ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے پہلے پاکستانی بلے بازوں کا آئرش امتحان

آئرلینڈ سے ویسے تو کوئی ٹی ٹونٹی میچ کھیلے ہوئے پاکستان کو ایک دہائی سے زیادہ عرصہ ہو چکا مگر پاکستانی شائقین کے لیے، آئرش کرکٹ کبھی بھی نامانوس نہیں رہی اور نہ ہی آئرش کھلاڑی کبھی پاکستان کے لیے آسان ہدف رہے ہیں۔

گو پاکستانی کرکٹ میں ورلڈ کپ کی تیاری کبھی بھی ہنگاموں سے خالی نہیں رہتی مگر رواں مہم جوئی اپنی شوخی میں ماضی کی کئی نظیروں کو بھی پیچھے چھوڑ گئی ہے۔

ایک ورلڈ کپ کی ناکام مہم کے بعد ایک کپتان کو زبردستی مستعفی کروایا جاتا ہے اور اگلے ورلڈ کپ کے اہداف کے مدِ نظر ایک اور کپتان مقرر کیا جاتا ہے۔ وہ کپتان ابھی ایک ہی سیریز کھیل پاتا ہے کہ اسے بلاتکلف برطرف کر کے اسی پرانے کپتان کو بحال کر دیا جاتا ہے جو گذشتہ ورلڈ کپ کی ناکام مہم جوئی کا مدارالمہام تھا۔

پی سی بی کی نئی انتظامیہ نے کوچنگ سیٹ اپ میں بھی پہلی بار ٹیسٹ کرکٹ اور مختصر فارمیٹ کے لیے الگ الگ کوچ مقرر کیے ہیں مگر یہ عقدہ سلجھانا ابھی دشوار ہے کہ سال بھر میں تین چار ٹیسٹ میچز کھیلنے والی ٹیم کو اس انگلش کرکٹ کا کوچنگ ماڈل اپنانا کیونکر ضروری ہے جو سال بھر میں ڈیڑھ درجن ٹیسٹ میچز کھیل جاتی ہے۔

یہ انتظامی تبدیلیاں پاکستان پر کیا تاثیر چھوڑیں گی، یہ تو وقت کے ساتھ ہی معلوم پڑے گا مگر فی الوقت پاکستان کی ورلڈ کپ تیاری حتمی مراحل میں داخل ہو چکی ہے اور اس آخری مرحلے کے لیے پاکستانی سکواڈ آئرش ساحلوں پر لنگر انداز ہو چکا ہے۔

آئرلینڈ سے ویسے تو کوئی ٹی ٹوئنٹی میچ کھیلے ہوئے پاکستان کو ایک دہائی سے زیادہ عرصہ ہو چکا مگر پاکستانی شائقین کے لیے، آئرش کرکٹ کبھی بھی نامانوس نہیں رہی اور نہ ہی آئرش کھلاڑی کبھی پاکستان کے لیے آسان ہدف رہے ہیں۔

کیویز کے خلاف حالیہ ہوم سیریز میں یہ تو واضح ہو گیا کہ نوجوان اور ناتجربہ کار ٹیم کے خلاف بھی پاکستان کی مشکلات نمایاں رہیں۔ بیٹنگ، بولنگ اور فیلڈنگ، تینوں شعبوں میں کیویز نے اس قدر سخت مقابلہ کیا کہ بالآخر سیریز ڈرا ہو جانا بھی پاکستان کے لیے سکھ کا سانس تھا۔

گو مبصرین اور ماہرین شماریات بہت عرصے سے پاکستان کی تزویراتی خامیوں کی نشان دہی کرتے آئے ہیں مگر کپتان بابر اعظم نے کبھی انھیں زیادہ اہمیت دینا گوارا نہیں کی۔ لیکن اب ورلڈ کپ سر پر ہے اور اپنی کوتاہیوں سے چشم پوشی خاصی گراں ثابت ہو سکتی ہے۔

پاور پلے میں پاکستان کی کم مائیگی کوئی نئی بات نہیں۔ گو پچھلے برسوں میں پاکستان کے دو بہترین ٹی ٹوئنٹی بلے باز بابر اعظم اور محمد رضوان پاور پلے کی ذمہ داری اٹھاتے رہے ہیں مگر سٹرائیک ریٹ تب بھی ہمیشہ موضوعِ بحث رہتے۔

اب جبکہ پاکستانی تھنک ٹینک نے ڈیٹا کے ڈھنڈورے سے اپنی اصلاح کرنے کی کوشش کر لی ہے اور صائم ایوب بابر کے ہمراہ اوپننگ کر رہے ہیں تو بھی مسئلہ حل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔

پہلے محمد رضوان اور بابر اعظم کی اوپننگ ساجھے داری اگرچہ پاور پلے میں پاکستان کو کچھ محدود رکھا کرتی، مگر مڈل اوورز میں پاکستان ان دونوں کے مستحکم آغاز کا فائدہ اٹھا کر مومینٹم حاصل کیا کرتا تھا۔

لیکن اس نئی پارٹنرشپ میں پاور پلے میں ہی وکٹیں گر جاتی ہیں اور مڈل اوورز میں رن ریٹ کی تشنگی بڑھتی جاتی ہے۔ پاکستان کو اب نہ صرف اپنا ٹاپ تھری طے کرنا ہو گا بلکہ مڈل اوورز کی سست روی کا بھی کوئی موثر حل کھوجنا ہو گا۔

ہر عہد میں پاکستانی کرکٹ کی عمومی دشواریاں بیٹنگ سے متعلق رہی ہیں۔ یہاں ایک بار پھر وہی منظرنامہ درپیش ہے کہ بولنگ میں پاکستان کے وسائل موثر ہیں مگر بیٹنگ باصلاحیت ناموں سے لیس ہونے کے باوجود خود اپنا بوجھ نہیں اٹھا پا رہی۔

آئرلینڈ کے خلاف یہ سیریز اگرچہ اپنی غیر مقبولیت کے سبب غیر اہم دکھائی دے رہی ہے مگر جہاں آئرش شائقین ایک مہینہ پہلے ہی تمام ٹکٹیں خرید چکے ہیں، وہاں پرجوش آئرش کھلاڑی بھی ہوم کراؤڈ کے سامنے اپنی بہترین کارکردگی سے پاکستان کو تگڑا چیلنج دینے کی کوشش کریں گے۔

ایسے میں یہ پاکستان کے لیے بھی ایک موقع ہے کہ میگا ایونٹ سے پہلے اپنے ان تزویراتی خلاؤں کو پُر کر لے جو بڑے میچز میں فیصلہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.