اے میرے غزہ کے پھول

اے میرے غزہ کے پھول!
تمہیں شکوہ ہے
کہ تمہیں اس دنیا میں ٹھہرنے نہیں دیا گیا۔
تمہیں تو ابھی
رنگوں سے کھیلنا تھا
خوشبوؤں کو محسوس کرنا تھا
پنسل سے کاپی پر کچھ لکھنا تھا
تتلیوں کے پیچھے بھاگنا
اور پھولوں کو کھلتے دیکھنا تھا
تمہیں شکوہ ہے کہ تم نے
سورج کی حرارت محسوس نہیں کی
چاند کی چاندنی بھی نہیں دیکھی
اور وہ جو جگمگ جگنو ہوتے ہیں
اور وہ جو کوئل نغمے سناتی ہے
کچھ بھی تو نہیں
تم نے یہ دنیا نہیں دیکھی
لیکن میں تمہیں بتاؤں
تم دنیا کے جس خطے میں آئے تھے
پیارے
وہ خطہ غزہ کہلاتا ہے
کھلے آسمان تلے یہ اس زمیں کا سب سے بڑا جیل خانہ ہے
اگر تم یہاں کچھ دن ٹھہر بھی جاتے
تو بحیرہ روم کے نیلے پانیوں کے ساحل پر رہنے والے پیارے بچے
پینے کے صاف پانی تک تمہیں رسائی نہ ملنی تھی
اور اب جب یہ دنیا ٹیکنالوجی کے آسمان کو چھو رہی ہے تمہیں بجلی چوبیس گھنٹوں میں فقط چار گھنٹے ہی ملنا تھی
اور تم جی تو رہے ہوتے
مگر تم میں خون کی کمی ہوتی
اور کسی شب جب
ماں کی آغوش میں تم چھپ کے سو رہے ہوتے
اور اسرائیلی فضائیہ تم پہ آگ برساتی
شور، آگ اور دھواں
خون، زخم، آنسو اور چیخوں
میں گھر کر
تم PTSD
(پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر)
کا شکار بن جاتے
یہ بھی عین ممکن تھا کہ تم جی رہے ہوتے
اور تمہیں مرنے کی آرزو ہوتی
پھر بھی اگر تم کچھ بڑے ہو جاتے
تو تمہاری نقل و حرکت پر کڑے پہرے لگے ہوتے
تمہارے پاس کھانے کو کچھ بھی نہیں ہوتا
اور کمانے بھی نہ دیا جاتا
تمہی پر ظلم ہوتا اور تمہیں ہی ستمگر کہا جاتا
انسانیت اور انسانی حقوق کے دلفریب نعرے
تمہارے واسطے ہر گز نہیں ہوتے
کہ ابھی مسند اقتدار پر بیٹھنے والے
تمہارے انساں ہونے سے منکر ہیں
اے میرے غزہ کے پھول
صد شکر کہ تم نے یہ دنیا نہیں دیکھی
اے میرے غزہ کے پھول
تمہاری ماں
اداس ہے
پانیوں سے بھری آنکھیں
لرزتے کانپتے لبوں اور ڈوبتے دل کے ساتھ
تمہاری جدائی پہ
نڈھال ہے
ابھی تو اس نے تمہارا نرم گرم لمس محسوس کرنا تھا
اپنے گھر کی چابی جو یوم نکبہ تمہاری دادی ساتھ لائی تھی
سپرد تمہارے کرنا تھی
ابھی تو فلسطین کے نقشے پر اس نے
تمہیں تمہارا گاؤں اور گاؤں کا وہ گھر دکھانا تھا
جو تمہارے دادا، دادی نے مل کر بنایا تھا۔
ابھی تو اس نے اپنے کھیتوں کی فصلیں اور باغوں کے پھلوں کی بابت بتانا تھا
ابھی تو لوری میں تمہیں اس نے
زید اور علی رضی اللہ عنھم کے ایمان لانے کا قصہ سنانا تھا
معاذ اور مغوذ رضی اللہ عنھم کے کارنامے بتانے تھے
ابھی تو رافع اور سمرہ رضی اللہ عنہ کی کہانی بھی باقی تھی
ابھی تو سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی مانند
دوڑنا اور تیر چلانا سکھانا تھا
ابھی تو اس نے تمہیں بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ کی فطرت اور ان سے نمٹنے کے گر بتانے تھے
ابھی تو غزوہ خیبر بھی باقی تھا
اس نے تمہیں مجاہد بنانا تھا
اقصٰی کا محافظ بنانا تھا

اے میرے غزہ کے پھول
کیسے تمہیں میں بتا پاؤں
درد دل للہ کس کو میں سنا پاؤں
ارض فلسطیں سے میلوں دوری پر
سرزمین پاکستان پہ رہتی یہ ماں
تمہارے دکھ میں روز و شب بتاتی ہے
رنگ خوشبو ذائقے کچھ بھی نہیں بھاتے
ہنسنے اور مسکرانے کے بہانے نہیں ملتے
مکمل ناکہ بندی
بجلی، پانی اور ایندھن پر بھی پابندی
سکولوں اور ہسپتالوں پر فاسفورس بمباری
اے میرے غزہ کے پھول
تمہارے دشمنوں کا دین اور قانون کیا ہے آخر
یو این او قراردادیں، انسانی حقوق کے پلندے
حرف بیکار بن جاتے ہیں غزہ آکر
نیتن یاہو فرعون وقت بن کر مسلط ہے
مصر، اردن برادران یوسف ہیں
کہ عضل قارہ؟
57 مسلم ملکوں میں
کسی کی آرمی تمہاری مدد کو کیوں نہیں اٹھتی
وہن میں مبتلا امت
جاگتی کیوں نہیں
زخم پر زخم کھا کر
اے میرے غزہ کے پھول
مگر میں نے ہمت نہیں ہاری
تمہاری مظلومیت کے سب مناظر
اور ظالم کی جارحیت کے کل دفاتر
میں چیخ چیخ کے دنیا کو بتاؤں گی
کوئی نہیں سنتا میں عرش کے رب کو بتاؤں گی
تمہارے اور اپنے رب کو سناؤں گی
میں فریادی بن کے بیٹھوں گی مصلے پر
پکاروں گی
یا رب!
بخش دے ہم کو
باہم اصلاح فرما کر
باندھ دے ہمیں ایک دوسرے کی الفت سے
غلبہ عطا کر دشمنوں پر اپنی رحمت سے
یا رب!
یہ روکتے ہیں تیرے رستے سے
رسول ہو یا شریعت ہو کسی کی نہیں سنتے
بلا جواز لڑتے اور فساد کرتے ہیں
یا رب! انہیں توڑ دے، تباہ کر اپنا عذاب واسطے ان کے اتار یا رب
کہ یہ جینے نہیں دیتے میرے غزہ کے پھولوں کو

ام محمد عبداللہ
About the Author: ام محمد عبداللہ Read More Articles by ام محمد عبداللہ: 7 Articles with 3041 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.