میں ایک رنگین روشن بال نصب ہے جس پر فی الحال2023ء لکھا ہوا ہے . اور تقریبا 10 دن بعد یعنی سال ختم ہونے کو ہے اس کے بعد یہ ہر سالِ نو پر تبدیل ہوجاتا ہے اور نئے آنے والے سال کے نام سے منسوب کی ہوجاتی ہے۔ اِس تقریب کو دیکھنے کے لئے لاکھوں افراد جمع ہوتے ہیں اور نئے سال کو یادگار بناتے ہیں۔

1904ء سے پہلے یہ جگہ لانگ ایکر اسکوائر کے نام سے مشہور ہوا کرتی تھی، لیکن جب اُسی سال مشہور امریکی پبلشر ادارے نیویارک ٹائمز نے اپنا صدر دفتر یہاں منتقل کیا تو اِس جگہ کا نام بھی اِسی کے ساتھ جُڑ کر ٹائم اسکوائر میں بدل گیا۔ حتیٰ کہ اُس کے بعد پبلشر کا دفتر کہیں اور منتقل ہوتا گیا لیکن نام نے اِس جگہ کا ساتھ نہیں چھوڑا۔

دنیا بھر سے امریکہ آنے والے لاکھوں سیاحوں کے لئے نیویارک آئے بغیر شاید ہی امریکہ کا دورہ مکمل ہوتا ہو، اور اگر نیویارک آکر ٹائم اسکوائر تک نہیں آئے تو ایسا ہی ہے جیسے آپ دستر خوان پر بریانی چھوڑ کر صرف سلاد کھا کر چل دیئے۔

یہ نیویارک ٹائم اسکوائر کی مختلف اسٹریٹ روڈ کے شہر کے مرکزی شاہراہیں ہر تقریبا 40 سے زیادہ داخلی اسٹیٹ ہیں. جو مرکزی شاہراہ کو ایک دوسرے سے مُنسلق ہیں. جو ٹریفک کے رش کو تقسیم کرنے میں بڑی کارآمد مانی جاتیں ہیں. نیویارک میں 1 سے 40 اسٹریٹ روڈ لائین ہیں ہر اسٹریٹ پر ہائی رائز ہوٹلز و اپارٹمنٹس ہیں جو 35,30 منزلہ کی بلند ترین عمارتیں و ہوٹلز دونوں طرف اپنی خوبصورتی کا ایک شاہکار ہیں زیادہ تر اسٹیل اسٹریکچرز و پری کاسٹ پر ان کی تعمیر کا دلکش آرٹ کا نمونہ لگتا ہے.

مگر روڈ پر جس طرح ٹریفک اور عوام کا امریکہ کے قوانین پر عمل کرنا اس قوم کی ترقی کا راز ہے. نہ وہ ٹریفک اداروں کا پاکستان کی طرح ہر چوراہے پر جتھہ کے جھتہ کھڑے ہوکر اپنی اضافی ( پگار ) بنانا کہیں نظر نہیں آیا نہ کوئی بس و دوسرے ٹریفک سے ڈرائیور حضرات یا مُسافر منہہ نکال کر کھڑکی سے روڈ پر پچکاری پھیکنا، ہر کوئی لوکل ہو یا تارکین وطن سب قوانین پر عمل کرنا لازمی امر ہے نہ ہی الیکشن میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے شاہراؤں کو بے ترتیب کنسٹرکشن کرکے بسوں کے لیے بھاری بجٹ سے ٹریک بنانا مین روڈ کو ڈسٹرپ کرنا بلکہ ان ہی مین روڈ کو ریڈ کلر کرکے بس ٹریک کے لیے جگہ مختص کرنا دونوں طرف کوئی مین روڈ کے طرف اداروں کے، سیاسی جماعتوں و علاقائی بدمعاشوں کے پتھارے، تھیلے، سلنڈر نما کچن بمعہ کرسی ٹیبل پر گھس بیٹھیوں کی طرح روڈ کو مقبوضہ کشمیر کی طرح عوام کو عذاب میں ڈالنا، ہر داخلی روڈ پر سائیکل اسٹینڈ بنے ہوئے اس کے ساتھ ساتھ ہر اسٹینڈ پر 15 سے زائد کرائے کی سائیکل لاک کی ہوئی کھڑی ہیں جس کو جانا ہے ایک ڈالر دیکر ایک گھنٹے کے لیے یا اُس سے زیادہ بھی کہیں بھی لے جاسکتا ہے . ان سائیکل کے لیے بھی روڈ مختض کیے ہوئے ہیں.
نہ ہی روڈوں پر آٹو رکشا ، موٹر سائیکل کا ازدہام نہ ہی بڑے بڑے ٹرالر و ٹرکوں کا ( مٹھی گرم ) کرکے کراچی جیسے شہر میں داخلہ کہیں نظر نہیں آیا غرض عوامی ٹریفک بسوں کا بہترین استعمال کراچی کی طرح بڑے بڑے روڈ نہ ہونے کے باوجود روزانہ پانچ لاکھ عوام کا سیروتفریح کے لیے آنا اور ان بسوں میں مختلف مُقامات پر سیروتفریح کے لیے آمدورفت کہیں ٹریفک میں خلل نظر نہیں آیا . نہ ہی کراچی کی طرح جتھہ کے جتھہ ٹریفک اداروں کی سگنل پر کھڑا عام عوام کی عزت افزائی نیویارک ( ٹائم اسکوائر ) میں کہیں نظر نہیں آئی.

جبکہ مُقامی عوام صبح صبح اُٹھ کر ہیلو ہائے اور اپنے اپنے گھر پر اپنے دین کے تحت عبادت کرنا اور وقت سے پہلے اپنے کام پر پہنچ کر اپنے کام کی شروعات کرنا مارکیٹیں صبح صبح اپنی شاپس کھول کر اپنے بزنس کا آغاز کرنا جبکہ یہ سب کچھ تو ہمارے مُلک میں ہونا چاہیے تھا) ایک کافر مُلک میں دیکھ کر یہ ہی سوچ آئی کہ نہ ہی حکمرانوں نے ، نہ ہی مذہبی جماعتوں نے ، نہ ہی تعلیمی اداروں نے ، نہ ہی مذہبی رہنماؤں نے اور نہ ہی اساتذہ و والدین نے ہماری نئی نسل کو کوئی تربیت دی ہو جس کا خمیازہ آج اس قوم کی نسل دنیا میں جاہل کے طور پر پہچانی جاتی ہے. جبکہ ہمارے مسلم مُلک میں بڑے شہروں میں مارکیٹیں بعد نماز ظہر کُھلنا ہمیں کہاں لیے جارہی ہیں کبھی اس پر نہ مساجدوں میں نہ ہی تعلیمی اداروں میں اس کی افادیت پر کوئی واعظ کرنا پھر کہنا کہ ہمیں ہنود و نصارہ تباہ کررہے ہیں.

یہ صرف اور صرف قوانین پر عمل کرنا ہی ہے جو انہیں آج کہاں سے کہاں پہنچارہا ہے اور ہم جو نہ قانون بنانے والے اور نہ قانون پر عمل کرنے والے ہمارے مُلک کو کہاں سے کہاں پہنچادیا ہے.

یہ ہی سوچتا ہوا میں سرد رات میں کافی کا ایک کہ لے کر ٹائم اسکوائر کے مرکز کی طرف نکل گیا کہ یہی سوچ میرا پیچھا کرتے ہوئے میرے دماغ میں یہی خیال بار بار آتا رہا کہ ہمیں ہمارے حکمرانوں نے اپنے اہنے مفادات کے لیے ہمارے جنت نماء ملک کو آج کہاں سے کہاں پہنچادیا قصور وار یہ 25 کروڑ عوام ہیں جنہیں اپنے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کہ باوجود ہر ظلم برداشت کرکے ایک بریانی پلیٹ پر کبھی سیاسی اختلافات پر تو کبھی لسانیت پر تو کبھی مذہبیت پر تقسیم ہوکر ظالموں کو مضبوط کرکے پھر اپنے اوپر مُسلط کروانا کیا یہ ہی ہمارا مقدر ہے ؟

پھر انجانے میں سُرخ رنگ کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر ہنستے مسکراتے، حیرت میں متبلا ان لوگوں کو دیکھنے کا ایک اور ہی لطف ہے جن میں سے کوئی شارٹ اسکرٹ میں تو کوئی حجاب میں، کسی کے سر پر پگ تو کسی کے سر پر چھوٹی کالے رنگ کی ٹوپی، کوئی اپنی گود میں مختلف نسل کے بہترین کُتے تو کوئی گود میں اُٹھائے بلی لیکر گزر رہے تھے اور ہنستے مسکراتے مجھے دیکھتے تو مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے وہ مجھ پر نہیں میری 25 کروڑ عوام پر ہنس رہے تھے یا ایک بریانی کی پلیٹ پر اپنا مُقدر بیچنے والے پر جو اپنی نسل در نسل کو گروی رکھ رہے تھے ان پر شاید مُسکرارہے تھے . ان کی معنی خیز مسکراہٹ شاید مجھے یہ احساس دلارہی تھی کہ تم اندھیروں میں ہی رہو گے تمھاری طرف کبھی طلوع صبح نہیں آئیگی طلوع صبح تو ان جیسے علاقوں میں آتی ہے جہاں جانور کے بھی حقوق ہیں وہ آج میں ٹائم اسکوائر میں ان جانوروں کو دیکھ رہا ہوں جو اپنے مالکوں کے ساتھ پٹے بندھے ہوئے بھی میرے 25 کروڑ عوام سے زیادہ حقوق کے مالک ہیں اور آزاد ہیں.

ان کی آزادی دیکھ کر مسکراتا ہوا اپنے ہوٹل کی طرف بوجھل قدموں سے چل پڑا میری آنکھوں سے اپنے مُلک کی عوام کی بے بسی پر آنکھوں سے پانی ٹپکنے لگا کاش میرے مُلک کی عوام کے چہروں پر بھی ان کی طرح مُسکراہٹ بکھرتی وہ اپنے ہی مُلک میں اس طرح سیروتفریح کرتے کاش میرے مُلک میں بھی جگہ جگہ ٹائم اسکوائر بنے ہوتے مجھے احساس بھی نہیں ہوا کہ میرا ہوٹل آگیا. میں نے پاکستانی چینل لگا کر لیٹنے ہی لگا تھا کہ ایک لیڈر تقریر کی آواز آرہی تھی
“ کیا ہم غلام ہیں “

میں فورا چینل اور لائٹ آف کرکے لیٹ گیا۔

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 187 Articles with 81195 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.