جب شاہ فیصل نے بنگلہ دیشی شہریوں کو ’حج کی اجازت دینے کے بدلے پاکستانی قیدیوں کی رہائی‘ کی شرط رکھی

ہندوستان کے اس مشرقی خطے سے جو اب بنگلہ دیش ہے حج پر جانے کی تاریخ دہلی سلطنت کے دور سے جاری و ساری ہے۔ دہلی سلطنت کا قیام تیرھویں صدی کے اوائل میں سنہ 1204 میں شروع ہوا تھا۔ اس وقت بنگال میں مسلمانوں کی حکومت کا قیام عمل میں آیا تھا۔

آج سے تقریباً ساڑھے چار سو سال قبل خزاں کے موسم میں ہندوستان کی ایک مغل سلطنت کی شہزادی گلبدن بیگم نے حج کے لیے مکہ اور مدینہ کے مقدس شہروں کا سفر شروع کیا تھا۔

گلبدن بیگم شاہی خاندان کی خواتین حاجیوں کے ایک گروپ کی قیادت کر رہی تھیں۔ وہ ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی پہلی خاتون تھیں جنھوں نے حج کیا۔

گلبدن بیگم ہندوستان میں مغل سلطنت کے بانی شہنشاہ ظہیر الدین محمد بابر کی بیٹی تھیں۔ جب وہ حج پر جا رہی تھیں تو ان کی عمر 54 برس تھی۔

لیکن برصغیر پاک و ہند سے حج پر جانے کی تاریخ اس سے کہیں پرانی ہے۔

ہندوستان سے حج پر جانے کی تاریخ دہلی سلطنت کے دور سے جاری و ساری ہے۔ دہلی سلطنت کا قیام تیرھویں صدی کے اوائل میں سنہ 1204 میں شروع ہوا تھا۔ اس وقت بنگال میں مسلمانوں کی حکومت کا قیام عمل میں آیا تھا۔

مورخین کے مطابق دہلی سلطنت کے دور سے ہی چٹاگانگ بندرگاہ سے بحری جہازوں کے ذریعے حج کے مسافروں کو لے جانے کی تاریخ موجود ہے۔

خانہ کعبہ
Getty Images
ہر سال حج و عمرے کے لیے لاکھوں لوگ خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہیں

ایک طوفانی سمندری سفر

حج کا سفر شروع میں کافی مشکل اور وقت طلب تھا۔

اس وقت کے غیر منقسم بنگال اور آسام کے محکمہ تعلیم کے اعلیٰ عہدیدار بہادر خان احسان اللہ برطانوی دور حکومت میں حج کرنے گئے تھے۔

انھوں نے حج کی یاداشت پر مبنی اپنی کتاب میں واضح طور پر یہ نہیں بتایا کہ وہ کس تاریخ کو حج کے لیے روانہ ہوئے تھے تاہم ان کی تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا یہ سفر سنہ 1920 کے بعد کا ہو سکتا ہے۔

خان بہادر احسان اللہ نے لکھا ہے کہ وہ جب حج کے لیے اپنے گھر سے نکلے تو سب سے پہلے کلکتہ پہنچے اور پھر کولکتہ سے الہ آباد پہنچے۔

الہ آباد سے ٹرین کے ذریعے ممبئی (تب بمبئی) جانے کی تیاری کی۔ ان کا ارادہ وہاں سے حاجیوں کو لے جانے والے جہاز میں سوار ہونے کا تھا۔

لیکن اس سال بمبئی میں طاعون کی وبا پھیل گئی۔ اس لیے وہ ممبئی جانے کے بجائے کراچی کی بندرگاہ کے لیے روانہ ہو گئے۔

انھیں کراچی جانے کے لیے ایک ہفتہ انتظار کرنا پڑا۔ سمندری سفر جتنا وقت طلب تھا اتنا ہی خوفناک تھا۔

خان بہادر احسان اللہ کی لکھی ہوئی کتاب ’امر زندگی دھارا‘ میں اس کے بارے میں لکھا گیا ہے۔ وہ چاول، دال، نمک اور دیگر روزمرہ کے ضروری سامان جہاز پر اپنے ساتھ لے گئے اور وہ اپنا کھانا جہاز پر خود پکاتے تھے۔

انھوں نے ایک دن کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ’سمندر میں ایک بڑی لہر اٹھی۔ طوفانی لہروں میں جہاز بری طرح سے اچھلا اورہمارے کمرے کے تمام شیشے کے برتن ٹوٹ گئے۔‘

’یہ ایک اندھیری رات تھی، کوئی جاننے والا نظر نہیں آ رہا تھا۔ کھڑا ہونا ناممکن تھا۔ میں گھٹنوں کے بل جہاز کی زنجیریں تھامے موت کا انتظار کرتا رہا، عرشے پر بیٹھے مسافر الٹیاں کر رہے تھے اور کچھ خوف کے مارے زور زور سے سانس لے رہے تھے۔ یہ ایک جان لیوا اور مایوس کن منظر تھا! ہر لمحہ ایسا لگتا تھا کہ جہاز سمندر میں ڈوب جائے گا۔‘

انھیں اس طرح بحری سفر کرنے اور حج کا فریضہ مکمل کرنے میں تین ماہ لگے۔

خوشحال لوگ حج کے لیے ڈھاکہ سے کراچی جاتے تھے

سنہ 1947 میں برصغیر کی تقسیم اور انڈیا-پاکستان کے قیام کے بعد سمندر کے ذریعے حج مسافروں کی نقل و حمل کا باضابطہ انتظام چٹاگانگ بندرگاہ سے کیا گیا۔

اور حاجیوں کے لیے چٹاگانگ کے پہاڑتلی میں مستقل حاجی کیمپ قائم کیا گیا۔ اس وقت مشرقی پاکستان کے تمام عازمین حج کے لیے چٹاگانگ بندرگاہ سے سفر کرتے تھے۔

چند خوشحال لوگ حج کے لیے ڈھاکہ سے کراچی جاتے تھے۔ پھر وہاں سے حج کے لیے عازم سفر ہوتے تھے۔

مشرقی پاکستان کے آخری دور میں بھی حاجیوں کو چٹاگانگ سے جدہ پہنچانے کے لیے دو جہازوں پر مشتمل قافلہ روانہ ہوتا تھا۔ پہلا قافلہ عید کے سات دن بعد نکلتا تھا۔

اسی لیے مشرقی پاکستان کے زائرین عید کے بعد چٹاگانگ کے پہاڑتلی جاتے تھے اور کیمپ میں قیام کرتے تھے۔ دو بحری جہازوں میں تقریباً 2600 حج مسافروں کو لے جایا جاتا تھا۔

اس وقت اس کام کے لیے دو بحری جہاز وقف تھے جن کا نام سفینۃ العرب اور سفینۃ عرفات تھا۔

بیت اللہ
Getty Images
سنہ 1890 کی دہائی میں خانہ کعبہ کی بنائی جانے والی تصویر

کرایہ کتنا تھا؟

اس وقت عازمین حج کو کراچی سے جدہ لے جانے کے لیے اخبارات میں اشتہارات بھی دیے جاتے تھے۔ اوراورینٹ ایئرویز کا ایسا ہی ایک اشتہار بہت سے لوگوں نے فیس بک پر شیئر کیا ہے۔

اشتہار میں لکھا گیا کہ اورینٹ کی تیز رفتار اور آرام دہ پرواز کے ذریعے کراچی سے جدہ پہنچنے میں صرف 9 گھنٹے لگتے ہیں۔ کرایہ 1150 روپے ہے۔

اسلام اور سفر پر لکھنے والے مصنف احمد الاسلام چودھری نے لکھا ہے کہ حج پر جانے کا یہ خوبصورت نظام چٹاگانگ بندرگاہ پر سنہ 1970 تک برقرار تھا، اس وقت ڈیک اور تھرڈ کلاس کا کرایہ 1919 روپے تھا۔ اس میں سے 1000 روپے رہائش اور کھانے کے لیے ہوا کرتے تھے۔ سعودی عرب میں 919 روپے کھانے اور جہاز کا کرایہ اور دیگر سرکاری اخراجات کے لیے تھے۔ اگر آپ جہاز پر سیکنڈ کلاس میں سفر کریں گے تو کل خرچہ 4 ہزار 500 ٹکا آتا تھا جبکہ فرسٹ کلاس میں کل خرچ سات ہزار روپے سے کچھ زیادہ تھا۔

کراچی کے محمد رمضان سنہ 1974 میں جہاز کے ذریعے حج پر گئے تھے۔ رمضان نے سنہ 2020 میں عرب نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا ’میں نے جہاز کا ٹکٹ 6,000 روپے میں خریدا۔ پھر کراچی سے جدہ پہنچنے کے لیے سات دن اور سات راتیں جہاز پر گزاریں۔‘

اشتہار
BBC
بنگلہ زبان میں حج کا اشتہار

جب سعودی عرب نے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور بنگلہ دیشی شہریوں کو انڈین پاسپورٹ پر حج کرنا پڑا

نو ماہ کی جنگ کے بعد بنگلہ دیش کی پاکستان سے آزادی کے بعد حج کے حوالے سے ایک مختلف صورتحال سامنے آئی۔

سعودی عرب نے بنگلہ دیش کو آزاد ملک تسلیم نہیں کیا تھا اس لیے بنگلہ دیشی حج پر نہیں جاسکتے تھے۔

سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے سفارتی تعلقات بہت گہرے تھے۔ سعودی عرب اس حقیقت کو قبول نہیں کر سکتا تھا کہ بنگلہ دیش پاکستان سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ایک آزاد ریاست کے طور پر قائم ہو چکا ہے۔

نتیجتاً آزادی کے فوراً بعد اس وقت کے بنگلہ دیشیوں کو انڈین پاسپورٹ کے ساتھ حج پر جانا پڑا۔

حج کے مسافروں کو چٹاگانگ بندرگاہ سے انڈیا کے محمدی جہازوں پر منتقل کیا جاتا تھا۔ دوسری راستہ یہ تھا کہ قرعہ اندازی کے ذریعے تین ہزار عازمین حج کا انتخاب کرکے ڈھاکہ سے ہوائی جہاز روانہ کیا گیا۔

انڈین بحری جہاز کافی پرانا اور کمزور تھا۔ نتیجتاً یہ سمندری سفر کے لیے موزوں نہیں تھا۔ اس لیے سنہ 1977 میں بنگلہ دیش حکومت نے ایک جہاز خریدا، جس کا نام ’حزب بہار‘ رکھا گیا۔

اس کے بعد ڈھاکہ سے حج پروازوں میں بھی بتدریج اضافہ ہوا اور یہاں مختلف انتظامی کام شروع کیے گئے۔

شیخ مجیب کی شاہ فیصل سے ملاقات اور سعودی بادشاہ کی پاکستانی قیدیوں کی رہائی کی شرط

ستمبر سنہ 1972 میں سعودی بادشاہ فیصل کو ایک ٹیلیگرام بھیجا گیا۔ اس تار میں بنگلہ دیش کے مسلمانوں کو حج کی اجازت دینے کی عرضی پیش کی گئی تھی۔ اس وقت یہ خبر مختلف اخبارات میں چھپی تھی۔

شیخ مجیب نے خط میں لکھا کہ ’بنگلہ دیش کے زیادہ تر لوگ دیندار مسلمان ہیں اور وہ اسلام کے اصولوں پر سختی سے عمل پیرا ہیں۔ اگر آپ کی حکومت کسی افسر کو ویزہ دینے کے لیے بھیجنا چاہے تو اس کا خیرمقدم کیا جائے گا اور تمام سہولیات فراہم کی جائیں گی۔‘

سنہ 1973 میں شیخ مجیب افریقی ملک الجزائر میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں شامل ہوئے۔

اس وقت تک پاکستان اور چین کے ساتھ ساتھ سعودی عرب اور لیبیا نے بھی بنگلہ دیش کو ایک خودمختار آزاد ملک کے طور پر تسلیم نہیں کیا تھا۔ الجزائر پہنچ کر شیخ مجیب الرحمن نے کرنل قذافی اور سعودی شاہ فیصل سے ملاقات میں دلچسپی ظاہر کی۔

شیخ مجیب جاننا چاہتے تھے کہ سعودی عرب اور لیبیا مسلم اکثریتی بنگلہ دیش کو کیوں تسلیم نہیں کر رہے۔

لیکن اس میٹنگ کا انعقاد آسان نہیں تھا۔ متوفی صحافی ایم آر اختر مکل نے لکھا کہ شیخ مجیب الرحمن کے ہم سفر بیرسٹر امیر الاسلام کی انتھک کوششوں سے الجزائر میں اس میٹنگ کا انتظام ہوا۔

صدر شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ صحافی ایم آر اختر مکل بھی تھے۔

مکل نے اپنی کتاب مجیبز بلڈ ریڈ میں شیخ مجیب الرحمان اور شاہ فیصل کے درمیان ہونے والی ملاقات کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔

طیارے سے سفر
Getty Images
اب لوگ اپنے اپنے گھروں سے احرام باندھ کر نکلتے ہیں اور چھ سات گھنٹوں میں جدہ پہنچ جاتے ہیں

لیکن مجیب الرحمان اور شاہ فیصل کے درمیان ملاقات نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئی۔ شیخ مجیب جاننا چاہتے تھے کہ سعودی عرب انڈونیشیا کے بعد دوسرے سب سے بڑا مسلم ملک ہونے کے باوجود بنگلہ دیش کو کیوں تسلیم نہیں کر رہے۔ کیونکہ جب تک سعودی عرب اسے تسلیم نہیں کرتا، بنگلہ دیش کے لوگوں کا حج پر جانا بہت مشکل تھا۔

اس کے لیے سعودی بادشاہ نے شیخ مجیب کے سامنے دو شرطیں رکھیں۔ ایک بنگلہ دیش کا نام بدل کر اسلامی جمہوریہ بنگلہ دیش رکھنا اور دوسرے تمام پاکستانی جنگی قیدیوں کی فوری رہائی۔

لیکن شیخ مجیب ان شرائطپر متفق نہ ہو سکے۔

انھوں نے شیخ مجیب الرحمان کے حوالے سے لکھا کہ ’چونکہ سعودی عرب نے تقریباً دو سال تک آزاد بنگلہ دیش کو تسلیم نہیں کیا، کیا آپ نے اس حقیقت کے بارے میں سوچا ہے کہ وہاں کے متقی مسلمان حج کی ادائیگی کے قابل نہیں ہیں؟ کیا حج کی ادائیگی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا جائز ہے؟ دنیا بھر کے مسلمانوں کو خانہ کعبہ میں نماز ادا کرنے کا حق حاصل ہے۔ آج ہزاروں بنگالی مذہبی مسلمانوں کو ہندوستانی پاسپورٹ پر حج کیوں کرنا پڑ رہا ہے؟‘

سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں بنگلہ دیش کے سفارت خانے کی ویب سائٹ پر شیخ مجیب الرحمان اور شاہ فیصل کی تصویر کے ساتھ لکھا گیا ہے کہ اس ملاقات کے بعد بنگلہ دیشیوں کو حج کی اجازت دے دی گئی۔

اور آج صورت حال یہ ہے کہ مدینہ اور مکہ میں زیادہ تر خدمت گاروں کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.