اشد ضرورتیں

پاکستان کی معاشی نظام تباہ حال و دیگرگوئی کا شکار ہے۔ اچھمبے کی بات یہ نہیں کہ پاکستان اس وقت گمبھیر معاشی صورتحال کا شکار ہے۔ معاشی پہیہ جام ہوچکا ہے۔ عوام کی سیاسی اور غیر سیاسی اداروں پر اعتماد میں واضح طور پر کمی واقع ہوئی ہے۔ معیشیت کیسے سدھرے گی؟ یہ جاننا عام افراد کےلئے مشکل ہے کیونکہ یہ انکا کام نہیں۔ مگر اس وقت مشکل یہ ہے کہ جس کا یہ کام ہے وہ بھی شاید نہیں جانتے۔ ہماری حکومتیں ایک، ایک اور دو، دو بیلین ڈالر کےلئے دوسرے ریاستوں اور بین القوامی اداروں سے بھیک مانگ رہی ہوتی ہے۔ معیشت کی کمائی کے ذریعے محدود ہے۔
یہ تمام باتیں غلط ہیں کہ کمائی کے زریعے محدود ہے۔ بلکہ درست یہ ہے کہ ہم نے محدود کئے ہیں۔ کیونکہ حکومتی بالادستوں کو یا تو پتہ نہیں ہے کہ کمائی کیسے کی جاسکتی ہے یا وہ اپنے زعم اور مفادات میں مصروف ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ اس طرف جا نہیں رہے ہیں۔
کمائی کے زریعے تو ایسے ہیں کہ پاکستان توڑا سا بھی چاہے تو کم از کم ہر سال خسارے کے رقم سے پیچھا چھڑایا جاسکتا ہے۔ مطلب سالانہ خسارے سے بچا جاسکتا ہے اور اگر توڑی زیادہ خلوص کے ساتھ کام کیا جائے تو سرپلس میں بھی بجٹ پیش کیا جاسکتا ہے۔ چند اشد ضرورتیں بل امر ہے۔
2023 میں آن لائن یونیورسٹیز کی معیشت تقریبا 104 بلین ڈالر ہے۔ جبکہ 2027 تک تقریبا 166 بلین ڈالر ہوجائے گا۔ ہمارے پاس بےروزگار تعلیمی یافتہ لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے اور بڑی انفراسٹرکچر یہ مانگتا نہیں۔ اگر کسی چیز کی ضرورت ہے تو وہ سیاسی سرپستی کی۔
2022 میں اموزان نے تقریبا 514 بلین امریکی ڈالر ٹارکیٹ حاصل کیا دنیا بھر کے سیلز مارکیٹ سے۔ یہ پاکستان کی جی ڈی پی سے زیادہ رقم ہے۔ ہمیں نوجوانوں کو اس پلیٹ فارم پر کام کرنے کےلئے تربیت دینی چاہئے۔ ساتھ اپنا پلیٹ فارم اسکے مقابلے میں کھڑا کرنے کی سغی کرنی چاہئے۔ یہ واضح ہے کہ ہم اموزان کا مقابلہ نہیں کرسکتے مگر آن لائن مارکیٹ سے بقدر جثہ رقم اٹھا سکتے ہیں۔
ویڈیو گیم انڈسٹری کی 2023 میں 334 بلین ڈالر مارکیٹ ہے۔ جو ہمارے ٹوٹل جی ڈی پی کے قریب ہے۔ مگر ہمارا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ بلکہ یہ مضمون چند نجی یونیورسٹیوں کے علاوہ پڑھایا بھی نہیں جارہا ہے۔ اس نے بھی قریب میں پڑھانا شروع کیا ہے۔ جبکہ کچھ گیم ڈیولپرز نجی طور پر گیم تیار کرکے مارکیٹ میں اتار رہے ہیں۔ اس مارکیٹ سے اچھی خاصی کمائی کی جاسکتی ہے۔ اس مارکیٹ میں قسمت آزمائی کی اشد ضرورت ہے۔
پاکستان کی کمائی کا بڑا حصہ انرجی پر ضایع ہو رہا ہے۔ اور یہ ضرورت خیبر پختون خوا پورا کرسکتی ہے۔ اسکے لیے ہمیں چھوٹے چھوٹے ڈیمز کی طرف جانا پڑے گا۔ خیبر پختون خوا میں نہروں اور دریاوں کی کوئی کمی نہیں ہیں۔ ان نہروں اور دریاوں کو درست انداز میں استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ اور انکے متعلق ٹیکنالوگی کو بہتر بنانا پڑے گا جو نہروں اور دریاوں دونوں میں کام کریں۔
ویسے جو باتیں میں نے کی اس میں زیادہ تر کا تعلق سائنس، ٹیکنالوجی اور اختراع سے ہے۔ یہ دنیا کی معیشت میں ایک بڑا حصہ رکھتی ہے۔ مگر ہمارے مجموعی معاشی ڈھانچے میں اسکا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
سائنس اور اختراع متحرک قوتیں ہیں جو تکنیکی ترقی کو آگے بڑھانے، پیداواری صلاحیت کو بہتر بنانے اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سائنس اور اختراع نہ صرف نئی ٹیکنالوجیز بنا کر سماجی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں جیسے روزگار کے مواقع پیدا کرنا، کارکردگی میں اضافہ کرنا یا مکمل طور پر نئی صنعتوں کو جنم دینا بلکہ نئی معاشی راستوں کا بھی گونج لگاتا ہے۔ سائنس، ٹیکنالوجی اور اختراع کا معاشی و سماجی ترقی کے ساتھ ایک دلچسپ تعلق ہے جو قابل غور ہے۔
پاکستان کونسل فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے 2012 میں پہلی مرتبہ نیشنل سائنس، ٹیکنالوجی اینڈ انویشن پالیسی-2012 کے نام پالسی متعارف کرائی جس میں پہلی مرتبہ احتراع کو معاشی ترقی کے حصول کے لئے طویل مدتی حکمت عملی کے طور پر اپنایا گیا۔ مگر اس پرعمل کتنا ہوا یہ کوئی نہیں جانتا۔ پھر پی سی ایس ٹی نے 2014 تا 2018 نیشنل سائنس، ٹیکنالوجی اینڈ انویشن سٹریٹجی متعارف کرائی مگر یہ بھی حکومتی عدمِ توجہ کی وجہ سے کسی کام کی نہ رہی۔ نئے آنے والے حکومت کو چاہئے ہوگا کہ وہ اس طرف دھان دیں اور سائنس، ٹیکنالوجی اینڈ انویشن کی پالیسی کو نہ صرف نئے سرے سے متعارف کرائے بلکہ عمل کرانے میں دیر و کوتاہی نہ بھرتی جائے۔ اس کے علاوہ پاکستانی یونیورسٹیز میں مضمون سائنس، ٹیکنالوجی اینڈ انویشن پڑھایا نہیں جا رہا ہے۔ تمام یونیورسٹیز کے حکامِ بالا سے گزارش ہے کہ وہ اس مضمون کو یونیورسٹیز میں ضرور پڑھائیں۔
ویسے سائنس، ٹیکنالوجی اینڈ انویشن سے ملتا جلتا مگر ایک الگ مضمون بھی موجود ہے جس کا نام اکانومی آف سائنس اینڈ انویشن ہے۔ یہ مضمون پاکستانی یونیورسٹیز میں اکانومی کے ڈپارٹمنٹ میں اکانومی کے شاخ کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔
یہ اہم اسلئے ہے کہ یہ سائنس اور اختراع کا صرف معاشی پہلو دیکھتا ہے۔ چونکہ سائنسی دریافتوں سے ابھرنے والے نئی ٹیکنالوجیز اور صنعتیں معاشی ترقی کو تحریک دیتی ہے۔ تحقیق و ترقی میں سرمایہ کاری، ہنرمند کارکنوں، وسائل اور بنیادی ڈھانچے کی مانگ کا تعین کرنا۔ ٹیکنالوجی کا استعمال، سرمایہ کاری کی گنجائش اور پیوسطہ معاشی امکانات کا جائزہ لینا مضمون اکانومی آف سائنس اینڈ انویشن کا کام ہے۔ یہ مضمون بتاتا ہے کہ سرمایہ کاری کدھر کرنی ہے اور کدھر نہیں۔
یونیورسٹیز کے حکامِ بالا، ہائیرایجوکیشن کمیشن اور حکومت سے گزارش ہے کہ اس مضمون کو یونیورسٹیزمیں الگ حیثیت سے پڑھایا جائے۔ اس سے ہوگا یہ کہ ہمارے ساتھ معیشت کمانے کے نئے راستے نکل آئنگے۔
اس سے بھی ضروری یہ ہے کہ انڈسٹری، اکیڈمیہ اور پالیسی سازوں میں ربط کی کمی ہے۔ جبکہ ربط کے بغیر کسی نئے شعبہ میں نجی سرمایہ کاری مشکل ہوتی ہے۔ اسلئے ربط ضروری ہے۔ اکیڈمیہ انڈسٹری کی انکھیں ہیں۔ اور انکھوں کے بغیر صحیح راستے چلنا مشکل امر ہے۔

Sadiq Amin
About the Author: Sadiq Amin Read More Articles by Sadiq Amin: 12 Articles with 3708 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.