پوتن اور شی جن پنگ کی ملاقات: ’نیوٹرل‘ چین یوکرین میں روسی جنگ کی کیا قیمت ادا کرنے کو تیار ہے؟

روس کو اس وقت بھی امریکہ اور یورپی یونین کی جانب سے پابندیوں کا سامنا ہے۔ لیکن صدر پوتن کے دورہ چین کو دیکھ کر لگتا ہے کہ انھیں بیجنگ سے اور بھی امیدیں ہیں۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چینی صدر شی جن پنگ پوتن کی جنگ کے لیے کیا قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں؟
روس، چین، یوکرین، جنگ
Getty Images
امریکہ کی جانب سے حال ہی میں بیجنگ اور ہانگ کانگ میں واقع بینکوں اور کمپنیوں پر نئی پابندیاں عائد کی گئی ہیں

روسی صدر ولادیمیر پوتن دو روزہ سرکاری دورے پر چین پہنچ گئے ہیں جہاں چینی صدر شی جن پنگ نے ان کا پُرتپاک استقبال کیا ہے۔ پانچویں مرتبہ روس کے صدر منتخب ہونے کے بعد ولادیمیر پوتن کا یہ پہلا بین الاقوامی دورہ ہے۔

چین کے سرکاری میڈیا کے مطابق ملاقات کے دوران چینی صدر شی جن پنگ نے روسی صدر کو مخاطب کر کے کہا کہ: ’ میرے پُرانے دوست ڈیئر صدر پوتن، سرکاری دورے پر چین آمد پر ہم آپ کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں آپ نے پانچویں مرتبہ بحیثیت صدر اپنے عہدے کا حلف لیا ہے۔ میں آپ کو اور روس کے عوام کو اس پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔‘

چین کے سرکاری میڈیا کے مطابق چینی صدر کا مزید کہنا تھا کہ انھیں یقین ہے کہ صدر پوتن کی قیادت میں روس ترقی کی نئی منزلیں طے کرے گا۔

روس نے دو برس قبل یوکرین پر حملہ کیا تھا اور اس دوران چین صدر پوتن کا ایک اہم اتحادی بن کر سامنے آیا ہے۔ چین نے یوکرین اور روس کے درمیان جنگ کی مذمت کرنے سے انکار کردیا تھا اور اس نے روس کے ساتھ تجارت بھی جاری رکھی ہے۔

خیال رہے روس کو اس وقت بھی امریکہ اور یورپی یونین کی جانب سے پابندیوں کا سامنا ہے۔

لیکن صدر پوتن کے دورہ چین کو دیکھ کر لگتا ہے کہ انھیں بیجنگ سے اور بھی امیدیں ہیں۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چینی صدر شی جن پنگ پوتن کی جنگ کے لیے کیا قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں؟

روسی صدر چین کیوں گئے ہیں؟

پانچویں مرتبہ روس کا صدر منتخب ہونے کے بعد صدر پوتن کا اپنے پہلے بین الاقوامی دورے کے لیے چین کا انتخاب کرنا کوئی حیرانی کی بات نہیں۔

صدر پوتن نے چین کے سرکاری میڈیا کو بتایا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اس وقت تاریخ کی ’بلند ترین سطح‘ پر پہنچ چکے ہیں۔

اس دوران انھوں نے چینی مارشل آرٹس اور فلسفے میں دلچسپی کا اظہار کیا اور یہ کہا کہ ان کے خاندان کے کچھ افراد چینی زبان بھی سیکھ رہے ہیں۔

صدر پوتن کا مزید کہنا تھا کہ ’بین الاقوامی سطح پر مشکل صورتحال ہونے کے باوجود بھی ہمارے تعلقات مضبوط ہو رہے ہیں۔‘

جہاں ایک طرف صدر پوتن چین سے اپنی تعلقات کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں، وہیں دوسری جانب صدر شی جن پنگ شاید کچھ فکرمند بھی ہوں۔

امریکہ کی جانب سے حال ہی میں بیجنگ اور ہانگ کانگ میں واقع بینکوں اور کمپنیوں پر نئی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ ان بینکوں اور کمپنیوں پر روس کے ساتھ مل کر کام کرنے اور اسے پابندیوں سے بچانے کا الزام ہے۔

روس، چین، یوکرین، جنگ
Getty Images
روس نے دو برس قبل یوکرین پر حملہ کیا تھا

چین، روس کو ہتھیار تو نہیں فراہم کر رہا لیکن امریکہ اور یورپی یونین کا ماننا ہے کہ بیجنگ کی جانب سے ماسکو کو ایسی ٹیکنالوجی اور سامان مہیا کیا جا رہا ہے جو دوران جنگ کام آتا ہے۔

اپنے حالیہ دورہ چین کے موقع پر امریکی سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ چین سرد جنگ کے بعد یورپ کی سکیورٹی کو درپیش سب سے بڑے خطرے کو ایندھن فراہم کر رہا ہے۔

امریکہ کے لیے یہ ایک سرخ لکیر ہے۔ لیکن چین کا اصرار ہے کہ اس نے روس اور یوکرین جنگ پر نیوٹرل مؤقف اختیار کر رکھا ہے۔

چین کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اشیا جن کا جنگ سے کوئی تعلق نہیں وہ روس کو برآمد کی جا سکتی ہیں اور اس سے کوئی بھی قانون نہیں ٹوٹتا۔

اس کے باوجود بھی جب گزشتہ ہفتے چین صدر فرانس کے دورے پرگئے تو وہاں بھی انھیں ان الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔

چین کے حامی اور ناقدین دونوں ہی صدر شی جن پنگ سے گزارش کر رہے ہیں کہ وہ اپنے روسی ہم منصب پر دباؤ بڑھائیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ چین کی معیشت تجارتی شراکت داروں کی طرف سے زیادہ دباؤ برداشت نہیں کر سکتی۔ اندرونی منڈیوں میں لوگوں کی دلچسپی نہ ہونے کے سبب چین ملک سے باہر بڑی مارکیٹس کا رُخ کرنے پر مجبور ہے۔

ان تمام وجوہات نے صدر شی جن پنگ کو ایک پیچیدہ مقام پر لا کھڑا کیا ہے۔

چین اور روس میں قربت کیوں؟

یوکرین پر روسی حملے سے کچھ دن پہلے چینی اور روسی صدور نے ’لامحدود‘ شراکت داری قائم کرنے اور اپنے تعلقات کو مزید گہرا کرنے کا اعلان کیا تھا۔

چین کا ابھی بھی خیال ہے کہ امریکہ کی قیادت میں بننے والے ’نیو ورلڈ آرڈر‘ کے خلاف روس کا ایک مرکزی کردار ہے۔

اس کے علاوہ چین سستے روسی تیل اور سائبریا میں پائپ لائن کے ذریعے آنے والی گیس سے بھی بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔

روس، چین، یوکرین، جنگ
BBC
چین کی معیشت تجارتی شراکت داروں کی طرف سے زیادہ دباؤ برداشت نہیں کر سکتی

ان تمام باتوں کے باوجود بھی روس اور چین کا اتحاد ’لامحدود‘ نظر نہیں آتا۔

بی بی سی کے ایک تجزیہ کے مطابق لفظ چین کے سرکاری میڈیا کی جانب سے اب لفظ ’لامحدود‘ استعمال نہیں کیا جا رہا۔

چین پر گہرے نظر رکھنے والے تجزیہ کار ژاؤ ٹونگ کہتے ہیں کہ چین روس کے ساتھ اپنی لامحدود شراکت داری کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’چین مغرب کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے مقصد کی ابھی بھی حمایت کرتا ہے لیکن اسے روس کے طریقہ کار سے اختلاف ہے، خاص طور پر اسے جوہری ہتھیار کے استعمال کی دھمکی پسند نہیں۔‘

ان کے مطابق چین کو علم ہے کہ روس کی غیرمشروط حمایت کرنے کی صورت میں چین کی اپنی ساکھ خراب ہوگی۔

’اسی لیے چین اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لا رہا تاکہ بین الاقوامی سٹیج پر قبولیت حاصل کر سکے۔‘

اپنے حالیہ دورہ یورپ کے دوران صدر شی جن پنگ نے روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کے حوالے سے کہا تھا کہ: ’ان کے ملک نے نہ تو یہ تنازع کھڑا کیا ہے اور نہ ہی اس تنازع میں وہ کوئی فریق ہے۔‘

ژاؤ ٹونگ کا کہنا ہے کہ چین اپنے شہریوں کو بھی بار بار یہی بات بتا رہا ہے۔

جنگ میں ’غیرجانبداری‘

چین نے روس اور یوکرین کے درمیان جنگ میں بھلے ہی ’غیرجانبداری ‘ اختیار کرلی ہو، مگر شدید سینسرشپ کے شکار چینی سرکاری میڈیا پر یوکرین کے لیے کوئی ہمدردی نظر نہیں آتی۔

چین کا سرکاری میڈیا اب بھی روسی حملے کی حمایت کر رہا ہے اور اسے امریکہ اور نیٹو کے خلاف کرارا جواب قرار دے رہا ہے۔

جب چینی فنکار زو ویشن نے 2022 میں ٹی وی پر یوکرین کے دارالحکومت میں ہونے والے بم دھماکوں کی خبر سُنی تو انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس تنازع کی نگرانی کریں گے۔

امریکہ میں مقیم چینی فنکار کا کہنا تھا کہ: ’میرے پاس ہتھیار نہیں، میرے پاس قلم ہے۔‘

زو ویشن نے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی کی ایک پینٹنگ بھی بنائی تھی، جسے سوشل میڈیا پر بڑی مقبولیت بھی ملی تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جب سے جنگ شروع ہوئی ہے میں ہر روز پینٹنگ بنا رہا ہوں۔ میں ایک دن بھی نہیں رُکا، جب مجھے کورونا وائرس ہوگیا اور مجھے ملک سے باہر جانا پڑا تب بھی میں پینٹنگز بناتا رہا۔‘

چین میں زو ویشن کے کام کو دیکھنے یا دکھانے پر کوئی پابندی نہیں اور پہلے ان کے کام کو بھی چین میں پزیرائی مل رہی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جب میں نے کان کنوں کی پینٹنگ بنائی تو مجھے بہت مثبت تبصرے پڑھنے کو ملے، یہاں تک کہ میری انقلابی پینٹنگز پر بھی اچھا ردِعمل آیا اور زیادہ تنقید نہیں کی گئی تھی۔‘

لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس مرتبہ معاملات تھوڑے مختلف ہیں۔ ’کوئی بات نہیں، میں نے انھیں بلاک کر دیا ہے۔ میرے کچھ دوستوں نے بھی مجھ سے دوستی ختم کر دی کیونکہ میرے خیالات مختلف ہیں۔‘

’میں کر بھی کیا سکتا ہوں؟ میرے خیال میں، میں ایک صحیح کام کر رہا ہوں اور میں اپنی بیٹی کے لیے ایک مثال بننا چاہتا ہوں۔‘

زو ویشن یوکرینی خاتون ویٹا گولڈ کے لیے امید کی ایک کرن ہیں۔ جب جنگ شروع ہوئی تو ویٹا یوکرین کے دارالحکومت میں موجود تھیں اور انھوں نے چینی زبان میں یوکرین کی خبروں کو سوشل میڈیا پر شیئر کرنا شروع کیا۔

’ہم لوگوں کو اس جنگ کے حوالے سے سچ بتانا چاہتے تھے کیونکہ ہمیں پتہ ہے کہ اس وقت چین میں کوئی یوکرینی میڈیا ایجنسی کام نہیں کر رہی تھی۔‘

اب ان کی پوری ایک ٹیم ہے جس میں تقریباً 100 افراد شامل ہیں۔ یہ تمام لوگ عام یوکرینی خبروں اور صدر زیلینسکی کی تقریروں کا چینی زبان میں ترجمہ کرتے ہیں۔

ویٹا کہتی ہیں کہ وہ کوشش کر رہی ہیں کہ چینی سکالرز کو یوکرین کا دورہ کروایا جا سکے تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے جنگ کی تباہی دیکھ سکیں اور روس پر جارحیت بند کرنے کے لیے دباؤ ڈالیں۔

اب تک چین میں ان کے کام کو سینسر نہیں کیا گیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ چین ابھی برداشت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔

کیا صدر شی جن پنگ روس کو روک سکتے ہیں؟

چینی دارالحکومت میں بھی ایسی آوازیں اُٹھ رہی ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ روس اور چین کے درمیان ’لامحدود‘ تعلقات میں کم سے کم عوامی سطح پر دراڑیں پڑ رہی ہیں۔

فودان یونیورسٹی میں قائم سینٹر فار رشین اور سینٹرل ایشیا سٹڈیز کے ڈائریکٹر فینگ یوجان نے اپنے حالیہ مضمون میں لکھا تھا کہ روس کی یوکرین میں شکست یقینی ہے۔

چین میں رہتے ہوئے ایسے خیالات کا اظہار کرنا یقیناً ایک بہادری کا عمل ہے۔

لیکن چینی صدر شی جن پنگ میں اشارہ دے چکے ہیں کہ وہ امن لانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔

مارچ میں روس روانگی سے قبل صدر شی جن پنگ نے یوکرینی صدر کو ٹیلی فون کیا تھا اور کہا تھا کہ چین ’ہمیشہ امن کے ساتھ کھڑا رہے گا۔‘

چین کی جانب سے 12 نکات پر مشتمل ایک پلان بھی سامنے آیا تھا جس میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی مخالفت کی گئی تھی۔

اس کے باوجود بھی صدر پوتن چین میں موجود ہیں اور ان کا پُرتپاک استقبال کیا جا رہا ہے۔

مغرب میں روس اور چین کے اتحاد کو لے کر صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے اور صدر شی جن پنگ کی امن قائم کرنے کی امیدیں بھی حقیقت نہیں بن سکیں۔

ایسے میں صدر جن پنگ ضرور سوچیں گہ کہ انھیں صدر پوتن کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہونا چاہیے یا نہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.