|
|
عام طور پر ہمارے مشرقی گھرانوں میں بچوں کو پیدا ہونے
کے بعد سے الگ کمرے میں سلانے کا رواج موجود نہیں ہے- اکثر گھرانوں میں یہ
عمل اس وجہ سے کیا جاتا ہے کہ جوائنٹ فیملی ہونے کے سبب ہر جوڑے کو ایک ہی
کمرہ ملتا ہے جس میں وہ اپنے بچوں کو بھی ساتھ سلانے پر مجبور ہوتے ہیں
جبکہ کچھ گھرانوں میں بچوں کو تنہا سلانے کی مخالفت کی جاتی ہے کہ اکیلا
بچہ ڈر جاتا ہے- اس وجہ سے والدین اس کو اپنے پاس ہی سلاتے ہیں- |
|
ایک جوڑے کی
کہانی |
ویسے تو اس مسئلے سے زيادہ تر مشرقی والدین
دوچار ہوتے ہیں مگر پاکستانی والد عمر عیسیٰ جو کہ مشہور نشید خواں ہیں ان
کی ایک فیس بک پوسٹ نے سب کی توجہ اپنی جانب نہ صرف مبذول کروا لی بلکہ بہت
سارے والدین نے ان کی تائيد بھی کی- عمر عیسیٰ کی بیوی کا تعلق بنگلہ دیش
سے ہے انہوں نے اپنی فیس بک پوسٹ میں جو کہا اس کو آپ خود دیکھ لیں- |
|
|
|
فیس بک پوسٹ |
یہ ایک وارننگ اور تعزيت ہے ان تمام والدین کے لیے جو کہ
وہ غلطی کر چکے ہیں جو کہ انہوں نے بھی کی ہے۔ عمر کا مزيد یہ بھی کہنا تھا
کہ ان سے ایک چھوٹی سی غلطی ہو گئی اور وہ غلطی یہ تھی کہ انہوں نے اپنے
پہلے بیٹے ابراہیم کو لاڈ پیار میں شروع شروع میں اپنے درمیان سلانا شروع
کر دیا۔ |
|
چونکہ وہ نئے نئے والدین بنے تھے اس وجہ سے اپنے اس بچے
کے لیے بہت کئيرنگ تھے مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کا بیٹا ابراہیم اس
طرح سے سونے کا عادی ہو گیا مگر اب جب کہ وہ بڑا بھی ہو گیا ہے اور اس کو
سونے کے لیے علیحدہ سے بیڈروم بھی دے دیا گیا ہے- |
|
مگر اس کے باوجود ان کا یہ بیٹا رات میں ان کے سوتے ہوئے
ان کے درمیان آکر سو جاتا ہے جس کی وجہ سے انہوں نے اپنے بیٹے کو انڈیا کا
نام دے دیا ہے کیونکہ ان کا یہ ماننا ہے کہ جس طرح پاکستان اور بنگلہ دیش
کی سرحدوں کے درمیان ان کو ایک دوسرے سے دور کرنے کے لیے انڈيا کردار ادا
کرتا ہے اسی طرح ان کا بیٹا بھی انڈیا کی طرح ہمیشہ ان کے درمیان آجاتا ہے- |
|
سوشل میڈيا
صارفین کا ردعمل |
سوشل میڈيا پر عمر عیسیٰ کی یہ پوسٹ نہ صرف آج
کل وائرل ہو رہی ہے بلکہ اس حوالے سے مختلف افراد نے کمنٹ بھی کیے ہیں جو
کہ کچھ اس طرح سے ہیں- |
|
ایک صارف کا یہ کہنا تھا کہ یہ اگرچہ کافی
مزاحیہ لگتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ میری بیٹی بھی ایسا ہی کرتی ہے آدھی رات
کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ کوئی سائڈ پر آکر چپک کر لیٹا ہوا ہے تو ان کی بیٹی
بھی جو کہ اب 14 سال کی ہو چکی ہے مگر اس کے باوجود وہ آدھی رات کو ان کے
پاس آکر لیٹ جاتی ہے
جبکہ کچھ افراد نے اس بات کو ہر دیسی گھرانے کی کہانی قرار دے دیا- |
|
|
|
جبکہ کئی افراد نے ان حالات کو اپنی ہی کہانی
قرار دیا اور بتایا کہ ان کے بچے بھی ان کے ساتھ ایسا ہی کرتے ہیں اور
اگرچہ وہ 13 یا 14 سال کے ہو چکے ہیں مگر اس کے باوجود ان کے بچے اپنے بیڈ
روم سے اٹھ کر ان کے بیڈ روم میں آکر سو جاتے ہیں- |
|
یاد رہے ہمارے مشرقی معاشرے میں کسی بھی شخص کو
اپنی زندگی جینے کا موقع کم ہی ملتا ہے اور بچوں کی پیدائش کے بعد میاں
بیوی کی پرائيوسی تو نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے اور والدین بننے کے بعد
وہ صرف ماں باپ ہی رہ جاتے ہیں- |