چین نے امریکی اور یورپی کار کمپنیوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے گاڑیوں کی عالمی صنعت پر غلبہ کیسے حاصل کیا؟

سنہ 1970 کی دہائی تک چین میں سائیکل کو ’سٹیٹس سمبل‘ سمجھا جاتا تھا اور ملک میں فیملی کار کا کوئی تصور نہیں تھا اور اکثر لوگ کام کاج پر سائیکل پر ہی جایا کرتے تھے۔ مگر گذشتہ چار دہائیوں کے دوران چین میں گاڑیوں کی صنعت نے خوب ترقی کی ہے اور آج یہ دنیا بھر میں گاڑیاں برآمد کرنے والے ممالک میں سرِفہرست ہے۔ مگر اس بے مثال ترقی کی وجوہات کیا ہیں؟
چین، گاڑیاں
Getty Images

سنہ 1970 کی دہائی تک چین میں کسی شہری کے پاس اپنی سائیکل ہونا امارت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ ملک میں ’فیملی کار‘ کا کوئی خاص تصور نہیں تھا اور اکثر لوگ کام کاج پر ’فلائنگ پِجن‘ سائیکل پر جایا کرتے تھے۔

1970 کی دہائی کے وسط تک چین میں کاروں کی پروڈکشن نہ ہونے کے برابر تھی۔ شروع میں گاڑیاں صرف اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کے پاس ہوا کرتی تھیں اور عام شہری گاڑی خریدنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔

نیویارک ٹائمز کی 1988 کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ وہ وقت تھا جب بیجنگ میں ہر دو میں سے ایک شخص کے پاس ذاتی سواری کے طور پر سائیکل ہو کرتی تھی۔

تاہم اس کے بعد کی چار دہائیوں کے دوران چین میں گاڑیوں کی صنعت نے بے مثال ترقی کی اور چین دنیا کو گاڑیاں برآمد کرنے والا بڑا ملک بن گیا۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق امریکہ میں صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ اب اس حوالے سے بھی غور کر رہی ہے کہ آیا ’قومی سلامتی کو لاحق خطرات‘ کو دیکھتے ہوئے چینی گاڑیوں کی درآمد پر پابندی اور بھاری درآمدی ڈیوٹی نافذ کی جائے۔

سنہ 2023 میں دنیا بھر میں 50 لاکھ سے زیادہ چینی گاڑیاں فروخت ہوئیں اور دنیا بھر میں گاڑیوں کی برآمدات کے حوالے سے چین نے گاڑیاں بنانے کے لیے مقبول ملک جاپان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔

سنہ 2023 ہی میں چین کی الیکٹرک کار کمپنی ’بی وائے ڈی‘ نے عالمی سطح پر معروف بڑی کمپنی ’ٹیسلا‘ کو پیچھے چھوڑا ہے جس پر ایلون مسک نے تسلیم کیا کہ ’کئی لوگوں کا خیال ہے کہ دنیا کی 10 بہترین کمپنیوں میں ٹیسلا اور نو دیگر چینی کار کمپنیاں ہوں گی۔ مجھے لگتا ہے وہ غلط نہیں کہہ رہے۔‘

چین، گاڑیاں
Getty Images

چین میں گاڑیوں کی پروڈکشن کا آغاز

ورلڈ بینک کی ایک تحریر ’ایک ارب سائیکلوں سے ایک ارب کاروں تک‘ کے مطابق ستر اور اسی کی دہائیوں کے دوران ایک چینی خاندان کے لیے سائیکل خریدنا بڑا مالیاتی فیصلہ سمجھا جاتا تھا۔ دارالحکومت بیجنگ میں 76 فیصد روڈ سپیس پر سائیکل چلتی تھی اور ہر دوسرے شخص کے پاس سائیکل تھی۔

تاہم اگلے 20 برسوں کے دوران چین میں ’فیملی کار‘ کا تصور پھیلا اور کار اونرشپ یعنی کاریں خریدنے کے رجحان میں تیزی آئی۔

اخبار ’چائنہ ڈیلی‘ کی 2004 کی ایک رپورٹ کے مطابق اُس وقت (یعنی 2004 میں) بیجنگ کی سڑکوں پر 40 لاکھ سائیکلیں جبکہ 20 لاکھ کاریں چلتی تھیں۔ ایک اندازے کے مطابق 2002 کے دوران چین کے ہر 100 گھروں کے پاس 143 سائیکلیں ہوا کرتی تھیں۔ ملک میں سالانہ بائیک ٹیکس چار یوآن تھا جسے گاڑیوں کی مقبولیت کے بعد ختم کرنا پڑا۔

سوشلسٹ چین میں مقامی سطح پر گاڑیوں کی تیاری نہ ہونے کی وجہ سے اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے گاڑیاں درآمد کی جاتی تھیں۔ اس وقت تک چین میں غیر ملکی گاڑیوں پر 260 فیصد امپورٹ ڈیوٹی لاگو تھی۔

سنہ 1979 میں چین نے آٹو سیکٹر میں غیر ملکی سرمایہ کاری اور جوائنٹ وینچرز (اشتراک) کو فروغ دینے کے لیے نئے قانون کی منظوری دی جس نے امریکی اور یورپی کار کمپنیوں کی توجہ حاصل کی۔

اس طرح چین میں گاڑیوں کی صنعت نے کچھ تیزی پکڑی۔ جیسے ایک چینی کمپنی شنگھائی آٹو موٹو انڈسٹری کارپوریشن (ایس اے آئی سی) کا اشتراک جرمن کمپنی وولکس ویگن سے ہوا اور اسی دوران ایک دوسری چینی کمپنی بیجنگ آٹو موٹو انڈسٹری کارپوریشن (بی اے آئی سی) نے امریکی کمپنی امریکن موٹرز کارپوریشن (اے ایم سی) کے ساتھ اشتراک کیا۔

چین، گاڑیاں
Getty Images

پھر چین میں بنائی گئی ابتدائی گاڑیوں میں سے ایک وولکس ویگن سینٹینا نے مقبولیت حاصل کی جس سے اس مارکیٹ کی وسعت کا اندازہ لگایا گیا۔

سنہ 2012 کی کتاب ’ڈیزگنیٹڈ ڈرائیورز: ہاؤ چائنہ پلینز ٹو ڈومینیٹ دی گلوبل آٹو انڈسٹری‘ میں مصنف جی ای اینڈرسن اس سیڈان کار کی تیاری کا احوال بتاتے ہیں۔

ان کے مطابق جرمن ماہر ایک بدحال چینی فیکٹری دیکھ کر پریشان ہو گئے اور گاڑی بنانے سے پہلے اس فیکٹری کی تجدید کرنے لگے۔

جرمن کار اسمبل کرنے کی صلاحیت سکھانے کے لیے چینی ورکرز سے دو سال تک قریب 900 وولکس ویگن سینٹینا کاروں کی اسمبلی کروائی گئی اور مزید تربیت دینے کے لیے آٹھ چینی ورکروں کو جرمنی بھی بھیجا گیا۔

چین میں آٹو پالیسی میں اصلاحات جو گاڑیوں کی سیلز کروڑوں تک لے گئیں

کتاب ’سیلنگ ٹو چائنہ‘ کے مطابق چین 80 اور 90 کی دہائیوں کے دوران آٹو سیکٹر میں دور اندیش اصلاحات لایا۔

سنہ 1994 میں چین کے منصوبہ سازوں نے نئی آٹو پالیسی مرتب کی جس کے تحت غیر ملکی آٹو کمپنیاں کسی جوائنٹ وینچر میں 50 فیصد ملکیت حاصل کر سکتی تھیں۔ بعد ازاں غیر ملکی آٹو کمپنیوں پر زور دیا گیا کہ وہ مقامی سطح پر موجود پارٹس کی مدد سے عالمی معیار کے مطابق گاڑیاں بنائیں۔

سنہ 1997 میں دنیا کی سب سے بڑی آٹو کمپنی جنرل موٹرز (جی ایم) چین میں داخل ہوئی اور اس نے ایس اے آئی سی کے ساتھ اشتراک کیا۔

چین، گاڑیوں کی صنعت
Getty Images

چین کی معاشی پالیسیوں میں نرمی سے گاڑیوں کی خرید و فروخت بڑھنے لگی۔ چائنہ ڈیلی کی 2004 کی رپورٹ میں اعتراف کیا گیا تھا کہ ’بائی سائیکل کِنگڈم‘ چین میں ابھرتی مڈل کلاس آمد و رفت کے لیے سائیکل چھوڑ کر گاڑی کا انتخاب کر رہی ہے۔

سی این بی سی کی ایک رپورٹ میں یونیورسٹی آف ٹوکیو کے پروفیسر گریگری نوبل بتاتے ہیں کہ چین میں 90 کی دہائی کے دوران گاڑیوں کی طلب تین گنا بڑھ چکی تھی۔ نئی صدی کے آغاز پر چین ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں داخل ہوا۔ اس سے غیر ملکی کمپنیوں کا اعتماد اور بھی بڑھ گیا۔

کتاب ’سیلنگ ٹو چائنہ‘ کے مطابق اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چین میں سال 2000 میں 10 لاکھ گاڑیاں فروخت ہوئیں جو 2009 تک بڑھ کر سالانہ ایک کروڑ ہو گئیں۔

چین، فورڈ
Getty Images

امریکی کمپنی ’جی ایم‘ کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق چین میں 2012 سے 2018 تک اس کی سالانہ آمدن دو ارب ڈالر تھی۔

آٹو سیکٹر ماہر مائیکل ڈون نے ’سی این بی سی‘ کو بتایا کہ جی ایم کے اُس وقت کے سی ای او نے انھیں بتایا تھا کہ ’یہاں چین میں ہم خدا سے بھی زیادہ پیسہ کما رہے ہیں۔ چینی شہریوں کو ہماری گاڑیاں بہت پسند ہیں۔ ایسا لگتا تھا کہ چین میں (امریکہ ریاست ڈٹرائیٹ کی) بگ تھری جی ایم، فورڈ اور جیپ کو ہمیشہ سبقت حاصل رہے گی۔‘

مگر پھر صورتحال تبدیل ہونے لگی۔

چین میں جی ایم سمیت دیگر غیر ملکی کار کمپنیوں کی آمدن مسلسل کم ہونے لگی اور اس کی وجہ مقامی سطح پر گاڑیوں کی تیاری تھی۔

اب چینی مارکیٹ میں کاروں کی بڑی طلب کو مقامی پیداوار پورا کر رہی تھی۔

مائیکل ڈون نے کہا کہ چین کے موجودہ منظر نامے میں امریکی کار کمپنیوں کو اس قدر تنزلی کا سامنا ہے کہ ’جی ایم کی سیلز 50 فیصد کم ہیں، فورڈ کی سیلز 60 فیصد کم ہیں۔ جیپ چین میں دیوالیہ ہو چکی ہے اور اسے وہاں سے نکلنا پڑا ہے۔‘

’گذشتہ پانچ، چھ سالوں کے دوران چین میں بگ تھری کو تباہ کن نتائج بھگتنا پڑے ہیں۔‘

چین نے امریکی اور یورپی کار کمپنیوں کو کیسے پیچھے چھوڑا؟

اس کا سادہ سا جواب ہے کہ چین میں مقامی سطح پر تیار کی جانے والی گاڑیوں میں مسلسل بہتری آئی ہے۔

گریگری نوبل کہتے ہیں کہ ’چین نے کوریا کی طرح وقت سے پہلے گاڑیوں کی برآمد شروع کی مگر وہ اس میں بُری طرح ناکام ہوا۔ ان کے پاس ضروری معیار نہیں تھا۔ انٹرنیٹ پر ایسے منظر عام تھے کہ کریش ٹیسٹ میں چینی گاڑیاں ٹین ڈبے کی طرح تباہ ہو رہی تھیں۔‘

مگر پھر پانچ، دس سال بعد کریش ٹیسٹ میں چینی کاروں کی کارکردگی بہتر ہو گئی۔ اس دورانیے میں چینی کمپنیوں نے اپنے غیر ملکی پارٹنرز سے بہت کچھ سیکھ لیا تھا۔

آٹو سیکٹر کے ماہر سیم فیورانی کے بقول جوائنٹ وینچر کا مقصد ہی چینی کمپنیوں کو بہتر بنانا تھا تاکہ وہ اپنے ہی پارٹنرز کو ہرا سکیں۔

عالمی سطح پر گاڑیوں کے بڑے برانڈ حاصل کرنے کے لیے چینی سرمایہ کاروں نے سرحد پار گاڑیوں کی بڑی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی۔ مثلاً 2005 میں نانجنگ آٹوموبیل گروپ نے معروف برطانوی کمپنی ایم جی کو خرید لیا۔

چین نے روایتی کار کمپنیوں کو ٹکر دینے کے لیے نئی ٹیکنالوجی، جیسے الیکٹرک کاروں میں سرمایہ کاری کی اور اسے الیکٹرانکس کی صنعت میں مہارت کی بدولت برتری حاصل تھی۔ چینی حکومت الیکٹرک کار سبسڈی اور ٹیکس میں چھوٹ کے ذریعے اس صنعت میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔

گریگری نوبیل کے مطابق چین کو لگتا تھا کہ روایتی گاڑیوں میں مغربی اور جاپانی آٹو کمپنیوں سے مقابلہ مشکل ہو گا لہذا اس نے الیکٹرک گاڑیوں پر توجہ دی جن پر ماضی میں زیادہ دھیان نہیں دیا جا رہا تھا۔ اس نے منصوبہ بندی کے تحت الیکٹرک گاڑیوں میں ریسرچ کی حمایت کی اور اس طرح مقامی سطح پر پارٹس کی دستیابی ممکن ہوئی۔

گریگری نوبیل کہتے ہیں کہ چین کو بیٹری کی تیاری میں سبقت حاصل ہے۔ ’امریکہ میں یہ تاثر ہے کہ یہ سبسڈی، سستی لیبر اور ماحولیاتی کنٹرول میں نرمی کی بدولت ہوا۔ ممکن ہے کہ ان عوامل کا تعلق ماضی سے ہو گا لیکن اس سے چین کی تکنیکی قابلیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔‘

شاؤمی، چین، الیکٹرک کار
Getty Images

بیٹریوں اور موٹروں کے علاوہ چین کو سمارٹ فونز اور سافٹ ویئر میں مہارت حاصل ہے۔ گریگری نوبیل اس کی مثال دیتے ہیں کہ جرمن کمپنی وولکس ویگن اپنی الیکٹرک کاروں میں سافٹ ویئر کے مسائل حل کرنے کے لیے اب چینی کمپنیوں سے مدد حاصل کر رہی ہے۔

یہ بھی قابل ذکر بات ہے کہ چینی سمارٹ فون کمپنیاں جیسے شاؤمی اور ہواوے بھی الیکٹرک کاروں کی دوڑ میں شامل ہو گئی ہیں۔ ’یہ کچھ نئی کمپنیاں ہیں جن کے پاس ماضی کا بوجھ نہیں۔ ان کے پاس پرانی فیکٹریاں نہیں، لہذا یہ تیزی سے آگے بڑھ سکتی ہیں۔‘

اس کے برعکس گریگری نوبیل کے بقول ’امریکی اور یورپی کاروں کا سافٹ ویئر پرانا ہے، وہ جدید چِپس استعمال نہیں کر پاتے۔‘

گاڑیوں کی صنعت میں چینی غلبے کا ایک پہلو رفتار کا بھی ہے۔ چائنہ آٹو ریویو کے مطابق جہاں عموماً ایک کار کمپنی کو اپنی موجودہ گاڑی کا نیا ماڈل لانے میں دو سے تین سال لگتے ہیں وہیں چین میں کار کا نیا ماڈل 12 ماہ میں متعارف ہو جاتا ہے، وہ بھی کم قیمت پر۔

لیکن اس سب کا عالمی سیاست اور علاقائی اہمیت سے بھی تعلق ہے۔ مائیکل ڈون کہتے ہیں کہ 2017 میں امریکی کمپنی جی ایم نے جنوبی کوریا کو اینٹی میزائل دفاعی نظام فراہم کرنے کا معاہدہ کیا تھا جو چین کو پسند نہیں آیا۔ ’تب سے چین میں بگ تھری اور کورین کار کمپنیوں کا مارکیٹ شیئر کم ہوا ہے۔‘

چین نے آہستہ آہستہ جوائنٹ وینچر کے قوانین ختم کر کے مارکیٹ کو کھولا ہے جس سے غیر ملکی کمپنیوں کی مشکلات بڑھی ہیں۔ ٹیسلا وہ واحد امریکی کمپنی ہے جو تجارتی پالیسیوں میں نرمی کے بعد چین میں جوائنٹ وینچر کے بغیر داخل ہوئی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں فروخت ہونے والی ہر دوسری ٹیسلا کار چین میں تیار ہوتی ہے۔

مائیکل ڈون کے مطابق یہ نظر آ رہا ہے کہ ’اگلے پانچ برسوں میں فورڈ، جی ایم، ہنڈائی، کِیا اور نسان کو چین سے پوری طرح نکلنا پڑے گا۔‘

’چین دنیا کی بہترین کمپنیوں کو اپنے ملک میں کام کرنے کی دعوت دیتا ہے، ان کمپنیوں سے جلد سب کچھ سیکھ لیتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ انھیں باہر جانے کا دروازے دِکھا دیتا ہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.