تم بن جیوں کیسے

وہ جس کی شکل بھی دیکھنا پسند نہیں کرتی تھی آج اسی کے پاس پہنچ چکی تھی۔ چوہدری اسے دیکھ کر ہنسا اور کہنے لگا۔ میں نے کہا تھا کہ ایک گاؤں میں رہنا ہے توہمیں ایک دوسرے کی ضرورتوں کا خیال بھی رکھنا ہوگا۔ تو کمال ضدی لڑکی ہے۔بات ہی نہیں کرتی تھی۔ اس گاؤں میں میری بڑی عزت ہے۔ میں نے کہا تھا،چپکے سے مل لیا کر ۔ تیری اور میری دونوں کی عزت خراب نہیں ہو گی۔مگر تو میری بات ماننے کی بجائے خوامخواہ میرے ساتھ بگڑتی رہی، میرے پیار کا جواب ہمیشہ غصے سے دیتی رہی مگر آج آ گئی نا میرے پاس، بول کیا کام ہے۔ اس نے آنکھ جھپکے بغیر چوہدری کی طرف دیکھا اور کہا، مجھے دس ہزار روپے کی فوری ضرورت ہے۔چوہدری نے جیب میں ہاتھ ڈالا ، کچھ پیسے نکالے اور ان میں گن کر دس ہزار اس کو دے دئیے۔لے میری جان تو کہے اور میں نہ دوں، یہ کیسے ممکن ہے ، آجا بیٹھ تھوڑی دیر باتیں کریں۔ یہ کہتے ہوئے چوہدری نے یکدم اس کا ہاتھ پکڑ کر ا سے ا پنی طرف کھینچا۔ میری شہزادی آج سے بس تو میری ہے۔جو کہے گی ملے گا میں بس تیری پیار بھری نظروں کا طلب گار ہوں۔اس نے کوئی مزاحمت نہیں کی ۔ ایک بے جان مورت کی طرح اس کے ہاتھوں میں جھول گئی۔چوہدری نے ہلایا جلایا مگر وہ وہ کسی بے جان چیز کی طرح بے بس اور بے حس اس کی بانہوں میں جھولتی رہی،چوہدری کی کسی بھی حرکت پر اس نے کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا،لگتا تھا وہ کسی اور مسئلے میں کھوئی ہوئی ہے۔کچھ محسوس کرتے ہوئے چوہدری پریشان ہو گیا اور کہنے لگا، خیریت ہے ، شہزادی آج تیری مسکراہٹ کو کیا ہوا۔ وہ شوخی وہ چنچل پن کہاں گیا۔ آج تو تو بڑی بے جان سی مورت لگ رہی ہے۔ کیا ہوا ہے۔اس نے بمشکل خود کو سنبھالا اور کہا،چوہدری آج مجھے جانے دے، میں بڑی مجبوری میں آئی ہوں ، میرے ساتھ جو ہوا اور ہو رہا ہے تجھے پتہ چل جائے گا۔ زندگی رہی تو دیکھیں گے۔چوہدری نے پریشان ہو کر پوچھا، ’’تیری طبیعت تو ٹھیک ہے۔ تو کچھ کھوئی کھوئی سی ہے ۔کچھ بتا تو سہی۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا بس کھوئی کھوئی نظروں دیوار کی طرف دیکھتی رہی ۔ چوہدری نے فکر مند ہو کر اسے کہا، کچھ پریشانی ہے تو جا کوئی بات نہیں۔ میں کسی دوسرے دن تیرا منتظر رہوں گا‘‘۔وہ مڑی اور تیزی سی مسجد کی طرف چل پڑی۔

اس کا باپ کسی سرکاری ایجنسی کا ملازم تھا۔کسی زمانے میں اس کی پوسٹنگ اسی علاقے میں تھی۔ آبائی گاؤں میں کسی جھگڑے اور دشمنی کے سبب اپنی بیوی اور بچی کو وہاں محفوظ نہ جانتے ہوئے اس نے چپکے سے اپنا سامان اٹھایا ،کسی کو بتائے بغیر انہیں اپنے ساتھ لے آیا اور یہیں ایک چھوٹا سا مکان لے کر رہنے لگا۔ یہاں سکون تھا اس کا باپ ہفتہ دس دن بعد بھی گھر کا چکر لگاتا تواسے اس دوران اپنی بیوی اور بچی کی کوئی فکر نہ ہوتی۔ زندگی اچھی گزر رہی تھی۔ اپنے آبائی گاؤں سے ان کا اب ان کا کوئی ناطہ نہ تھا، ماں اور باپ کے بعد وہ کسی رشتہ دار یا اپنے آبائی علاقے کے بارے کچھ نہیں جانتی تھی اور نہ ہی اس کی ماں نے اسے کچھ بتایا تھا۔۔وہ چھ سات سال کی تھی جب ایک دن اس کا باپ دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے وطن پر اپنی جان قربان کر گیا اور وہ ماں بیٹی کو دنیا کے رحم وکرم پر چھوڑ گیا۔اگلے دن محکمے کے لوگ پرچم میں لپٹی اس کی لاش لے کر آئے۔ تھوڑی دیر ان کے گھر میں ٹھہرے اور پھر سرکاری طور پر لاش دفنا کر چلے گئے۔

اب وہ ماں بیٹی تنہا تھیں اور گزارے کے لئے اس کے باپ کی پنشن تھی جس سے ان کی گزر بسر آسانی سے ہو جاتی تھی۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔ جب اس کی عمر پندرہ سال ہوئی تو اس کی ماں بیمار رہنے لگی۔ روز روز کے بخار نے ماں کو پریشان کر دیا۔ماں کواپنی جوان بیٹی کی فکر تھی۔ماں کی حالت زیادہ خراب رہنے لگی تو وہ اس کی شادی کی فکر کرنے لگی۔ ایک دن ماں نے اسے بتایا کہ بیٹا میں مرنے سے پہلے کسی طرح تیری شادی کر جاؤں گی لیکن اگر کسی وجہ سے شادی نہ ہوئی تو یہ تیرے باپ کے پنشن کے کاغذات ہیں انہیں سنبھال کر رکھو ۔ میں مر جاؤں تو اس میں موجود فون نمبر پر رابطہ کرنا۔ وہ لوگ خود آ کر تصدیق کریں گے اور یہ پنشن تمہیں ملنا شروع ہو جائے گی اورتمہاری شادی ہونے تک تمہیں ملتی رہے گی۔ ۔وہ ہنسی کہ ماں جب تجھے پتہ ہے کہ تیرے بعد مجھے کوئی مالی پریشانی نہیں ہو گی تو تو سب بھول کر اپنی بیماری پر توجہ دے۔مجھے شادی نہیں کرنی۔مگر ماں کو فقط ایک فکر تھی کہ اس کی شادی ہو جائے۔وہ ہر ایک سے بیٹی کے رشتے کی بات کرتی۔لگتا تھا کہ اس کی شادی جب تک نہ ہو ماں مر نہیں سکتی تھی۔

کسی نے بتایا کہ گاؤں میں ایک لاوارث لڑکا ہے ۔ اس کی پیدائش کے کچھ عرصہ بعد اس کے ماں باپ فوت ہو گئے تھے۔ بیچارہ محلے داروں کی مہربانی سے پل کر جوان ہوا ہے۔ بہت تابعدار اور ملنسار ہے۔مگر اس کی کل متاع ایک پرانی سی سائیکل کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ جس پر وہ سودا سلف بیچتا ہے۔رات گاؤں کے کسی بھی گھر کے برآمدے میں کاٹ لیتا ہے۔ نہ کوئی مکان نہ دکان ۔ بس لڑکا ہے جو عادات کا بہت اچھا ہے ۔ اس کی ماں نیکسی کی مدد سے جٹ بات پکی کی اور اگلے دن وہ لڑکا بیاہ کر اس کے گھر آ گیا۔ماں شاید اسی بات کا انتظار کر رہی تھی۔ اس کی شادی کے ایک ہفتے بعد اس کی ماں انہیں چھوڑ گئی۔ اس کے میاں نے بڑی خوش اسلوبی سے جس طرح ماں کی آخری رسومات کو ادا کیا، لگتا تھا اس کی ساس نہیں اپنی ماں فوت ہوئی ہے۔اسے بھی تسلی دی ۔ماں چونکہ ایک مدت سے بیمار تھی اور اسے بھی اندازہ تھا کہ وہ لمبا عرصہ اس کا ساتھ نہ دے سکے گی اس لئے وہ جلدی سب بھول کر اپنے میاں کے پیار میں مست ہو گئی۔اس کا میاں واقعی بہت پیار کرنے والا اور دھیان رکھنے والا تھا۔

زندگی معمول کے مطابق گزر رہی تھی ۔ دونوں حالات سے مطمن تھے۔ شادی کو چھ ماہ سے زیادہ عرصہ ہو چکا تھا۔ میاں صبح صبح منڈی سے کچھ سامان لے کر آتا۔ دونوں مل کر اسے دھوتے، پھر سائیکل پر بیچنے کے لئے سجاتے ۔ وہ میاں کو مسکراتے ہوئے دروازے پر رخصت کرتی۔ میاں کے جانے کے بعد وہ گھر کے سارے کام کرتی اور پھر دوپہر تک کھانا تیار کر لیتی۔ دوپہر کو اس کا میاں سودا سلف بیچ کر واپس آتا ،دونوں مل کر کھانا کھاتے۔ عموماً دوپہر تک اس کے میاں کا سارا سامان بک گیا ہوتا تو وہ دونوں کھانا کھانے کے بعد آرام کرتے۔ لیکن کسی کسی دن کچھ سامان بچا ہوتا تو میاں کھانے کے بعد ایک چکر لگانے دوبارہ چلا جاتااور وہ اس کی واپسی کا انتظار کرتی۔چند مہینوں میں ہی وہ آپس میں یوں گھل مل گئے تھے کہ انہیں زندگی دوسرے کے بغیر بہت ادھوری محسوس ہوتی تھی۔اس کی جوانی بڑی بھرپور تھی۔ گاؤں کے بہت سے نوجوان اس کی طرف بڑھنے کی کوشش کرتے مگر اس نے عمر بھر کسی کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا۔ گاؤں کا چوہدری بھی اس کے دیوانوں میں ایک تھا۔ وہ ایک بزدل آدمی تھا مگر اس کا دیوانہ تھا اور اس نے چوری چھپے کئی دفعہ اسے ملنے کی دعوت دی تھی مگر پیغام لانے والے کی اس نے ہمیشہ درگت بنائی تھی۔ زندگی میں پہلی دفعہ اسے اگر کسی سے پیار ہوا تھا اور وہ کوئی اور نہیں اس کا میاں تھا۔اس کا میاں بھی اس سے پیار کرتاتھا۔ دونوں مطمن تھے یوں زندگی بڑی خوشگوار گزر رہی تھی۔

اس دن بھی اس نے میاں کو دروازے پر خدا حافظ کہا اور گھر کی صفائی میں مگن ہو گئی۔کوئی آدھ گھنٹے بعد دروازے پر دستک ہوئی۔اس نے دروازہ کھولا۔ علاقے کے تین چار آدمی بڑے مغموم سامنے کھڑے تھے۔بتانے لگے کہ اس کے میاں کو ایک حادثہ پیش آ گیا ہے۔ ایک گاڑی اس کی سائیکل کو ٹکرمار کر فرار ہو گئی ہے۔ اس کا میاں گاڑی کے نیچے آ کر کچلا گیا اور جانبر نہ ہو سکا ہے۔ پولیس اس کی لاش ہسپتال لے گئی ہے اور پوسٹ ماٹم کے بعد تین چار گھنٹے میں اسے مل جائے گی۔آپ اسے دفنانے کا انتظام کر لو۔

بتانے والے چلے گئے مگر وہ گم سم بہت دیر تک دروازے میں کھڑی رہی۔ پچھلے کئی ماہ سے دروازے کی دستک صرف اس کے خاوند کی آمد کی نوید ہوتی تھی مگر آج کی دستک اس کی موت کا پیغام تھی۔ایک دم اسے ہوش آیا تو وہ چیخ مار کر مڑی اور چارپائی پر گر کر سسکیاں لینے لگی۔اس کا تو سب کچھ اس کا میاں ہی تھا۔ انہوں نے اکھٹے جینے اور مرنے کی قسمیں کھائی تھیں۔ مگر وہ اسے چھوڑ گیا تھا۔ اب اکیلی وارث ہونے کے سبب اسے اپنے میاں کے کفن دفن کا سامان بھی کرنا تھا۔اسے یاد آیا اس کی ماں کے مرنے پر کفن دفن کے سارے انتظامات محلے کی مسجد کے مولوی صاحب نے کئے تھے۔کچھ سوچنے کے بعد اس نے ذہن میں کچھ فیصلے کئے ،اٹھی اور مسجد میں مولوی صاحب کے پاس پہنچ گئی۔ مولوی صاحب نے اس کی بات سن کر پہلے افسوس کا اظہار کیا پھر بولے ، ’’بیٹا، سب کچھ کر دوں گا، مگر اس کے لئے کچھ رقم درکار ہے جو تمہیں مجھے دینی ہو گی۔‘‘اس کے پوچھنے پر مولوی صاحب نے کہا کہ بس کوئی نو دس ہزار۔نو دس ہزار ، یہ رقم کہاں سے آئے گی۔مگر میری ماں کی باری تو آپ نے کچھ نہیں لیا تھا۔مولوی صاحب بولے وہ لا وارث تھی۔ کچھ پیسے تمہارے میاں نے دئیے تھے بقایا میں نے محلے داروں سے چندہ لے کر اسے دفنایا تھا۔اسے بات سمجھ آ گئی ۔ اس کا میاں لاوارث نہیں تھا۔ وہ اس کی وارث ہے۔اس لئے پیسے اسے مہیا کرنے تھے۔مگر نو دس ہزارکہاں سے آئے گا۔گھر واپس آتے اس کے ذہن میں نو دس ہزار کی تکرار جاری تھی۔

اسے یاد آیا، گاؤں کے چوہدری کا ہمیشہ پیغام ہوتا تھا کہ ایک دفعہ مجھے مل لے جو کہے گی دوں گا۔وہ سوچنے لگی کہ چوہدری سے بات کرے یا نہ کرے، مگر اب سوچنے کا وقت نہیں تھا۔ تھوڑی دیر میں میت اس کے گھر پہنچ جائے گی تو وہ کیا کرے گی۔وہ مڑی اور سیدھی چوہدری کے گھرپہنچ گئی۔چوہدری گھر پر موجود تھا۔ اس نے رقم دینے میں کچھ پس و پیش نہ کی۔ وہ رقم لے کر مولوی صاحب کے پاس پہنچی۔ رقم دیتے وقت اس نے پھر پوچھا کہ مولوی صاحب کوئی لاوارث ہو تو دفنانا آپ کے ذمے ہوتا ہے۔مولوی صاحب کہنے لگے بیٹا میری کیا حیثیت ہے ،یہ محلے داروں کی ذمہ داری ہے ، میں تو بس پیسے اکھٹے کرنے میں مدد کرتا ہوں۔ مولوی صاحب آج میرا میاں مرا ہے ، شام تک لاش آئے گی۔ صبح اسے دفن کریں گے۔ اس سے اگلے دن میں نے آپ سے کچھ پوچھنا ہے آپ صبح ہی میری طرف آ جائیں۔ یاد رہے گا۔ جی بیٹا کیوں نہیں، میں پرسوں صبح تمہارے پاس ہوں گا۔

شام کو اس کے میاں کی لاش آئی۔ وہ رات بھر اس کے پاس بیٹھی روتی رہی۔ صبح محلے دار آئے اور نعش دفنانے لے گئے۔ اب وہ اکیلی تھی۔ سوائے رونے اور میاں کو یاد کرنے کے اس کے پاس کچھ نہیں تھا۔وہ بھوکی پیاسی بیٹھی رہی۔ نقاہت حد سے بڑھی تو اپنے بستر پر لیٹ گئی۔ اب وہ کس کے لئے اور کیوں جئے، اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔وہ دو دن سے بھوکی تھی اس نے کچھ بھی کھایا پیا نہ تھا۔ اسے بھوک کا احساس بھی نہ تھا۔اسے یہی فکر تھی کہ ساتھی بچھڑنے کے بعد وہ اکیلی زندہ رہ کر کیا کرے۔ اس نے تو ساتھ ہی جینے اور مرنے کا وعدہ کیا تھا۔سوچتے سوچتے وہ بستر پر لیٹ گئی ۔تھکاوٹ اسے لمحوں میں نیند کی آغوش میں لے گئی۔ اگلی صبح وعدے کے مطابق مولوی صاحب تشریف لائے۔ انہوں نے کئی بار دروازہ کھٹکھٹایا، آوازیں دیں، مگر کوئی جواب نہ ملا۔ ہلکے سے دھکے سے دروازہ کھل گیا۔سامنے پلنگ پر وہ سو رہی تھی۔ آوازیں دینے پر بھی کوئی جواب نہ ملا تو مولوی صاحب بھاگ کر ہمسایوں کو بلا لائے۔سب آئے تو دیکھا اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ تھی اور وہ انہیں چھوڑ کر اپنے میاں کے پاس پہنچ چکی تھی۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 443583 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More