صدر خیبر پختونخواہ اولمپک ایسوسی ایشن کے نام خط



جناب عالی!

گزارش ہے کہ آپ نے بطور صوبائی وزیر کھیل کے خیبر پختونخواہ کیلئے بہت ساری خدمات انجام دی، کئی مرتبہ قومی کھیل پشاور میں منعقد کروائے اور ایسے وقت میں منعقد کروائے جب کوئی اس کو کرانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا لیکن الحمد للہ وہ قومی کھیل کامیاب بھی رہے.بطور وزیر ایسے منصوبے بھی اپنے دور میں شروع کئے جو آپ کی حکومت کے جانے کے بعد تاحال مکمل ہونے کے منتظر ہیں. یہ خط آپ کو بطور صدر خیبر پختونخواہ اولمپک ایسوسی ایشن کے لکھا جارہا ہے کیونکہ کھیلوں کی بہت ساری تنظیمیں آپ کے ایسوسی ایشن کے زیر انتظام ہیں جنہوں نے صوبے میں کھیلوں کی موجودہ صورتحال پر مکمل طور پر لاتعلقی اختیار کرلی ہیں. یہ لاتعلقی کیوں اختیار کی اس کی وجہ جاننا بھی آپ کیلئے اتنا ہی ضروری ہے اسی کے ساتھ کھیلوں کی حالت زار پر بھی توجہ دلانے کیلئے بھی یہ خط لکھا جارہا ہے.

محترم عاقل شاہ صاحب!
کم و بیش پینتیس کے قریب کھیلوں کی مختلف تنظیمیں خیبر پختونخواہ اولمپک ایسوسی ایشن کیساتھ الحاق شدہ ہیں ان میں کتنے کھیل ہیں جنہوں نے سال 2021-22 اورسال 2022-23 میں کھیلوں کے فروغ کیلئے کوئی اقدام نہیں اٹھایا، نہ ہی نرسری سطح پر کوئی مقابلے منعقد کروائے، نہ ہی ان کے دفاتر ہیں. کچھ ایسوسی ایشن کے دفاتر لوگوں نے اپنے گھرو ں میں بنائے ہیں اور کچھ کی صورتحال ایسی ہے کہ ایسوسی ایشنز " پدرانہ شفقت "اور کچھ " برادرانہ شفقت " پر چل رہی ہیں یعنی کہیں پر باپ بیٹا اعلی عہدوں پر فائز ہیں اور کہیں پر بھائی بھائی،، کہیں پر فیڈریشن میں اعلی عہدوں پر تعینات ہیں تو صوبائی عہدوں میں بھی یہی لوگ ایسوسی ایشن پر قابض ہیں.کہیں پر پی ایس بی سے فیڈریشن کے نام پر فنڈز یکساں لوگ لیتے ہیں تو پھر ایسوی ایشن بھی صوبائی سطح پر یہی لوگ لیتے ہیں. اسی طرح ایک ہی شخص مختلف ایسوسی ایشنز میں مختلف جگہوں پرعہدوں کے مزے لے رہے ہیں.
صدر خیبر پختونخوا اولمپک ایسوسی ایشن!
آپ کی ایسوسی ایشن بطور ایڈمنسٹریٹو کام کرے گی یہ جملہ خیبر پختونخواہ سپورٹس پالیسی میں بھی لکھا گیا ہے اور یہی کے پی او اے کا مینڈیٹ بھی ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ سوائے نیشنل گیمز کے کہیں پر کے پی او اے نے بطور ایڈمنسٹریٹو کے اپنے اختیارات کو استعمال نہیں کیا، متعدد ایسے مواقع آئے ہیں کہ کھیلوں کے ایسوسی ایشنز کیساتھ زیادتی کی گئی، لیکن اس پر اقدام نہیں اٹھایا گیا نہ ہی اس حوالے سے کے پی او اے کوئی پریس ریلیز جاری کرسکی ہے کہ یہ اقدام غلط ہے.جس کی بڑی مثال صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ و پی ایس بی کی جانب سے اٹھائے جانیوالے اقدامات ہیں.
مختلف کھیلوں میں نمایاں پوزیشن ہولڈر سمیت نئے کھلاڑیوں کیلئے کیمپ لگانا ایسوسی ایشنز کی ذمہ داری ہے کیمپ کس طرح لگے گا اور اس میں کن کھلاڑیوں کو شامل کیا جائیگا کتنے دن جاری رہے گا اور مقابلوں کیلئے تیاری کیسی ہوگی یہ وہ چند چیزیں ہیں جو گذشتہ تین سال سے کہیں پر نظر نہیں آرہے.کھیلوں کیلئے کیمپ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ منعقد کروا رہی ہیں جس میں اچھی خاصی آمدنی صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں بیٹھے چند مخصوص لوگوں کی ہو جاتی ہیں.اس طرح کے کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد بھی کیا جارہا ہے لیکن ان مقابلوں کا پتہ نہیں چل رہا کہ یہ صوبے کی سطح کے مقابلے ہیں، ضلع کی سطح کے مقابلے ہیں یا پھر "ایویں " مقابلے چل رہے ہیں.ان "ایویں "چلنے والے مقابلوں میں بعض ایسوسی ایشن بھی ملوث ہیں جن کے تعلقات بیورو کریٹس سے بہتر ہیں اور اس کیلئے وہ "بہت کچھ"کرتے ہیں تبھی ان کے توندیں بھی نکلی ہوئی ہیں.لیکن کھلاڑی پیدا نہیں ہورہے. نہ ہی کھیلوں میں بہتر ی آرہی ہیں. بس فنڈز خرچ ہورہے ہیں، جن میں آدھے سے زیادہ مخصوص لوگوں کے جیبوں میں جارہے ہیں لیکن کھلاڑیوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا.
عاقل شاہ صاحب!
آپ اپنے زیر انتظام چلنے والے ایسوسی ایشنز سے ذرا یہ پتہ کرلیں کہ انہوں نے گذشتہ تین سے چار سال میں کتنے نئے کھلاڑی پیدا کئے، ان میں انڈر 14سے لیکر 18 کے نئے کتنے کھلاڑی ہیں، مرد کتنے ہیں اور خواتین کھلاڑی کتنی ہیں.اسی طرح صرف پشاور میں سرخاب کا پر نہیں لگا، صوبے کے دیگر اضلاع میں کھیلوں اور کھلاڑیوں کو دی جانیوالی سہولیات جو کہ بیشتر صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے زیر انتظام ہیں کی حالت زار کا بھی پتہ کریں.ٹھیک ہے پیٹ سب کے ساتھ لگا ہوا ہے ڈائریکٹریٹ کی بھی مجبوریاں ہیں لیکن اتنی مجبوریاں تو نہیں کہ ہر چیز میں ہم "خرما ہم ثواب "والا معاملہ ہو.
جناب صدر خیبر پختونخواہ اولمپک ایسوسی ایشن!
آپ جس پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں وہ اٹھارھویں ترمیم اور صوبائی خود مختاری کا بڑا ڈھنڈورا بھی پیٹتی ہے یہ اچھی بات ہے کہ کبھی آپ نے کھیلوں میں اپنے پارٹی کے حوالے سے بات نہیں کی لیکن اٹھارھویں ترمیم کے بعد صوبے میں قائم پی ایس بی سنٹرز کی کیا قانونی حیثیت ہے، کیونکہ یہاں تو کمائی کا سلسلہ چل رہا ہے، پرائیویٹ جیم کھولے گئے ہیں، بچوں پر کھیلوں کے دروازے بند کئے جارہے ہیں، آرچری، بیڈمنٹن، ٹیبل ٹینس کے کھلاڑیوں پر دروازے بند کئے گئے ہیں حالانکہ سہولیات اور فنڈز کی فراہمی نہ صرف صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ بلکہ وفاقی ادارے کی بھی ذمہ داری ہے لیکن یہاں پر "الٹا معاملہ"چل رہا ہے پیدا گیری کیلئے مقابلے کروائے جاتے ہیں اور آپ کی ایسوسی ایشن خیبر پختونخواہ اس معاملے میں خاموش ہیں. یہ خاموشی بھی معنی خیز ہے.
محترم!
آپ کے اپنے شہر پشاور میں لالہ ایوب ہاکی سٹیڈیم پشاور کی حالت زار کا آپ کو شائد پتہ بھی نہیں، گذشتہ آٹھ ماہ سے پی ایس بی نے یہاں سے آسٹرو ٹرف اٹھایا ہوا ہے، آج نیا آسٹرو ٹرف لگے گا، کل لگے گا، لگا لیں گے جیسے بیانات سننے کو مل رہے ہیں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ایس بی بھی خاموش ہیں، اور صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی انتظامیہ نے بھی آنکھیں مکمل طور پر بند کر رکھی ہیں، جس سے سب سے زیادہ ہاکی کے کھلاڑی متاثر ہوہے ہیں اور آج سال 2022 میں بھی کھلاڑی مٹی کے بنے بیس پر کھیلتے ہیں.ایسے میں ہاکی خاک ترقی کرے گی.
حال ہی میں صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے اپنی پالیسی کے برعکس انٹرورسٹی سطح کے مقابلوں کے انعقاد کا اعلان کیا ہے، جس کیلئے کروڑوں روپے کی خریداری کی جارہی ہیں ان کھیلوں میں صرف مخصوص کھیل ہی ہیں، حالانکہ پینتیس سے زائد کھیل ہیں، جس کی نرسری پر توجہ دینے کی ضرورت ہے لیکن اس پر توجہ نہیں دی جارہی کیونکہ توجہ دینے والے بھی خاموش ہیں اور توجہ دلانے والے بھی مجبوریوں کی وجہ سے آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں.
محترم عاقل شاہ صاحب!
یہ نہیں کہ صرف ایسوسی ایشنز ہی ان چیزوں کی ذمہ دار ہیں بقول "سہ دانے لوندے او سہ جرندہ خرابہ" ہمارے مخصوص صحافی جو کھیلوں کی کوریج کرتے ہیں وہ بھی اپنے سالانہ گرانٹس اور ہاکی گراؤنڈز میں واقع چینجنگ روم پر قبضے کی خاطر "سب اچھا"ہے کی رپورٹ دینے پر مجبور ہیں.ان کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے.انہیں بھی "تفصیلات کے مطابق " اور "کرلیں گے ہو جائیگا" جیسے کام سمیت کے بجائے عہد حاضر کے مطابق تربیتی سیشن دینے کی ضرورت ہے کیونکہ سیکھنے کا عمل تو ساری عمر جاری رہتا ہے، ڈوپ ٹیسٹ سے لیکر کھیلوں کے نئے قوانین اور کوریج کے جدید طریقوں سے آگاہی کیلئے بھی کام کرنے کی ضرورت ہے. جس کیلئے تربیتی ورکشاپ کا انعقاد بھی آپ کی ہی ذمہ داری ہے.اور یہ ساری چیزیں "پرانے سرکاری بابو"کی سوچ رکھنے والوں کے بجائے نوجوان اور ملکی سطح پر کام کرنے والے افراد سے لینے کی ضرورت ہے.
مجھے امید ہے کہ یہ خط آپ کیلئے بہت ساری چیزیں جانچنے کیلئے بھی آسانی فراہم کرے گا..
شکریہ
مسرت اللہ جان
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 422206 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More