ایرانی مہمان اور ادب نواز شہباز شریف

جس وقت امریکہ کی افغانستان میں گوٹ پھنسی ہوئی تھی اور اسے پاکستان کی ضرورت تھی تب پاک ایران گیس پائپ لائن کے لیے امریکی استثنٰی ملنے کے امکانات زیادہ تھے مگر اس موقع پر بھی پاکستان اپنی سودے بازی کی پوزیشن کو مروتاً استعمال نہ کر پایا۔

پاکستان کے پہلے دورے پر آئے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے اسلام آباد میں طاقت کے حفظِ مراتب کا خیال رکھتے ہوئے علی الترتیب وزیرِ خارجہ، وزیرِ اعظم، صدرِ مملکت اور آخر میں سپاہ سالارِ پاکستان سے ملاقات کی۔

غالب و جالب کے شیدائی ادب نواز وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف نے مہمان ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی آمدِ باسعادت کا خیر مقدم کچھ یوں کیا۔

’جنابِ صدر بلکہ جانِ برادر۔ چشم ما روشن دلِ ما شاد۔ خیلے خوب۔ آپ کوہِ دیم وند (دماوند) کے دامن میں پھیلے بزرگِ تہران سے مارگلہ کے دامن میں تشریف لائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایران کے ملک الشعرا علامہ محمد تکی (تقی) بہار کا تاریخی ترانہ ’درود بر پاکستان‘ آج ہم سب کو یاد آ رہا ہے ۔علامہ ’تکی‘ بہار فرماتے ہیں۔’ہمیشہ لطفِ خدا باد یارِ پاکستان بکین مباد فلک با دیارِ پاکستان (آسماں کبھی بھی پاکستان سے کینہ نہ رکھے۔)

جہاں ہمارے قومی شاعر حضرت علامہ اقبال آپ کے انقلابی جذبوں کو جلا بخشتے ہیں تو حافظ اور خیام کے بغیر ہماری سوچوں کے دھارے بھی نامکمل ہیں۔ 2009 میں تہران میں اقبال چئیر قائم ہوئی تو پنجاب میں فردوسی چئیر قائم ہوئی اور جوہر ٹاؤن میں ایک شاہراہ کو فردوسی سے منسوب کیا گیا۔

محترم برادر آپ فقہ و قانون جیسے موضوعات پر بڑی مہارت رکھتے ہیں۔آپ سیاسی دانش اور حکمت کا سمندر ہیں۔ آپ کی مدبرانہ قیادت میں ایران نے بہت ترقی کی ہے اوروقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی سرحدوں پر ترقی اور خوشحالی کے مینار قائم کریں۔ ہم اس ہمسائیگی کو ترقی و خوشحالی کے سمندر میں بدل دیں گے۔ وداع و وصل جداگانہ لذتی دارد۔ہزار بار بہ رو صد ہزار بار بیا۔‘ (جدائی اور ملاپ میں الگ طرح کی لذت ہے، آپ ہزار بار جائیں اور صد ہزار بار آئیں۔)

وزیرِ اعظم کا پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈسے متاثر فارسی زدہ نصابی خطاب سنتے ہوئے پیچھے کھڑے وزیرِ دفاع خواجہ آصف اور وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار تعریفی انداز میں اور معزز مہمان مسلسل زیرِ لب مسکراتے رہے۔ انھوں نے جوابی تقریر میں کوئی ادبی حوالہ دیے بغیر سیدھا سیدھا دو نکات پر زور دیا غزہ کا المیہ اور پاک ایران تجارت کواگلے پانچ برس میں دس ارب ڈالر تک لے جانے کی خواہش۔

gas pipeline
Getty Images

اس تقریب میں اگرچہ مختلف شعبوں میں تعاون کی آٹھ یادداشتوں پر بھی دستخط ہوئے مگر دونوں ممالک جانتے ہیں کہ ایسی دستاویزات سے تو پہلے بھی دونوں ایک دوسرے کا دل خوش کرتے آئے ہیں۔

مثلاً پچھلے ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے مارچ 2016 میں اسلام آباد کا دورہ کیا تب بڑے میاں صاحب وزیرِ اعظم تھے۔ اس وقت بھی چھ یاداشتوں پر دستخط کی تقریب سجائی گئی۔ میاں صاحب نے بھی اپنے تئیں حافظ کا شعری حوالہ دیا تھا۔ تب بھی حسن روحانی نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ باہمی تجارت کا حجم اگلے پانچ برس میں پانچ ارب ڈالر تک ہونا چاہیے۔

اس دورے کے آٹھ برس بعد بھی تجارت کا حجم ناگفتہ بہ ہے۔ گذشتہ برس ایران نے پاکستان کو 944 ملین ڈالر کا اور پاکستان نے ایران کو 155 ملین ڈالر کا سامان بیچا۔ (اس سے کہیں زیادہ تو سرحدی سمگلرز اور ان کے ان داتا آپس میں بانٹ لیتے ہیں۔)

حسن روحانی کے دورے کے اختتامی بیانیے میں کم ازکم یہ جملہ ضرور تھا کہ گیس پائپ لائن کے منصوبے کو تیزی سے پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے مگر ابراہیم رئیسی کے دورے میں گیس پائپ لائن کا تذکرہ بھی غائب رہا۔ بس اتنا کہا گیا کہ دونوں ممالک ’توانائی‘ کے شعبے میں بھی تعاون کو فروغ دیتے رہیں گے۔

شیڈول کے اعتبار سے پاکستان کو اپنے علاقے میں پائپ لائن بچھانے کا کام 2014 میں مکمل کر لینا چاہیے تھا مگر تب پاکستان نے اپنی ’امریکانہ‘ مجبوریوں کے سبب اس منصوبے کی تکمیل میں دس برس توسیع کی درخواست کی۔ یہ دس برس بھی اس سال مارچ میں مکمل ہو گئے۔

درمیان میں ایران اتنا جزبز ہوا کہ اس نے ’پاکستانی التوا‘ پر سرکاری میڈیا کے ذریعے اٹھارہ ارب ڈالر ہرجانہ طلب کرنے کے لیے چارہ جوئی کی بلاواسطہ دھمکی دی۔ اس سال فروری میں نگراں حکومت نے بادلِ نخواستہ گوادر تک 80 کلو میٹر پائپ لائن بچھانے کی منظوری دے تو دی مگر اس کے لیے درکار زمین کی خریداری کا کام بھی مکمل نہیں ہے۔

ایسا نہیں کہ پاکستان اس منصوبے کو غیر سنجیدگی سے لے رہا ہے۔ پاکستان کو گیس کا شدید بحران درپیش ہے مگر جوں ہی وہ اس بابت تھوڑی بہت جنبش کرتا ہے تو کوئی نہ کوئی واشنگٹن سے کھنکار دیتا ہے کہ شوق سے پائپ لائن بچھاؤ تمہیں دیکھ لیں گے بچہ اور پاکستان کو اچانک یاد آ جاتا ہے کہ عالمی بینک اور آئی ایم ایف میں سب سے زیادہ ووٹنگ شئیرز تو امریکہ کے ہیں۔

Karachi
Getty Images

کچھ لال بجھکڑ کہتے ہیں کہ جس طرح انڈیا نے روس یوکرین بحران کے باوجود روسی تیل خریدنے کے لیے امریکہ سے استثنٰی لے لیا اسی طرح پاکستان بھی توانائی کے بحران کا مرثیہ پڑھے تو ہو سکتا ہے امریکہ تھوڑا بہت ترس کھا لے مگر لال بھجکڑ بھول جاتے ہیں کہ ایک تو پاکستان انڈیا یا اسرائیل نہیں۔

دوم یہ کہ ایسے وقت جب کہ ایران اور اسرائیل میں کانٹے کا میچ چل رہا ہے اگر پاکستان اپنی توانائی فائل امریکہ کو پیش کرے تو فائل بوم رینج میں بھی بدل سکتی ہے چنانچہ صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

جس وقت امریکہ کی افغانستان میں گوٹ پھنسی ہوئی تھی اور اسے پاکستان کی ضرورت تھی تب پاک ایران گیس پائپ لائن کے لیے امریکی استثنٰی ملنے کے امکانات زیادہ تھے مگر اس موقع پر بھی پاکستان اپنی سودے بازی کی پوزیشن کو مروتاً استعمال نہ کر پایا۔

البتہ چار ماہ قبل پاکستان اور ایران کی قیادت نے جس چابک دستی سے تیزی سے بڑھتی ہوئی باہمی کشیدگی کو سنبھالا اور میڈیا نے جس طرح جلتی کو بڑھاوا دینے سے پرہیز کیا اور پھر کبھی اس کشیدگی کا حوالہ نہ دیا اس کی داد دینا تو بنتا ہے۔

ابراہیم رئیسی کی خواہش تھی کہ وہ پاکستانی پارلیمنٹ سے خطاب کریں بلکہ انھوں نے اپنے دورۂ لاہور میں بھی کھل کے کہا کہ وہ یہاں کے عوام سے براہِ راست بات کرنا چاہتے ہیں مگر وہ حالاتکی نزاکت کو سمجھ سکتے ہیں۔

شاید ان ہی کے کسی اہلکار نے انھیں سمجھا دیا ہو گا کہ یہاں پاکستانی عوام سے براہِ راست خطاب کی ایک مثال ہے جب صدر بل کلنٹن 25 مارچ دو ہزار کو پانچ گھنٹے کے لیے امریکی سکیورٹی اہلکاروں کے محاصرہ زدہ اسلام آباد میں دلی سے اس شرط پر تشریف لائے تھے کہ پرویز مشرف سے ہاتھ ملانے کی کوئی تصویر نہیں بنے گی اور پھر وہ پاکستانی ٹی وی پر اپنی نشری تقریر میں دہشت گردی کے موضوع پر ڈانٹ ڈپٹ کر کے روانہ ہو گئے۔

بہرحال معزز ایرانی صدر کے دورے سے لاہور اور کراچی کو فوری فائدہ تو یہ ہوا کہ صوبائی حکومتوں نے دونوں شہروں کے عوام کو ’بے آرامی‘ سے بچانے کے لیے ایک دن کی کاروباری چھٹی دے دی۔ تاجر پکار رہے ہیں کہ کاروباری سرگرمی کو اس چھٹی سے جتنا نقصان ہوا۔ وہ پاک ایران سالانہ تجارت کے حجم سے بھی زیادہ ہے۔

ٹریفک جام میں پھنسے ایک بدتمیز کا تو یہ تک کہنا تھا کہ کیا فائدہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ایجنسیوں پر اربوں روپے سالانہ خرچ کرنے کا اگر صرف ایک غیر ملکی مہمان کی سلامتی کے لیے دو بڑے شہر مکمل طور پر بند کرنے پڑ جائیں۔

ہم اپنے معزز مہمان سے پھر بھی درخواست کریں گے کہ بے لوث دوستی کے درمیان لین دین کی باتیں کیسی۔ اگلی بار تشریف لایے تو ہمارے وزیرِ اعظم نسبتاً درست لب و لہجے اور صحت کے ساتھ دو سے زائد فارسی اشعار یاد کرکے آپ کو پہلے سے زیادہ محظوظ کرنے کی کوشش کریں گے۔ تب تک پاک ایران دوستی پائندہ باد میں جتنی فارسی ہے اسی پر صبر کیجیے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.