تصویریں کب بولتی ہیں

ہمارے معاشرے کا ایک تلخ پہلو

تمہارا وٹس ایپ اسٹیٹس دیکھا تھا
وہ مبہم سا مسکراتے ہوئے گویا ہوا۔

بس تمہارے کومل اور مرمریں ہاتھ نظر آ رہے تھے چہرہ دیکھنے کی چاہت بڑی شدت سے ہوئی تھی لیکن تم نے منع کیا تھا ناں اس لیے بس ہاتھ دیکھنے پر ہی اکتفا کیا۔
اس کی مسکان ہلکی سی مانند ہوئی تھی اور سر کو جھکاتے ہوئے انگلیاں مسلنے لگا تھا لہجے میں ہلکی سی مایوس کی لہر تھی۔

تمہارے ہاتھوں پر مہندی بھی لگی تھی بہت پیاری پیاری لگ رہی تھی۔
اس کی آنکھوں اچانک چمکنے لگی تھی اور اس کی آنکھوں سے چھلکتے محبت کے جذبے کوئی بھی محسوس کر سکتا تھا بس ایک وہی تھی جو اس سے بے خبر اپنی ہی دنیا میں گم تھی۔

ہتھیلی پر مہندی سے کوئی نام بھی لکھا تھا
وہ ایک بار پھر اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر جلدی سے گویا ہوا۔

لیکن وہ میرا نام تو نہیں تھا ؟
اس کے لہجے میں اداسی گھلنے لگی تھی مسکراتی آنکھوں میں ہلکی سی نمی در آئی اور وہ بے بسی اس کی طرف دیکھ رہا تھا لیکن دوسری طرف مکمل سکوت تھا سوگواری فضا میں پھیلنے لگی۔

تمہیں پتہ ہے تمہارے ہاتھوں پر کسی اور کا نام دیکھنا میرے لیے کتنا اذیت ناک لمحہ تھا۔
ہونٹ پر پھیلی مسکان ہنوز برقرار تھی لیکن آنکھوں میں پانی کا سمندر کناروں سے چھلک پڑا تھا۔

یوں محسوس ہوا جیسے کوئی تیز دھار خنجر سے میرے دل پر کچوکے لگا رہا ہے یقین مانو تمہارا نام بس میرے نام کے ساتھ جچتا ہے۔
وہ ہنوز سر جھکائے کربناک لہجے میں بول رہا تھا۔

آہ ہماری محبت بڑوں کے فیصلوں کی نظر ہوگئی جدائی کی دیمک ہماری محبت کو کھا گئی لیکن میں ‏اچھے سے جانتا ہوں اگر عورت کا دل چیرا جائے تو صبر وتحمل برداشت سمجھوتوں، اور قربانیوں کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
اس نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا۔

اب میں تمہارے گلاب جیسے کھلتے ہوئے چہرے کو کبھی دیکھ نہیں پاوّں گا تمہاری کھنکتی ہوئی خوبصورت ہنسی کی آواز سے میری سماعتیں محروم ہو جائیں گی سچ تو یہ ہے کہ تمہاری کمی میں ہمیشہ محسوس کروں گا۔
وہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے جبری مسکان ہونٹوں پر سجائے گویا ہوا۔

تمہاری یہ عادت مجھے بالکل پسند نہیں تم ہمیشہ چپ رہتی ہو بس میں ہی ہر وقت بولتا رہتا ہوں تم جانتی ہو مجھے خاموشی سے وحشت ہوتی ہے۔
وہ صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے ہوئے خفگی سے گویا ہوا۔

کیا تمہیں میری خفگی سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا ؟ تمہیں یاد ہے تم ایک پل کےلیے میری خفگی برداشت نہیں کرتی تھی اور تب تک کھانا نہیں کھاتی تھی جب تک میں مان نہیں جاتا تھا۔
وہ ہلکی سی ہنسی ہنستے ہوئے گویا ہوا اور پھر سگریٹ نکال کر سلگانے لگا۔

خفا ہوں یار منا لو قسم سے مان جاوّں گا بس ایک بار بات تو کرو۔
کچھ توقف کے بعد وہ پرنم آنکھوں میں اداسی لیے گویا ہوا اور سگریٹ کا ایک کش لگا کر دھواں فضا میں چھوڑا سگریٹ کے ساتھ اس کا دل بھی سلگ رہا تھا

یعنی تمہیں کوئی فرق نہیں پڑتا ؟
اس کا لہجہ تھوڑا تلخ ہوا لیکن نہ اس نے بولنا تھا نہ بولی وہ کوئی زندہ وجود نہیں بس ایک تصویر ہی تو تھی۔

افففف خدایا میں بھی کتنا پاگل ہوں بھلا تصویریں کب بولتی ہیں۔
وہ اپنی نادانی پر ہلکے سے مسکرایا تھا اور موبائیل سکرین پر چمکتی خوبصورت تصویر کی روشنی مانند پڑ گئی اور اس کے ساتھ ہی درد کی ایک شدید لہر اس کے دل میں اٹھی تھی۔
ختم شد
 

Muhammad Waseem
About the Author: Muhammad Waseem Read More Articles by Muhammad Waseem: 3 Articles with 3696 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.