عدالتوں سے ریلیف نہ ملنے پر پی ٹی آئی کی کیا حکمت عملی رہیگی

اگر پاکستان کی عدالتوں سے پی ٹی آئی کو عدالتوب سے ریلیف نہ ملا تو اس کی سیاست کو کافی نقصان پہنچ سکتا ہے.
“ اس سے پہلے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسا کبھی کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا کہ کسی سیاسی جماعت کے انٹرا پارٹی الیکشن کو اس طرح مسترد کردیا گیا ہو۔ پی ٹی آئی کے پارٹی الیکشن مسترد کر دینے کا یہ پاکستان کی سیاست میں پہلا واقعہ ہے۔‘
پی ٹی آئی کے بلے کے نشان سے بھی محرومی بھی انتخابی نشان سے محرومی بھی اس کے نقصان میں مذید اضافہ ہی کرسکتی ہے. اس سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی انتخابی نشان سے محروم کردیا گیا تھا. ضیاء دور میں فہرست سے تلوار کا نشان غائب کردیا گیا تھا جبکہ پی ٹی آئی اپنے انتخابی نشان سے محروم اپنے انٹرا پارٹی الیکشن کے کالعدم ہونے کی بنیاد پر ہوئی. ہی ٹی آئی کے اُمیدوار اگر مختلف انتخابی نشان سے الیکشن میں کامیاب ہوکر آئے مگر اپنی جماعت کی واضع اکثریت نظر نہیں آئی تو یہ اُمیدوار اپنی جماعت کی حکومت بنتے ہوئے نظر نہیں آئی تو کیا یہ اپنی جماعت کے ساتھ اپنی وفاداری نباہ سکیں گے. اس وقت دیکھا جائے تو زمینی حقائق پی ٹی آئی کے لیے بےحد درجہ مُشکلات میں ہی نظر آرہے ہیں اور ایک ایسے موقع پر جب الیکشن کا آغاز ہونے میں لگ بھگ ایک ماہ کے عرصہ باقی ہے. اور پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت پابند سلاسل ہے اور اس جماعت کو اپنے کئی اُمیدواروں کے کاغذات نامزدگی میں مشکلات پیش آرہی ہیں. اکثریت پی ٹی آئی عہدیداران اپنی شکایات کے ساتھ لیول پلیئنگ فیلڈ میسر نہ ہونے کا شکوہ بھی سرعام پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں کرتے نظر آرہے ہیں. جبکہ پی ٹی آئی کے ( معطل چیرمین ) بیرسٹر گوہر اب بھی عدالتوں سے آس لگائے بیٹھے ہیں کہ سپریم کورٹ بلے کا نشان بحال کردیگی. اس وقت بھی پی ٹی آئی کے پاس انتخابی نشان بحال کروانے کہ دو مرحلے باقی ہیں. ہائی کورٹ کا ڈویژن بینچ اور سپریم کورٹ بلخصوص سپریم کورٹ جس کی ہر کیس پر اس وقت کڑی نظر ہے. اگر پی ٹی آئی کو عدالتوں سے اس کے حق میں فیصلہ نہیں آتا تو ایسی صورتحال میں پی ٹی آئ جو ویسے ہی مُشکلات کے بھنور میں پھنسی ہوئی ہے ایسی صورتحال میں اس کے پاس کونسا راستہ نظر آتا ہے جو وہ اس طرح کی صورتحال میں جب یہ جماعت مشکلات کا شکار ہے تو اس کے پاس اگلا پلان کیا ہو گا اور اس حوالے سے کون سے پتے اس کے ہاتھ میں ہیں. اگر اس ہی طرح کی صورتحال میں پی ٹی آئی اور اس کی قیادت کسی دوسری جماعت کے ساتھ الحاق کرسکتی ہے؟ جبکہ اڈیالہ کا قیدی نمبر 804 کا طرز سیاست غماز ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھنے کو قطعی ترجیح نہیں دیتے مگر دوسری طرف وہ چند سیٹیں رکھنے والی جماعت ق لیگ کو پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ بھی دے چکے ہیں۔ اسی طرح 2018 کے الیکشن میں ق لیگ کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی کر چکے ہیں اور الیکشن کے بعد چھوٹی جماعتوں کو ساتھ ملا کر مخلوط حکومت بھی بنا چکے ہیں مگر اس سب کے باوجود موجودہ سیاسی حالات میں شاید وہ ایسا نہ کر سکیں۔ “لیکن اب یہ بہت ضروری ہے کہ پی ٹی آئی کسی دوسری جماعت سے الحاق کرے۔ اس طرح وہ اپنی مخصوص سیٹیں بھی بچا سکتے ہیں”. پی ٹی آئی کے پاس اب یہ ہی آپشن ہے کہ اس کے حمایتی فرد واحد اُمیدوار شیخ رشید کی عوامی لیگ اور وحدت المسلمین کے پلیٹ فارم پر الیکشن لڑ سکتے ہیں لیکن اگر پی ٹی آئی ایسا کرتی ہے تو اس کی اپنی جماعت کا کافی نقصان برداشت کرنا پڑئیگا کیونکہ اس کی جماعت کی شناخت متاثر ہو گی کیونکہ یہ جماعتیں، نچلی سطح کی ہیں اور اڈیالہ کا قیدی نمبر 804 کو اپنی پارٹی کے حوالے سے احساسِ تفاخر بھی ہے، لیکن نظر نہیں آتا کہ کہ وہ کوئی گنجائش نکل پائے. “ مگر ایسا ہوسکتا ہے کہ پی ٹی آئی کے انتخابی اُمیدوار ایک ہی انتخابی نشان لینے کی جستجو کریں۔ ماضی کہ الیکشن میں اس کی کئی مثالیں نظر آئینگی ۔ حالیہ 2018 کے الیکشن میں چودھری نثار سمیت متعدد آزاد اُمیدواروں نے جیپ کا نشان لیا تھا لیکن یہ صرف اُس صورت میں ممکن ہو سکتا ہے جب ان سب کو آر اوز نشان الاٹ کریں۔” جبکہ اب ایک ایسے حالات نہیں ہیں. جب پی ٹی آئی کے لیے انفرادی سطح کی ہر سیاسی مہم ناممکن ہی بنادی ہے. جبکہ پی ٹی آئی کے لیے اجتماعی مہم ہی فائدہ مند رہے گی اور یہ ایک نشان پر ہی ممکن ہو سکتی ہے۔ لہٰذا ان تمام تر حکمت عملی اور متبادل پلان کے ساتھ پی ٹی آئی کی کوشش ہو گی کہ عدالتوں کی جانب سے ریلیف مل جائے۔ اگر پی ٹی آئی کو ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کی طرف رجوع کر کے بھی کوئی ریلیف نہیں ملتا تو پی ٹی آئی کی سیاست کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ جبکہ انتخابی نشان کے پاکستانی سیاست میں اپنے فائدے ہیں۔ ’ایک فائدہ یہ کہ خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے لیے نام دے سکتے ہیں۔ اگر انتخابی نشان کے بغیر الیکشن لڑا جائے گا تو مخصوص نشستوں کے لیے نام نہیں دیے جا سکتے۔‘

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 187 Articles with 81185 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.