بیماریوں کے پھیلاؤ کا سبب بننے والی فیک نیوز کی شناخت کیسے کی جائے؟

صرف چند منٹ نہ صرف آپ کو شرمندگی سے بچا سکتے ہیں بلکہ اس بات کو یقینی بنانے میں مدد مل سکتی ہے کہ آپ غلط معلومات نہیں پھیلا رہے۔ جو بعض صورتوں میں بیماری اور موت کا سبب بھی بن سکتی ہیں۔

یہ کوئی راز نہیں ہے کہ سوشل میڈیا پر غلط معلومات بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئی ہیں اور کچھ موضوعات پر تو یہ بہت زیادہ ہیں۔

مثال کے طور پر تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ویکسین کے بارے میں سب سے زیادہ مقبول یوٹیوب ویڈیوز میں سے تقریباً دو تہائی غلط معلومات پر مشتمل ہیں۔

اس کے اثرات خوفناک ہو سکتے ہیں۔ ویکسینیشن کے خلاف آن لائن فیک نیوز میں اضافے سے ویکسینیشن کروانے میں کمی واقع ہوئی ہے خاص طور پر بچوں میں۔

اس کے نتیجے میں حالیہ برسوں میں خسرہ جیسی ممکنہ مہلک بیماریوں کا بڑی تعداد میں پھیلاؤ ہوا ہے۔

امریکی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کی صدر مارشیا میک نٹ نے 2021 میں کووڈ 19 وبا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ غلط معلومات ایک وبا سے بھی بدتر ہیں۔

’یہ دنیا بھر میں روشنی کی رفتار سے پھیلتا ہے اور مہلک ثابت ہو سکتا ہے جب یہ تمام قابلِ اعتماد ثبوتوں کے خلاف غلط ذاتی تعصب کو تقویت دیتا ہے۔‘

یہاں بہت ساری وجوہات ہیں کہ غلط معلومات اتنی تیزی سے کیوں پھیلتی ہیں اور تحقیق کے مطابق درست معلومات سے بھی زیادہ تیزی سے۔

ایک وجہ یہ ہے کہ لوگوں کی جانب سے ایسے کسیبھی دعوے کو شئیر کیے جانے کا زیادہ امکان ہے جو پہلے سے موجود عقائد کی تصدیق کرتا ہو چاہے وہ درست ہوں یا نہیں۔

یہ علمی تعصب اس بات کی وضاحت کرنے میں مدد کر سکتا ہے کہ بوٹس کے مقابلے میں انسانوں کی طرف سے زیادہ غلط معلومات کیوں شیئر کی جاتی ہیں۔

مثال کے طور پر ایک مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ 15 فیصد نیوز شیئررز 40 فیصد تک جعلی خبروں کو پھیلاتے ہیں۔

یہ پریشان کن اعداد و شمار ہیں لیکن اس میں ایک چیز الٹ ہو سکتی ہے۔ جب تک عام لوگ زیادہ غلط معلومات کو شیئر کرنے کے ذمہ دار ہیں، ہم بھی تبدیلی لانے میں مدد کر سکتے ہیں اور وہ ایسے کہ آپ جب بھی کچھ بھی ’لائیک، شیئر یا ایمپلی فائی کرنے لگیں تو زیادہ محتاط رہیں۔‘

جب غلط معلومات کا شکار ہونے کی بات آتی ہے، تو ہمیں اپنی انسانی غلطیوں سے آگاہ ہونا چاہیے، جیسے کہ ہم اس پر فوری یقین کر لیتے ہیں جس چیز پر ہم یقین کرنا چاہتے ہیں، یہی پہلا قدم ہے۔

لیکن یہ واحد چیز نہیں ہے جو ہم کر سکتے ہیں۔ خاص طور پر محققین نے پایا ہے کہ متعدد آسان، ٹھوس حکمت عملیاں ہیں جو ہم سب استعمال کر سکتے ہیں (اور کرنا چاہیے) خاص طور پر کسی بھی دعوے کو شیئر کرنے یا دہرانے سے اس کی درستگی کی تصدیق کریں۔

میری ایکپسندیدہ حکمت عمل سفٹ SIFTطریقہ ہے۔ ڈیجیٹل خواندگی کے ماہر مائیک کولفیلڈ کی جانب سے پیش کردہ یہ چار آسان اقدامات پر مشتمل ہے۔

1: ایس کا مطلب ہے سٹاپ (ٹھہریں)

شاید جدید دور کے سب سے زیادہ نقصان دہ پہلوؤں میں سے ایک اس کی ’ہنگامی حالت‘ یا اجلت ہے۔

ہمارے مسلسل فون کے استعمال سے لے کر نان سٹاپ کام کے مطالبات تک ہر چیز کی بدولت ہم میں سے بہت سے لوگ تیز رفتاری سے دنیا کو نیویگیٹ کرتے نظر آتے ہیں۔

آن لائن ہونا جہاں خبریں اور مواد جو دونوں ہیتیز رفتار اور اکثر جذباتی ہوتے ہیں، ہمیں ’جلد باز‘ ذہنیت کا حامل بنا سکتے ہیں لیکن جب غلط معلومات کی نشاندہی کی بات آتی ہے، تو جلد بازی ہماری دوست نہیں ہے۔

تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ہمارے فوری رد عمل پر انحصار کرنے سے ہمارے گمراہ ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے، اگر ہم رکنے اور غور کرنے کے لیے ایک لمحے کا وقت لیتے ہیں تو یہ فائدہ مند ہو سکتا ہے۔

سِفٹ طریقہ کار کا پہلا قدم اس رجحان کو روکتا ہے۔ ٹھہریے، پوسٹ شیئر نہ کریں اور اس پر تبصرہ نہ کریں۔

2: آئی سے مراد خبر کے ذریعے کی تحقیقات کریں

ہمارے سوشل میڈیا فیڈز میں پوسٹس ہر وقت ظاہر ہوتی ہیں جن کے بارے میں ہمیں معلوم نہیں ہوتا کہ انھیں کس نے بنایا ہے۔

شاید انھیں کسی دوست نے شیئر کیا تھا، شاید انھیں ایلگورتھم کے ذریعے ہمارے سامنے لایا گیا۔ ہو سکتا ہے کہ ہماسے بنانے والے کو فالو کرتے ہوں لیکن ہم ان کا پسِ منظر کبھی نہیں دیکھتے۔

اب وقت ہے کے اس بارے میں جانا جائے۔ یہ پوسٹ کس نے بنائی؟ اس پلیٹ فارم سے ہٹیں اور ویب سرچ کریں۔ اور چونکہ تلاش کے نتائج گمراہ کن ہو سکتے ہیں تو اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ ایک معتبر ویب سائٹ دیکھ رہے ہیں۔

حقائق کی جانچ کرنے والے اکثر سب سے پہلے وکی پیڈیا استمعال کرتے ہیں لیکن یہ ذریعہ ہمیشہ درست نہیں ہو گا کیونکہ اسے لوگوں کی جانب سے دی گئی معلومات سے تیار کیا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ مخصوص معروف افراد یا تنظیموں کے بارے میں اس کے مضامین اکثر تنازعات اور سیاسی تعصبات پر مبنی ہو سکتے ہیں۔

جب آپ تحقیق کر رہے ہیں تو یہ سوالات پوچھیں:

  • اگر تخلیق کار ایک میڈیا ادارہ ہے، تو کیا وہ معتبر اور قابل احترام ہے اور تصدیق شدہ، آزاد صحافت سے وابستہ ہے؟
  • اگر یہ ایک فرد ہے، تو ان کے پاس اس موضوع کے حوالے سے کیا مہارت ہے؟ کیا اس کے پسِ پردہ کوئی مالی تعلقات، سیاسی جھکاؤ یا ذاتی تعصبات شامل ہو سکتے ہیں؟
  • اگر یہ ایک تنظیم یا کاروبار ہے، تو ان کا مقصد کیا ہے؟ وہ کس چیز کی وکالت کرتے ہیں یا کیا فروخت کرتے ہیں؟ ان کی فنڈنگ کہاں سے آتی ہے؟ انھوں نے کیا سیاسی جھکاؤ ظاہر کیا ہے؟
  • کیا آپ اب بھی اس موضوع میں اس تخلیق کار کی مہارت پر بھروسہ کریں گے اگر وہ ایسی بات کہہ رہے ہیں جس سے آپ متفق نہیں ہیں؟

3: ایف سے مراد بہتر کوریج تلاش کریں

اگر پچھلے مرحلے سے آپ کو پتہ چلتا ہے کہ آپ کے پاس اب بھی معلومات دینے والے کی ساکھ کے حوالے سے سوالات ہیں تو اب مزید تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔

آپ جس چیز کی تلاش کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ آیا کسی زیادہ قابلِ اعتماد ذریعے جیسے ایک معتبر نیوز آؤٹ لیٹ یا حقائق کی جانچ کرنے والی سروس نے اسی دعوے کی اطلاع اور تصدیق کی ہے۔

یہ تعجب کی بات نہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ گوگل کے پاس ایسا کرنے کے لیے کچھ بہترین ٹولز ہیں۔ ظاہر ہے گوگل خود ہے اور اگر آپ خاص طور پر یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آیا خبروں کے اداروں نے کسی چیز کا احاطہ کیا ہے تو اس کے لیے گوگل نیوز ہے۔

لیکن میں کبھی کبھی گوگل فیکٹ چیک سرچ انجن کا استعمال کرنے کو ترجیح دیتی ہوں جو خاص طور پر صرف حقائق کی جانچ کرنے والی ویب سائٹس کو تلاش کرتا ہے۔

بس یہ ذہن میں رکھیں کہ گوگل کا کہنا ہے کہ وہ حقائق کی جانچ پڑتال کرنے والی سائٹس کی جانچ پڑتال نہیں کرتا لہٰذا اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ آپ کے نتائج معتبر ہیں آپ کو مزید جاسوسی کرنے کی ضرورت ہو گی۔

میں یہ دیکھتی ہوں کہ آیا کسی آؤٹ لیٹ نے پوائنٹر کے انٹرنیشنل فیکٹ چیکنگ نیٹ ورک میں سائن اپ کیا ہے یا نہیں۔

اگر آپ کسی تصویر کے حوالے سے تحقیق کر رہے ہیں تو یہ دیکھنے کے لیے ریورس امیج سرچ ٹول کا استعمال کریں تاکہ آپ کو یہ معلوم ہو کہ تصویر سب سے پہلے آن لائن کہاں اپ لوڈ کی گئی۔ یہ گوگل کا ٹول ہے لیکن مجھے ٹین آئی اور یانڈیکس بھی پسند ہیں۔ (آپ ان کو ویڈیو کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں، ویڈیو سے سکرین شاٹ لیں اور اسے اپنی تصویر کی تلاش کے لیے استمعال کریں۔)

یہ سب کرنے کے پیچھے آپ کا مقصد؟ یہ دیکھنا کہ آیا کوئی قابل اعتماد ذرائع موجود ہیں جو ان معلومات کی اطلاع دے رہے ہیں جو آپ دیکھ رہے ہیں۔

4: ٹی سے مراد دعوے کو اس کے اصل سیاق و سباق میں تلاش کریں

اکثر آپ یہ سب کرنا اسی وقت کرنا بند کر دیں گے جب آپ بہتر کوریج کے لیے اوپر بیان کردہ ٹولز استعمال کر رہےہوں گے۔ تاہم آپ کے لیے جاننا بھی ضروری ہے کہ اصل میں یہ دعویٰ کہاں سے آیا تھا۔

یہاں تک کہ اگر آپ دیکھتے ہیں کہ کسی دعوے کو کسی معتبر میڈیا آؤٹ لیٹ نے رپورٹ کیا ہے مثال کے طور پر ممکن ہے کہ انھوں نے یہ دعویٰ کسی اور ادارے سے حاصل کی ہو اور خود اس پر رپورٹ نہ کیا ہو۔

بہتر تو یہ ہے کہ اصل کہانی کو لنک کیا جائے تاکہ آپ اسے پڑھ سکیں لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو آپ کو اسے الگ سے تلاش کرنا ہو گا۔

اہم بات یہ ہے کہ آپ نہ صرف یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آیا یہ چیز واقعی سچ ہے، یا کسی چیز کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے۔

اگر آپ کسی تصویر کو دیکھ رہے ہیں تو کیا آپ نے سوشل میڈیا پوسٹ میں اسے کس طرح بیان کیا تھا۔ کیا یہ اصل کیپشن، سیاق و سباق اور مقام کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے؟

اگر یہ کسی کا اقتباس ہے، کیا کسی چیز میں ترمیم کی گئی ہے یا سیاق و سباق سے ہٹ کر لیا گیا ہے یا جب آپ ان کا مکمل انٹرویو یا تقریر دیکھتے ہیں تو کیا ایسا لگتا ہے کہ شاید انھوں نے اس لمحے میں کچھ غلط بول دیا؟

یہ فیصلہ کرنے سے پہلے کہ آیا صرف دعوے کو شیئر کرنا ہے یا نہیں یہ اقدامات کرنا مشکل محسوس ہو سکتا ہے۔ لیکن صرف چند منٹ نہ صرف آپ کو شرمندگی سے بچا سکتے ہیں بلکہ اس بات کو یقینی بنانے میں مدد مل سکتی ہے کہ آپ غلط معلومات نہیں پھیلا رہے کیونکہ غلط معلومات نہ صرف بیماریوں کے پھیلاؤ بلکہ کچھ صورتوں میں موت کا سبب بھی بن سکتی ہیں۔

آج کوئی بھی سوشل میڈیا پر کسی بھی قسم کا دعویٰ کر سکتا ہے اور اس دعوے کو دوبارہ شیئر کرنے والا کوئی بھی شخص اسے وائرل کرتا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہم جو پوسٹ کر رہے ہیں، پسند کر رہے ہیں، اور شیئر کر رہے ہیں، وہ سچ ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.