کولہو کا بیل اور جدید دنیا

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
یہ محاورہ ایسے شخص کے لیے استعمال کرتے ہیں جس میں سمجھ بوجھ کی کمی ہو یا قوت فیصلہ نہ ہو اور وہ دن رات کام میں بھی لگا رہے۔ آج کا دور، مشینی دور ہے۔ ہر کام مشینوں کے ذریعے ہوجاتا ہے۔ مشینی دور سے پہلے دیہات میں زیادہ تر کام جانوروں سے لیا جاتا تھا۔ کھیت میں ہل چلانے، کنویں سے پانی نکالنے، تیار فصل کو منڈی تک پہنچانے اور چاول کو دھان سے علیحٰدہ کرنے کے لیے بھی بیل سے کام لیا جاتا تھا۔ غرض بہت سے کاموں میں بیل کی مدد اور طاقت سے انسان فائدہ اٹھاتے تھے۔ اسی طرح بیجوں سے تیل نکالنے کا کام بھی بیل ہی انجام دیتے۔ جس جگہ تیل نکالا جاتا اُسے کولہو کہتے ہیں۔ یہ لکڑی کی چکی کی طرح ہوتا ہے۔

اس میں بیج بھرنے کے بعد ایک موٹی سی گول چکنی لکڑی کے ساتھ بیل باندھ کر چکر لگوائے جاتے ہیں۔ بیل کی مدد سے اس کا درمیانی حصہ گھومنے لگتا ہے جس کی وجہ سے بیج پس جاتے اور ان سے نکلنے والا تیل ایک نالی سے گزرتا ہوا برتن میں جمع ہوتا رہتا ہے۔ بیل کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی جاتی ہے تاکہ گول گھومنے کی وجہ سے اسے چکر نہ آئیں۔ بیل صبح سے شام تک اس کے گرد چکر لگاتا رہتا ہے اور یہی اس کا کام ہے۔ بیل اپنی دانست میں میلوں کا سفر طے کرتا اور اس بات سے بے خبر ہوتا ہے کہ وہ ایک ہی محدود جگہ پر چکر لگا رہا ہے۔

صدیاں گزر گئیں، کولہو کا بیل آنکھوں پر کھوپے پہنے، گلے میں گھنٹی ڈالے، دائرے میں چلتا جارہا ہے، بیل کی آنکھیں کھلی رہیں تو اسے پتہ چل جائے کہ وہ تو ایک لاحاصل سفر پر روانہ کیا گیا ہے، اسی لئے بیل کی آنکھوں پر کھوپے چڑھا دیئے گئے ہیں کہ وہ حقائق نہ جان لے، اوپر سے اس کے گلے میں بندھی گھنٹی اس کو یقین دلاتی رہتی ہے کہ وہ اکیلا ہی اس سفر میں نہیں ہے زندگی کا شور بھی شریک سفر ہے۔ یہ سراب صدیوں پہلے پیدا کیاگیا اور آج تک جاری ہے، بیل کھوپے سمیت دنیا و مافیہا سے بے خبر رواں دواں ہے۔

مصر اور برصغیر تاریخ کی پرانی تہذیبوں کے نمائندہ خطے ہیں، تین ہزار سال قبل مسیح کے مصر میں طوطخ آمون نام کا بوائے کنگ برسراقتدار تھا، طوط یا یاتوت فراعنہ مصر کی شاخ میں سے تھا یہ 9سال کی عمر میں بادشاہ بنا اور ساڑھے 19سال کی جواں عمر ی میں ہی وفات پا گیا۔ مصر کے عجائب گھرمیں طوطخ آمون کا وہ شاہی رتھ آج بھی موجود ہے جس پر چڑھ کر وہ دشمنوں کے خلاف صف آراء ہو تا تھا۔ اس رتھ میں دو گھوڑے اکٹھے جُوتے جاتے تھے۔ دوسری طرف سندھ کے قدیم تہذیبی مرکز سے موہنجوداڑو کی جو کہانی ابھرتی ہے اس میں گھوڑے کا ذکر نہیں ملتا۔ سندھ کا علامتی ہیرو ’’سائیں یا پروہت‘‘ موجود ہے اور تانبے سے بنی رقاصہ بھی۔ مگر نہ گھوڑے کی کوئی مہر ہے اور نہ اس کی کوئی تصویر۔ ہاں البتہ بیل موہنجوداڑوکی تہذیب کا اہم جزو تھا۔ یہی بیل آج بھی ہند اور سندھ کی تہذیب کا نشان ہے۔ ڈھگا، کولہو کا بیل اس خطے کی سستی اور سادگی کے لئے طعنہ بھی رہا ہے اور جانفشانی کی علامت بھی۔ بعض تاریخ نویس اور مفکرین سمجھتے ہیں کہ کولہو کا بیل بغاوت نہیں کرسکتا۔ دائرے میں چلتے چلتے بیل کو ایسی عادت پڑ گئی ہے کہ وہ سیدھا چلنے کے قابل ہی نہیں رہا۔ مگر یہ مکمل سچ نہیں ہے کولہو کا بیل اندھا نہیں ہے اسے کھوپے پہنا کر اندھا کیا گیا ہے اور اگر یہ کھوپے اتر جائیں تو بیل بھی بغاوت کر دے گا اپنے حقوق کے لئے اڑ جائے گا۔ پھر وہی گھنٹی جو اس کی غلامی کی علامت ہے آزادی کا ترانہ بن جائے گی۔

کولہو کے بیل کا یہ سفر صدیوں سے جاری ہے۔۔۔لوگ اپنا پسینہ نکال کر دوسروں کو تیل سے نوازتے ہیں اور کب تک نوازتے رہیں گے کچھ نہیں پتا۔۔۔۔خود ساری زندگی ایک نقطے پر سفر کرتے کرتے دوسروں کے دائروں کی تکمیل کرتے رہیں گے۔۔۔تیل نکلتا ہے۔۔نکلے جارہا ہے۔۔۔دائرے بنتے ہیں۔۔۔بنتے جارہے ہیں۔۔۔۔فرق صرف اتنا ہے کبھی بیل تبدیل ہوجائے گا تو کبھی پرکار۔۔۔اور کہیں کولہو کا مالک بدل جائے گا تو کہیں پرکار والا ہاتھ۔۔۔۔۔کیونکہ ہم لوگوں کی مثال سلیٹ پر لکھے ان الفاظ کی سی ہے جنھیں اگلے سوالات کی خاطر بہرحال مٹنا ہی پڑتا ہے۔

مشرق ہو یا مغرب ، کارپوریٹ کلچر نے آج کے انسان کو اسی کولہو کے بیل میں تبدیل کیا ہوا ہے، نہ شوہر کے پاس بیوی کیلئے وقت ہے، نہ بچوں کےلئے وقت ہے، بس صرف اقتصادی و معاشی ضرورتیں پوری کرنے کو ذمہ داری سمجھ لیا گیا ہے، ایسے گھرانے وجود پاچکے ہیں جن میں مسرت، سعادت اور خوشبختی نہیں ہے، انسانوں کا انسانوں سے مستقیم رابطہ ختم ہوچکا ہے۔۔۔ہر شعبہ میں انسان روبوٹ بن چکا ہے، خواہ تعلیمی شعبہ ہو یا کوئی اور ۔۔۔ کارپوریشنز کا کون سب سے اچھا صارف ہے، کتنا مال جمع کرسکتا ہے، کتنا اپنی زندگی کو کارپوریٹ معاشروں کی طرح بنا سکتا ہے وغیرہ

مقابلہ کی دوڑ لگی ہوئی ہے ، نہ ہمارے پاس گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے کا وقت ہے، نہ بچوں، رشتہ داروں اور دوستوں کیلئے وقت ہے، نہ سکون سے عبادت کیلئے وقت ہے اور اگر کبھی ان کے ساتھ بیٹھ بھی جائیں تو گھڑی دیکھتے ہیں کہ اگلے task پر جانا ہے۔ یہ سعادت مند زندگی کی نشانیاں نہیں ہیں۔کارپوریٹ کلچر کا تعلیمی نظام بھی ایسا ہے کہ اس کلچر میں فٹ ہونے کیلئے ہم نفسیاتی مریض کی حد تک گریڈز اور پوسیشنز کے دیوانے ہوگئے ہیں۔ ہائر ایجوکیشن نے ہمیں اس ابلیسی سسٹم میں تو فٹ کردیا ہے مگر ہم انسانی اقدار، انسانی تہذیب اور قدرتی ماحول سے اتنا ہٹ چکے ہیں کہ اگر کسی کو پلٹنے کی طرف کہیں تو وہ ہمیں احمق سمجھتا ہے ہم اپنا "کھوپہ" اتارنے پر تیار ہی نہیں۔

خلوص، انسیت ، مہربانی، رحمت، شفقت تقریباً ناپید ہوکر صرف معاشی جانور بن چکے ہیں۔ ان بیلوں کو بتانے کی کوشش کرو تو بھی نہیں مانتے، بغاوت پر اکساؤ تو دشمن گرداننے لگتے ہیں ، جو اپنی کیفیت سمجھ جاتے ہیں ان میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ اپنی روش تبدیل کرسکیں اور کم از کم اگر فوری تبدیل نہیں بھی کرسکتے تو تبدیلی کا عزم ہی پیدا کرلیں اور آئندہ نسلوں کو وراثت میں دے جائیں۔بعض تو یہ بھی نہیں مانتے کہ وہ اپنا مقام بنانے، اپنی شناخت کروانے یا اپنے آپ کو منوانے کی کوششیں کر رہے ہیں بلکہ یہی کہتے ہیں کہ بس روزی روٹی کمانے اور بچوں کو پالنے پڑھانے کا مسئلہ ہے جس کے لیے کولہو کے بیل کی طرح جتے ہوئے ہیں۔ اس عالمی روبوٹ زدہ مشینی زندگی کو جو صرف چند سرمایہ داروں کے منافع کے گرد گھوم رہی ہے،سے نکلنا ہوگا، بغاوت کرنی ہوگی، سسٹم کی تبدیلی ہی اب تمام مسائل کا حل ہے۔اسی ابلیسی نظام کو توڑنا ہوگا، انقلاب لانا ہوگا، عالمی انقلاب ۔۔۔!!
سید جہانزیب عابدی
About the Author: سید جہانزیب عابدی Read More Articles by سید جہانزیب عابدی: 68 Articles with 58729 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.