آپریشن ’ییلو برڈ‘: جب چین میں حکومتی مخالفین کو ’پارسل‘ کی طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا گیا

جیسے جیسے چین کی اپنے لوگوں پر گرفت مضبوط ہورہی ہے ویسے ویسے وہ بیرون ملک موجود ناقدین تک اپنی رسائی بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے
china
Getty Images

تین دہائیوں قبل چین میں حکومت مخالف افراد کو ’ییلو برڈ‘ نامی خفیہ آپریشن کے ذریعے ملک سے باہر سمگل کیا گیا تھا لیکن ان افراد میں شامل ایک شخص کا کہنا ہے کہ چینی حکومت آج بھی ان کا تعاقب کر رہی ہے۔

جون 1992 میں یہ آدھی رات کا وقت تھا اور جنوبی بحیرہ چین میں چین کا ایک بحری جہاز اس وقت کی برطانوی کالونی ہانگ کانگ کی جانب گامزن ایک کشتی کی طرف بڑھ رہا تھا۔

جب فوجی کشتی کے عملے سے بات کرنے کے لیے آئے تو ان کے درمیان ہونے والی گفتگو ڈیک کے نیچے ایک خفیہ کمرے میں چھپے لوگ با آسانی سن سکتے تھے۔

یان ژیانگ ان مسافروں میں سے ایک تھے جو اس دن کشتی کے ڈیک کے نیچے چھپے ہوئے تھے۔

’مجھے چھپنے کا حکم دیا گیا تھا‘ اور کہا گیا تھا کہ ’کوئی شور نہ کرے۔‘

کشتی میں چوری چھپے سفر کرنے والوں میں اکثریت ان لوگوں کی تھی جو بہتر مستقبل کے لیے چین سے ہانگ کانگ ہجرت کرنا چاہتے تھے- لیکن یان کی ہجرت کرنے کی وجہ کچھ اور تھی۔

وہ ایک سیاسی کارکن تھے اور اگر اُس دن وہ پکڑے جاتے تو شدید مشکل میں پھنس سکتے تھے۔

یان کو ’ییلو برڈ‘ نامی خفیہ آپریشن کے تحت چین سے باہر سمگل کیا جا رہا تھا۔

بالآخر گشت پر آئے چینی سپاہی واپس چلے گئے۔ اس رات سے پہلے یان نے کبھی کشتی کا سفر نہیں کیا تھا۔

رات بھر کے سفر کے بعد جب صبح سویرے یان ہانگ کانگ پہنچے تو ان کو ناشتے کے بعد ایک حراستی مرکز لے جایا گیا۔

انھیں بتایا گیا کہ یہ ان کی اپنی حفاظت کے لیے کیا جا رہا ہے کیونکہ ہانگ کانگ کی سڑکوں پر گھومنا ان کے لیے خطرے سے خالی نہیں۔

حراستی مرکز میں رہنا یان کے لیے کوئی نیا تجربہ نہیں تھا۔ وہ پہلے بھی سنہ 1989 میں تیانانمن سکوائر پر ہونے والے احتجاج میں حصہ لینے پر چین کی ایک جیل میں 19 ماہ گزار چکے تھے۔

سنہ 1989 میں چین کے طلبا نے جمہوریت اور حقوق کے لیے آواز اٹھانے کی کوشش کی تھی لیکن کمیونسٹ پارٹی نے اس کے ردِعمل میں انھیں کچلنے کے لیے فوجی ٹینک بھیج دیے تھے۔

جون 1989 کے آخر میں چینی حکومت نے کہا تھا کہ ان احتجاجی مظاہروں میں 200 کے قریب شہری اور کئی درجن سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔ تاہم دیگر اندازوں کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد سینکڑوں سے لے کر ہزاروں تک تھی۔

رہائی کے بعد یان نے جنوبی چین کا رخ کیا، جہاں انھیں کسی جاسوسی فلم کی طرز پر ایک عوامی فون بوتھ سے دوسرے پر بھیجا گیا تاکہ ان کا رابطہ ایسے لوگوں سے کروایا جا سکے جو انھیں چین سے باہر پہنچا سکتے تھے۔

اس پُرخطر سفر پر جانے والے وہ واحد حکومت مخالف شخص نہیں تھے۔

بی بی سی کی ایک نئی سیریز ’شیڈو وار: چائنا اینڈ دی ویسٹ‘ کے لیے بات کرتے ہوئے چاؤہوا وانگ نے اپنے فرار کے سفر کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’مجھے ایک پارسل کی طرح ایک شخص سے دوسرے شخص تک منتقل کیا جا رہا تھا۔‘

تیانانمن سکوائر پر احتجاج کے بعد 21 انتہائی مطلوب افراد کی فہرست جاری کی گئی تھی۔ وانگ اس فہرست میں 14ویں نمبر پر تھیں لیکن اس کے باوجود وہ گرفتاری سے بچنے میں کامیاب ہو گئیں۔

چین سے فرار ہونے سے قبل کئی مہینوں تک ان کو چھوٹے چھوٹے کمروں میں چھپ کر رہنا پڑا تھا۔

’مجھے تو کئی سالوں تک ’ییلو برڈ‘ کا نام بھی نہیں پتہ تھا۔‘

ییلو برڈ کسی جاسوسی مہم کی طرح لگتا ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ یہ آپریشن سی آئی اے یا ایم آئی سکس کی تخلیق تھی، لیکن یہ سچ نہیں تھا۔

درحقیقت یہ ہانگ کانگ کے شہریوں کے گروہوں کی جانب سے شروع کی جانے والی ایک نجی کوشش تھی جو چین سے بھاگنے والوں کی مدد کرنا چاہتے تھے۔ ان میں مقامی فلم اور تفریحی صنعت اور منظم جرائم کے گروہ کے ممبران شامل تھے۔

The Chinese army moved in to crush the Tiananmen Square protests
Reuters

نائجل انکسٹر اس وقت ہانگ کانگ میں مقیم انٹیلی جنس افسر تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’چینی پولیس کے بہت سے افسران ان [منظم جرائم کے گروہ] کی جیب میں تھے۔ یہی وہ چیز تھی جس کی بدولت وہ بیجنگ میں چھپے لوگوں کو باہر منتقل کرنے اور سرحد پار سمگل کرنے کے قابل ہوئے۔‘

برطانیہ اور امریکہ صرف اس وقت مہم میں شامل ہوئے جب ہانگ کانگ پہنچنے والے لوگوں کو آگے جانے میں مدد کی ضرورت پیش آئی۔

یان کو آج بھی یاد ہے کہ ان کی ایک ’انگلش جنٹلمین‘ سے ملاقات ہوئی جنھوں نے اپنا نام بتائے بغیر کاغذی کارروائی میں ان کی بہت مدد کی۔

انھیں اس آدمی نے بتایا کہ ’تمہارے لیے بہتر ہے کہ تم امریکہ جاؤ، برطانیہ نہیں۔‘ کچھ ہی دنوں میں یان لاس اینجلس میں تھے اور وانگ بھی امریکہ ہی پہنچیں۔

برطانیہ کیوں نہیں؟

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سابق عہدیداروں کا کہنا تھا کہ برطانیہ تیانانمین سکوائر مظاہرین کو پناہ دینے سے گریزاں تھا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ 1997 میں ہانگ کانگ کو چین کے حوالے کرنے سے پہلے چین کے ساتھ اس کے تعلقات میں کوئی بھی کشیدگی پیدا ہو۔

Chris Patten (left) was Hong Kong's last colonial governo
Getty Images
کرس پیٹنہانگ کانگ میں برطانیہ کی جانب سے تعینات کیے جانے والے آخری گورنر تھے

1992 میں یان کی ہانگ کانگ آمد کے چند ہفتوں بعد سابق کنزرویٹو کابینہ کے وزیر کرس پیٹن ہانگ کانگ کے آخری گورنر بن گئے۔

ان کا کہنا ہے کہ ان کی کوشش تھی کہ جمہوریت ہانگ کانگ کے معاشرے میں سرایت کر جائے تاکہ چین کو ہانگ کانگ کی حوالگی کے بعد بھی معاشرے میں یہ اقدار برقرار رہیں۔ اس کے لیے انھوں نے ہانگ کانگ کے اداروں میں جمہوری اصلاحات کے لیے تجاویز کا اعلان کیا، جس کا مقصد انتخابات میں ووٹنگ کی بنیاد کو وسیع کرنا تھا۔

ان اصلاحات کی نہ صرف چین کی قیادت بلکہ لندن میں موجود ان افراد کی جانب سے بھی مخالفت کی گئی جو چین کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے۔

سابق گورنر لارڈ پیٹن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میری بنیادی ذمہ داری یہ تھی کہ ہانگ کانگ کے لوگوں کو آزادی اور خوشحالی کے ساتھ رہنے کا بہترین موقع فراہم کروں اور1997 کے بعد بھی ایسا ہی رہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ وہ آپریشن ’ییلو برڈ‘ سے واقف تھے لیکن اس میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔

چین کی حکومت کے مخالفین کو برطانیہ آنے کی اجازت دینے میں ہچکچاہٹ اور پیٹن کی اصلاحات کی مخالفت 1990 کی دہائی کے ایک مرکزی سوال کینشاندہی کرتی ہے جو 30 سال گزر جانے کے بعد آج بھی اہمیت رکھتا ہے: مغربی دنیا چین کو ناراض نہ کرنے اور اس کے عروج کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے کس حد تک جانے کے لیے تیار ہے، خصوصاً ایسے وقت میں جب بات انسانی حقوق اور جمہوریت جیسی اقدار کی ہو؟

جولائی 1997 میں ہانگ کانگ کے خودمختار چینی علاقہ بننے کے بعد آپریشن ’ییلو برڈ‘ بند کر دیا گیا۔ آنے والے کچھ سالوں تک لارڈ پیٹن جن آزادیوں کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے تھے ان اقدار کو لاگو کیا گیا۔ لیکن پچھلی ایک دہائی میں شی جن پنگ کی زیرِ قیادت چین ہانگ کانگ کو چینی نظام میں ڈھالنے کی کوشش کر رہا ہے۔

1997: Prince Charles and Chinese premier Jiang Zemin mark the handover of Hong Kong
Getty Images
1997: پرنس چارلس نے ہانگ کانگ کو چین کے حوالے کر دیا

یان نے امریکی شہریت حاصل کرلی اور ایک مثالی امریکی زندگی گزاری۔ انھوں نے امریکی فوج میں شمولیت اختیار کی اور عراق میں خدمات انجام دیں۔

ان کا خیال تھا کہ اب چین کی کمیونسٹ پارٹی ان تک نہیں پہنچ سکتی لیکن وہ غلط تھے۔

سنہ 2021 میں انھوں نے عوامی عہدے کے لیے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا۔ وہ نیویارک کے 1st کانگریشنل ڈسٹرکٹ کے ڈیموکریٹک پرائمری میں امیدوار کے طور پر کھڑے ہوئے۔

تب ہی یان کو اپنی انتخابی مہم کے دوران کچھ عجیب و غریب واقعات کا سامنا کرنا پڑا۔ کچھ گاڑیوں نے ان کا پیچھا کیا اور وہاں رک گئیں جہاں وہ ٹھہرے ہوئے تھے۔ انتخابی مہم کے دوران کئی بار لوگوں نے انھیں بولنے سے روکنے کی کوشش بھی کی۔

Yan served in the US army as a military chaplain
BBC
یان نے امریکی فوج میں شمولیت اختیار کی اور عراق میں خدمات سر انجام دیں

ایک امریکی نجی تفتیش کار نے ایف بی آئی کو بتایا کہ ان سے چین میں موجود ایک شخص نے رابطہ کیا اور انھیں یان کی نگرانی کرنے کو کہا۔

ایف بی آئی اہلکار جیسن مورٹز کا کہنا ہے کہ اس شخص نے نجی تفتیش کار کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ وہ یان کی انتخابی مہم کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کریں۔

چینی باشندے نے تفتیش کار کو یان کے اوپر کیچڑ اچھالنے کے لیے مواد جمع کرنے کو کہا۔ ایف بی آئی کے مطابق تفتیش کار کو کہا گیا کہ اگر انھیں یان کےخلاف کچھ نہیں ملتا توفرضی الزامات ایجاد کریں یا پھر یان کو کار حادثے میں ہلاک کر دیں۔

یان کہتے ہیں کہ ’وہ ہر صورت میری انتخابی مہم کو دبانا چاہتے تھے۔‘

Yan tried to run for a Congress seat in New York in 2022
BBC
سنہ 2021 میں، یان نے امریکہ میں انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا

ایف بی آئی کے اندازوں کے مطابق نجی تفتیش کار کو ہدایت دینے والا شخص چینی حکومت کے لیے کام کر رہا تھا۔ ان پر فرد جرم عائد کی گئی لیکن امریکہ سے باہر ہونے کے باعث اسے گرفتار نہیں کیا جا سکا۔

چین سیاسی مداخلت کے دعوؤں کی مسلسل تردید کرتا آیا ہے۔ لیکن یہ واحد واقعہ نہیں جس کی بنیاد پر چین پر دوسرے ممالک میں رہائش پذیر مخالفین کو ڈھونڈنے کی کوششیں کرنے کا الزام لگا ہے۔

برطانیہ اور امریکہ میں موجود افراد پر چین واپس جانے یا خاموش رہنے کے لیے دباؤ ڈالنے کے دعوےماضی میں بھی سامنے آتے رہے ہیں۔

یان کی کہانی سے پتہ چلتا ہے کہ جیسے جیسے چین کی اپنے لوگوں پر گرفت مضبوط ہورہی ہے ویسے ویسے وہ بیرون ملک موجود ناقدین تک اپنی رسائی بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔

اس دوران چین سے نمٹنے کا عزم رکھنے والی مغربی حکومتوں کے لیے یان کا ایک ہیمشورہ ہے: ’انہیں محتاط رہنا ہوگا۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.