تبدیلی آئی رے مہنگائی لائی رے

پاکستان میں کبھی بھی بہت ہی اعلیٰ اور مثالی قسم کی حکومت تو نہیں رہی لیکن کم از کم اتنی بری بھی کوئی نہیں تھی اور نہ ہی کبھی ایسا ہوا کہ حکومت کی جانب سے عوام کے زخموں پر نمک چھڑکا گیاہو۔ لیکن پی ٹی آئی کے دور میں یہ بھی ہوا اور ہورہا ہے۔زلزلہ آئے تو اس پر بھی حکومت کے وزرا احمقانہ اور سفاکانہ بیانات دینے سے باز نہیں آتے۔

نیا پاکستان بننے کے بعد پوری قوم تبدیلی کے ’’ثمرات‘‘ سے مستفیض ہورہی ہے۔جس شعبے میں جائیں وہاں لوگ تبدیلی کے ’’گن‘‘ گاتے نظر آئیں گے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کی بات کی جائے تو پتا چلتا ہے کہ عوام تبدیلی کے دعوے داروں اور ذمے داروں کو جھولیاں پھیلا پھیلا کر ’’ دعائیں ‘‘ دے رہے ہیں۔دیکھیں ہم بہت سیدھے سادے لوگ ہیں۔ سیدھی سادی بات سمجھتے ہیں۔ نواز شریف کی گذشتہ حکومت کے ایک سال بعد آزادی مارچ شروع کیا گیاجو کہ اسلام آباد دھرنے میں تبدیل ہوا۔ 160 دن کے دھرنے میں صبح و شام قوم کو یہی بتایا گیا کہ جناب’’ روزانہ 300 ارب کی کرپشن ہوتی ہے۔‘‘

قوم کو بدعنوان حکمرانوں کی نشانی بتائی گئی کہ ’’ جب چیزیں مہنگی ہونے لگیں تو سمجھ لینا کہ حکمران بددیانت اور کرپٹ ہیں۔‘‘ ساتھ ہی ہم قوم کو بتایا گیا کہ ’’ یہ جو پیٹرول 75 روپے لیٹر مل رہا ہے یہ تو 45 روپے میں ملنا چاہیے۔‘‘مولانا فضل الرحمن کے حوالے سے قوم کو بتایا گیا کہ ’’ کشمیر کمیٹی کے چئیر مین کی حیثیت سے انہوں نے کبھی کشمیر کاز کے لیے کوئی کام نہیں کیا۔‘‘اور سب سے بڑی بات قوم کو یہ بتائی گئی کہ ’’ جب ڈالر کی قیمت میں ایک روپے کا اضافہ ہوتا ہے تو قوم پر کتنے کروڑ کا قرضہ چڑھ جاتا ہے۔‘‘ عوام کو سبز باغ دکھائے گئے کہ ’’ پیٹرول سستا ہوگا، ڈالر سستا ہوگا، عوام کو روزگار فراہم کیا جائے گا، ملک میں اتنی خوشحالی اور اتنی نوکریاں ہوں گی کہ باہر ممالک سے لوگ پاکستان نوکری کرنے آئیں گے۔‘‘ لوگوں کو اسلام کے نام پر دھوکہ دیا گیا اور ریاستِ مدینہ کے خواب دکھائے گئے، ساتھ ہی عوام کو بتایا گیا کہ جناب یہ جو میاں نواز شریف ہیں یہ تو مودی کے یار ہیں۔ اسی لیے تو انڈیا اتنا بڑھ بڑھ کر پاکستان کے خلاف کام کرتا ہے۔
خیر بقول شاعر ؎ قوم کی ہے کیسی ناسمجھی
ریت کی لہر کو دریا سمجھی

تو جناب عوام نے کھوکھلے نعروں اور جھوٹے وعدوں کے فریب میں آکر پی ٹی آئی ووٹ دیا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ بس اب پاکستان میں خوش حالی کا دور آنے والاہے۔ ہمارے برے دن ختم اور اچھے دن آنے والے ہیں۔ بس اب پاکستان کا قرضہ ختم ہوگا، آئی ایم ایف کو خیر باد کہہ دیا جائے گا، ڈالر 70 روہے اور پیٹرول 45 روپے کا ہوگا، پاکستان اب ریاستِ مدینہ کے نقشِ قدم پر چلے گا۔ لیکن وہ جو فلمی شاعر نے کہا تھا کہ
رات نے کیا کیا خواب دکھائے
رنگ بھرے سو جال بچھائے
آنکھیں کھلیں تو سپنے ٹوٹے
رہ گئے غم کے کالے سائے

عوام کو پہلا دھچکا اس وقت لگا جب ریاستِ مدینہ کے دعوے داروں نے گستاخانِ رسول اور منکرین ختم نبوت کو اہم اور کلیدی عہدوں پر تعینات کیا۔ اس پر عوامی رد عمل کے بعد یہ فیصلہ واپس لیا گیا۔ اس کے بعد اچانک ڈالر کو پر لگ گئے وہ ڈالر جو نواز شریف حکومت کے اختتام تک جو ڈالر 115 روپے کا تھا وہ 165 تک پہنچ گیا ۔پھر آزمائش کا دوسرا مرحلہ فروری2019 میں آیا جب انڈیا کے ساتھ کشیدگی بڑھی اور ایک وقت آیا کہ بھارتی فضائیہ کے طیارے کشمیر میں داخل ہوگئے۔ ایک بھارتی طیارہ مار گرایا گیا اور اس کے پائلٹ ابھی نندن ورتمان کو دیہاتیوں نے پکڑ کر فوج کے حوالے کیا۔ ابھی نندن کو گرفتار ہوئے ابھی ایک دن ہی ہوا تھا کہ اچانک حکومت کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ حکومت اس کو بھارت کے مطالبے کے بغیر ہی غیر مشروط طور پر رہا کررہی ہے۔ اگلے دن ابھی نندن کو واہگہ بارڈر کے راستے انڈیا کے حوالے کردیا گیا۔ حالانکہ اس کے ذریعے بھارتی حکومت پر دبائو ڈالا جاسکتا تھا، سب سے بڑی بات یہ کہ جب تک ابھی نندن گرفتار رہتا، مسلمانوں کے قاتل نریندر مودی کی حکومت کے لیے مشکلات پیدا ہوتی رہتیں اور اس کے لیے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا مشکل ہوجاتا۔ لیکن ایک ہی دن میں اس کی غیر مشروط رہائی کو بی جی پی نے خوب کیش کرایا اور گجرات کے قسائی نریندر مودی کو دوبارہ وزیر اعظم بننے کا موقع ملا۔

عوام کو بتایا گیا کہ نواز شریف مودی کا یار ہے۔ لیکن تماشا یہ ہوا کہ اقوام ِمتحدہ کی سلامتی کونسل کی نشست کے لیے پاکستان نے بھارت کو ووٹ دینے کا وعدہ کیا۔تماشا یہ ہوا کہ جب بھارتی میں انتخابات کا آغاز ہوا تو وزیر اعظم عمران خان نے نواز شریف کے یار مودی کی کامیابی کے لیے دعائیں کیں اور قوم کو بتایا کہ مودی کی حکومت آنے سے کشمیر کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ اور واقعی مسئلہ کشمیر تو حل ہوگیا۔ اب پاکستان میں کشمیر کمیٹی کے چئیر مین مولانا فضل الرحمن نہیں تھے اور نہ ہی پاکستان میں مودی کے یاروں کی حکومت تھی لیکن اس کے باوجود مقبوضہ کشمیر جو پہلے ایک متنازع علاقہ مانا جاتا تھا، اس کی امتیازی حیثیت ختم کرکے اس کو باقاعدہ طور پر بھارت کی ایک ریاست کا درجہ دیدیا گیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے اقوامِ متحدہ میں ایک زوردار تقریر ضرور کی لیکن عملی طور پر کشمیریوں کی مدد کے لیے کچھ نہیں کیا۔ نہ فوج آگے بڑھی، نہ عوام کو کچھ کرنے دیا گیا نہ ہی عالمی سطح پر اس کے لیے کوئی مہم چلائی گئی۔ حکومت کی سنجیدگی کا یہ عالم تھا کہ اس انتہائی اہم مسئلے پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ٹیلی فون پر عالمی رہنمائوں سے رابطہ کرکے تعاون کی اپیل کرتے رہے جب کہ دوسری جانب نریندر مودی اور ان کے وزیر خارجہ اس دوران متعدد ممالک کے دورے کرکے عالمی برادری کو اپنے حق میں کرتے گئے۔ انڈیا نے اپنی فوج کو کلی اختیار دے کر کشمیر میں اتارا اور ہمارے حکمران ناچ گانوں کے ذریعے کشمیر کو آزاد کرنے کی کوشش کرتے رہے، معمولی درجے کی ٹک ٹاک گرل وزارت خارجہ کے دفتر میں بیٹھ کر سلفیاں بنواتی رہی او تبدیلی کا سب سے بڑا پھل کشمیر کے ہاتھ سے نکلنے کی صورت میں ملا۔

30 اپریل 2018 تک پیٹرول 87.70 روپے لیٹر، لائٹ ڈیزل 68.85 روپے لیٹر، ہائی ڈیزل 98.76 روہے لیٹر اور مٹی کا تیل 79.87 روپے لیٹر تھا ۔ اس وقت پیٹرول 114.24 روپے،لائٹ ڈیزل 85.33 روپے،مٹی کا تیل 97.18 روہے اور ہائی اسپیڈ ڈیزل 127.41 روپے لیٹر ہے۔عوام حیران ہیں کہ اب تو 300 رب روہے روز کی کرپشن بھی نہیں ہورہی ، اب تو ایمانداروں کی حکومت ہے ۔ اس کے باوجود مہنگائی کا یہ عالم ہے۔ عوام کو کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ اب اتنی مہنگائی کیوں ہے؟

اشیائے ضروریہ کی قیمتیں ہر ماہ تبدیل ہورہی ہیں۔ لوگ آج چیز اگر 100 روہے کی خریدتے ہیں تو اگلے ہفتے وہ چیز 105 سے 110 روپے کے درمیان ہوتی ہے۔لوگ سوچتے تھے کہ تبدیلی آئے گی تو ہم لوگ عیش کریں گے لیکن عیش کرنا تو دور کی بات یہاں تو گزارہ کرنا بھی مشکل ہورہا ہے۔ آسائشات یا لگژری کو تو چھوڑیں بنیادی ضرورت کی چیزیں لوگوں کی دسترس سے باہر ہوتی جارہی ہیں۔ مئی 2018 تک 31.22 روپے کلو ملنے والی چینی اس وقت 68 روپے کلو مل رہی ہے۔ ٹماٹر جو کہ عید الاضحی پر بہت زیادہ مہنگے ہوجاتے تھے، لیکن کبھی 80 ،85 روپے کلو سے اوپر نہیں گئے ، وہ ٹماٹر اس وقت 240 سے 200 روہے کلو تک فروخت ہورہے ہیں۔ عوام حیران و پریشان ہیں کہ یہ کیسی تبدیلی ہے ؟ ان کا تو یہ حال ہے کہ کھائوں کدھر کی چوٹ بچائوں کدھر کی چوٹ؟

عوام تو اس تبدیلی سے بھر پائے لیکن آفرین ہے پی ٹی آئی کے اندھی عقیدت رکھنے والے کارکنوں اور ہمدردوں پر کہ وہ حکومت کے ہر احمقانہ اور عوام دشمن فیصلے کی ایسی ایسی تاویلات سامنے لاتے ہیں کہ بس ! ایک طرف حکومت کے حمایتی اور دوسری جانب حکومت کے وزیر و مشیر۔ پی ٹی آئی حکومت کے ارکان کے بارے میں کیا کہا جائے کہ خان صاحب نے چن چن کر نادر و نایاب قسم کے ہیرے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔دیکھیے پاکستان میں کبھی بھی بہت ہی اعلیٰ اور مثالی قسم کی حکومت تو نہیں رہی لیکن کم از کم اتنی بری بھی کوئی نہیں تھی اور نہ ہی کبھی ایسا ہوا کہ حکومت کی جانب سے عوام کے زخموں پر نمک چھڑکا گیاہو۔ لیکن پی ٹی آئی کے دور میں یہ بھی ہوا اور ہورہا ہے۔زلزلہ آئے تو اس پر بھی حکومت کے وزرا احمقانہ اور سفاکانہ بیانات دینے سے باز نہیں آتے۔ مہنگائی کی ایسی ایسی تاویلات پیش کی جاتی ہیں کہ بس کیا کہا جائے۔حال ہی میں جب متحدہ عرب امارات اور عرب ممالک نے نریندر مودی کو اوارڈز دیے تو یہ در حقیقت پی ٹی آئی حکومت کی ناکامی کا ثبوت تھا۔ اس پر جب وزیر خارجہ سے سوال کیا گیا تو انہوں نےجو فرمایا وہ بلا تبصرہ ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے تو اس سوال کو گزار دیں، اس کا جواب نہ دیں لیکن کم از کم عوام کے جذبات مجروع نہ کریں، ان کے زخموں پر نمک نہ چھڑکیں۔

مقبوضہ کشمیر ہاتھ سےجاچکا اور اب انڈیا آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان تک پر ملکیت کا دعویٰ کررہا ہے۔ ( ویسےاب کشمیر کمیٹی کا چئیر مین کون ہے؟) کرتارپور بارڈر کھل چکا اور انڈیا سے سکھ زائرین صرف 20 ڈالر ادا کرکے کرتارپور آسکتے ہیں۔ ( البتہ حج کے موقع پر ہر سال سرکاری ائر لائن خسارے میں چلی جاتی ہے اور حج کرایوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔) ٹماٹر 240 روپے کلو ، ڈالر 155 روپے، پیٹرول 114 روپے ہوچکا، عوام مہنگائی کی وجہ سے پس رہے ہیں لیکن وزیر اعظم اور حکومتی اراکین کی سوئی نواز شریف ، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن سے آگے نہیں بڑھ رہی۔ بات صرف یہ ہے کہ چھوٹا آدمی ہمیشہ چھوٹا ہی رہتا ہے چاہے تو کتنے ہی بڑے منصب پر پہنچ جائے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟

 

Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1453752 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More