دل شکستہ قسط نمبر : 1

وہ شہر کے مہنگے ترین علاقے کے لگژری اپارٹمنٹ کے سامنے کھڑی تھی۔ ڈور بیل پر ہاتھ رکھتے ہوئے ایک لمحے کے لئے اس کے ہاتھ کانپے مگر اس نے اپنی ساری ہمت جمع کرکے بٹن دبا ہی دیا۔
تم اسوقت ؟ دارین نے دروازہ کھولتے ہی اسے حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا۔
جی آپ نے ہی بلایا تھا۔ اس نے شرمندہ ہوتے ہوئے جواب دیا۔
آں ہاں اصل میں اسوقت میری بیوی گھر پر نہیں ہے ۔ دارین نے ہچکچاہٹ کی وجہ بتائی۔
اوہ اچھا پھر میں بعد میں آجاونگی۔ اس نے مجبوری سمجھتے ہوئے جواب دیا۔
نہیں تم آجاو۔ بعد میں آنا مشکل ہوگا تمہارے لئے۔ دارین کو اسکی کنڈیشن کا اندازہ تھا۔
لیکن آپکی بیوی آگئی تو۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے آگے کہنے کی ہمت نہیں تھی اس میں وہ دونوں پہلے بھی اس صورتحال سے گزر چکے تھے۔
کوئی بات نہیں تم آجاو اسنے راستہ دیا مجبورا اسے آنا ہی پڑا۔ وہ دارین کی تقلید کرتے ہوئے ڈرائنگ روم تک آئ سب کچھ شناسا ہوتے ہوئے بھی اجنبی تھا اس کے لئے۔
بیٹھو۔ دارین نے اپنے سامنے رکھے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ اس نے ہاتھ میں پکڑی فائل ٹیبل پر رکھی اور اسکے سامنے بیٹھ گئ۔ بہت دیر تک وہ اسکے ٹیسٹ کی رپورٹس دیکھتا رہا۔ وہ کینسر پیشنٹ تھی پچھلے چھ ماہ سے مختلف سرکاری ہسپتالوں میں علاج کے لئے دھکے کھا رہی تھی جب قدرت کو اس پر رحم آہی گیا اور انکے مشترکہ رشتے داروں نے اسکی بیماری کی اطلاع دارین کو دی۔ دارین نے فورا اسے کال کرکے تمام صورتحال معلوم کی ساتھ ہی اسکے اکاونٹ میں کچھ پیسے ٹرانسفر کروا کر اسے پرائیویٹ ہاسپٹل میں ٹیسٹ کروانے کا کہا۔ آج وہ دارین کے کہنے پر ہی اسکے گھر آئ تھی ان ٹیسٹ کی فائل لے کر۔ دارین نے اب اسکے علاج کا اسٹیٹمینٹ لگانا شروع کردیا تھا۔ ٹھیک ہے میں تمہارے اکاونٹ میں پیسے ٹرانسفر کروا دیتا ہوں۔ تم کل سے باقاعدہ ٹریٹمنٹ اسٹارٹ کروالو۔ اور کوئ کمی مت چھوڑنا کسی بھی چیز کی ضرورت ہو فورا مجھے کال کرنا۔ خود کو اکیلا مت سمجھنا میں نے تمہارے لئے ایک میڈ کا انتظام بھی کیا ہے جب تک تم ٹھیک نہیں ہو جاتی وہ تمہارے ساتھ ہی رہے گی۔ اس کے لئے جیسے مسئلہ ہی نہیں تھا۔ اسنے ممنونیت سے دارین کو دیکھا وہ جانتی تھی اسکے پاس صرف دولت ہی نہیں ہے بلکہ اللہ نے اسے بڑے دل سے بھی نوازا ہے جس میں دوسروں کے ساتھ ہمدردی کا بیش قیمت جذبہ موجود ہے۔ دارین نے فائل اسکی طرف واپس بڑھائ۔ تم فکر مت کرو سب کچھ ٹھیک ہو جائےگا ۔ وہ ہمیشہ کی طرح تسلی دے رہا تھا۔ اس نے فائل دوسری طرف سے پکڑی تب ہی دارین کی بیوی کمرے میں داخل ہوئی۔
دارین۔۔۔۔۔ یہ کون ہیں؟؟
وہ گھبرا کر کھڑی ہوئ فائل اسکے ہاتھ سے گر گئی تھی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دارین منہ میں سونے کا چمچہ لیکر پیدا ہونے والے خوش قسمت لوگوں میں سے ایک تھا۔ دولت نوکر چاکر سب اسے ورثے میں ملے تھے۔ سونے پر سہاگہ وہ انتہائی خوش شکل اور اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا۔ لیکن اس اکلوتے پن کی وجہ سے وہ تنہائی اور اکیلے پن کا شکار رہتا تھا۔ اوپر سے اسکے والدین کی سوشل لائف انہیں دارین کے لئے وقت نہیں نکالنے دیتی تھی۔ تب نوکروں کے ساتھ پلتے ہوئے وہ کس طرح انکے مسائل سے مانوس ہونے لگا اسے خود بھی اندازہ نہیں ہوا۔ خاور چاچا کے گھر کا بجلی کا بل 9 مہینے سے نہیں بھرا گیا جسکی وجہ سے انکے گھر کی بجلی کٹ گئ۔ رضیہ بوا کے گھر پانی نہیں آتا بورنگ وہ کروا نہیں سکتیں انکے بچے گھنٹوں لمبی لائن میں لگ کر پانی بھرتے ہیں۔ انکے چوکیدار حشمت انکل کے بچو ں کو اسکول سے نکال دیا گیا کیونکہ انہوں نے 6 مہینے سے فیس نہیں جمع کرائ تھی۔ انکے خانساماں کی بیوی 2 مہینے سے میکے گئ ہوئ تھی کیونکہ وہ اسکی ضرورتیں پوری کرنے سے قاصر تھے۔ یہ تمام مسئلے دارین کی زندگی کے مسئلے بن گئے تھے۔ آپ کی بجلی آگئ؟ آپکے بچے پھر سے اسکول جانے لگے؟ آپکے گھر بورنگ ہوگئی؟ آپکی بیوی میکے سے آگئ؟ اسے سب کی فکر رہنے لگی۔ پھر آہستہ آہستہ اسے ان مسائل کا حل ملنا بھی شروع ہوگیا۔ اس کے والدین نے کبھی اسکی کوئی فرمائش نہیں ٹالی تھی پھر مختلف فرمائشوں کے بہانے اسنے سب کی " ہیلپ" کرنا شروع کردی۔ اب تو نوکروں کو اس سے آسرا ہی ہو گیا تھا۔ پہلے جو باتیں اسے گھما پھرا کر بتائی جاتی تھیں اب اسکے سامنے دکھڑا گایا جانے لگا۔ اسکے والدین کو پتا چلا تو انہوں نے دارین کو بہت سمجھایا پرانے نوکرں کی جگہ نئے ملازم بھی رکھ لئے لیکن مدد کا یہ سلسلہ اسکے بڑے ہونے تک رکا نہیں ہر بار کسی کی مدد کرکے اسے سکون کی جو دولت حاصل ہوتی تھی وہ اسکا عادی ہوچکا تھا۔ جب ایک پلین کریش میں اسکے والدین دنیا سے رخصت ہوگئے۔ تعلیم مکمل ہونے تک وہ اپنے رشتے داروں کے گھر شفٹ ہوگیا۔ دارین امیر، پرکشش اور خوش شکل نوجوان تھا۔ اسکے والدین کے انتقال سے پہلے اسکے کئ رشتے دار اسے اپنا داماد بنانے کے خواہاں تھے لیکن جب اسکے رشتے داروں نے اسکی فراخ دلی دیکھی تو انہوں نے اسکے لئے اسی جیسی کسی لڑکی کی تلاش شروع کردی تاکہ تعلیم مکمل ہوتے ہی وہ اپنی نئی ذندگی کی شروعات کر سکے تب انکی نگاہ انتخاب ابیشہ پر پڑی۔ ابیشہ ایک سوشل ورکر تھی۔ وہ انتہائی امیر اور ماڈرن لڑکی تھی لیکن فلاحی کاموں میں پیش پیش رہتی تھی یہی وجہ تھی کے اسنے بہت کم عمری میں ہی اپنا نام بنا لیا تھا۔ دارین خود بھی مختلف چیرٹی شوز میں اسے دیکھ چکا تھا اور اسکے کام سے متاثر تھا۔ حالانکہ وہ بہت کم ہی ایسے شوز میں جاتا تھا جنہیں وہ واقعی امپورٹنٹ سمجھتا تھا۔ ایسے شوز اسے ذیادہ تر دکھاوا لگتے تھے۔ درحقیقت وہ اپنے ارد گرد کے لوگوں اور اپنے ملازمین سے نیک سلوک کرنا اور انکی ضرورتوں کا خیال رکھنا ہی مدد سمجھتا تھا۔ابیشہ سے مل کر اسے ایسا ہی لگا جیسے وہ اسکی طرح سکون حاصل کرنے کے لئے لوگوں کی مدد کرتی ہے۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اسکے ماں باپ اور باقی رشتے داروں کی طرح اسکی بیوی بھی اس پر روک ٹوک کرے۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ ابیشہاسقدر شکی عورت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
باقی آئندہ

Sana Waheed
About the Author: Sana Waheed Read More Articles by Sana Waheed: 25 Articles with 35447 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.