مبارک زیب: باجوڑ میں قد آور سیاسی شخصیات کو چھوڑ کر لوگوں نے ایک نوجوان کو کیوں منتخب کیا

اس نوجوان نے نہ صرف پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار کو شکست دی بلکہ اگر دیکھا جائے تو وہ ایک سابق گورنر اور چار سابق ارکان قومی اسمبلی سے مدمقابل تھے۔

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے باجوڑ میں ضمنی انتخاب میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں پر ایک ایسا نوجوان کامیاب ہوا ہے جس کا تعلق کسی سیاسی خاندان سے ہے نہ ان کے پاس سیاست کا تجربہ ہے۔

26 سالہ مبارک زیب نے سابقہ قبائلی علاقے میں قومی اسمبلی (این اے 8) اور صوبائی اسمبلی (پی کے 22) کی دونوں نشستوں پر واضح برتری سے کامیابی حاصل کی ہے۔ اگرچہ انھوں نے اپنی انتخابی مہم میں سابق وزیر اعظم عمران خان کا نام اور تصویر استعمال کی تاہم وہ پی ٹی آئی کی حمایت کے بغیر ہی بطور آزاد امیدوار جیت گئے۔

8 فروری کے عام انتخابات سے کچھ روز قبل این اے 8 باجوڑ کے امیدوار ریحان زیب کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا جس کی وجہ سے اس حلقے میں الیکشن ملتوی کر دیا گیا۔

اب ان کے بھائی مبارک زیب نے الیکشن جیت کر ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک پیغام میں لکھا ہے کہ ’آج کوئی ضرور جنت سے مسکرا رہا ہوگا۔‘

اس نوجوان نے نہ صرف پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار کو شکست دی بلکہ اگر دیکھا جائے تو وہ ایک سابق گورنر اور چار سابق ارکان قومی اسمبلی سے مدمقابل تھے۔ ان میں سابق گورنر انجینیئر شوکت اللہ، سابق اراکین قومی اسمبلی پی ٹی آئی کے گل ظفر خان، پاکستان مسلم لیگ ن کے ملک شہاب الدین، جماعت اسلامی کے صاحبزادہ عبدالرشید اور پاکستان پیپلز پارٹی کے اخونزادہ چٹان شامل ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شوکت یوسفزئی کا کہنا ہے کہ ’ہماری جماعت کی نااہلی ہے، غفلت ہے۔ ہم نے زمینی حقائق کو مکمل نظر انداز کر دیا تھا اور ریحان زیب کے بھائی کو ٹکٹ نہ دے کر ہم نے بہت بڑی غلطی کی اور جماعت کو اس بارے میں سوچنا چاہیے۔‘

مبارک زیب کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان نوجوان کو بظاہر کسی بڑی سیاسی جماعت کی حمایت حاصل نہیں تھی لیکن انھیں ووٹ دینے لوگ دور، دور سے آئے ہیں۔

انھوں نے قومی اسمبلی کی یہ نشست پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے امیدوار سے لگ بھگ ستائیس ہزار ووٹوں کی برتری سے جیتی ہے۔

اتوار کی رات جب پولنگ سٹیشنز پر گنتی کی جا رہی تھی تو ابتدائی نتائج میں مبارک زیب کی کامیابی کے آثار واضح نظر آ رہے تھے۔ مبارک زیب کو نوجوانوں نے اکیلا نہیں چھوڑا بلکہ ان کے ساتھ ساتھ رہے۔ مبارک زیب سے مقامی صحافیوں کا ملنا بھی مشکل ہوگیا تھا۔

سوموار کی صبح مبارک زیب نے ایک عمارت کی چھت سے ہاتھ ہلا کر لوگوں کے اجتماع کا شکریہ ادا کیا۔

قبائلی علاقے باجوڑ میں ضمنی الیکشن کے لیے نوجوان انتہائی متحرک نظر آئے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مبارک زیب کی انتخابی مہم نوجوانوں نے ہی چلائی۔

https://twitter.com/MubarakZeb22/status/1782279272280768827

مقتول ریحان زیب کے چھوٹی بھائی مبارک زیب

مبارک زیب 1998 میں پیدا ہوئے اور انھوں نے ایف اے تک تعلیم حاصل کی ہے۔

مقامی لوگوں کے مطابق وہ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک چھوٹے اور کچے گھر میں رہتے ہیں۔ ان کے بڑے بھائی محنت مزدوری کرتے ہیں۔

مبارک کے بڑے بھائی ریحان زیب اپنے علاقے میں ایک متحرک سیاسی کارکن تھے اور وہ پاکستان تحریک انصاف کا بڑا اثاثہ تھے۔ ریحان نے انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کی تھی اور وہ اپنے علاقے کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے۔

ریحان زیب کو فروری میں منعقد ہونے والے عام انتخابات سے چند روز قبل نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔

انھوں نے قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ وہ علاقے میں اس سے قبل رائج ای سی آر کے قانون کے سخت مخالف تھے۔

انھوں نے باجوڑ میں پاکستان تحریک انصاف کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ مقامی لوگوں کے مسائل کے حل کے لیے پیش پیش رہتے تھے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ مبارک زیب کی کامیابی میں بھی بڑا حصہ ریحان زیب کا ہی ہے جنھوں نے علاقے میں بہت کام کیے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

قبائلی علاقے میں ایک نوجوان ہی ووٹرز کی ترجیح کیوں؟

ان انتخابات سے پہلے باجوڑ کے کم ہی لوگ ہوں گے جو مبارک زیب کو جانتے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ مقامی صحافی بھی ان کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔ بس انھیں یہ معلوم ہے کہ مبارک زیب ایک نوجوان ہے جو ریحان زیب کا چھوٹا بھائی ہے۔

ان کے مقابلے میں بڑی سیاسی جماعتوں کی قد آور شخصیات میدان میں تھیں لیکن لوگوں نے ایک نوجوان کو ہی ووٹ کیوں دیا۔‘

مقامی صحافی فضل الرحمان نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اس الیکشن کی کوریج کے لیے مختلف پولنگ سٹیشنز میں گئے جہاں دور دور سے لوگ ووٹ ڈالنے آئے تھے۔

انھیں ایک پولنگ ایجنٹ نے بتایا کہ بعض لوگوں نے آ کر اس نوجوان امیدوار کا نام پوچھا جن کے بھائی کو قتل کیا گیا۔

صحافی فضل حکیم نے بتایا کہ دوردراز علاقے میں ایک پولنگ سٹیشن میں انھوں نے ایک بوڑھی خاتون کو دیکھا جو بڑی مشکل اور تکلیف میں آئیں تاکے ریحان زیب کے بھائی کو ووٹ دے سکیں۔

ان صحافیوں کے مطابق لوگوں نے اظہار ہمدردی کے لیے بھی مبارک زیب کو ووٹ دیا۔

پشاور کے بورڈ بازار میں باجوڑ سے تعلق رکھنے والے تاجر اس بارے میں بات چیت کر رہے تھے۔ ایک نے بتایا کہ اس نے دکان اس لیے بند کی کیونکہ وہ باجوڑ میں مبارک زیب کو ووٹ ڈالنے گئے تھے۔

باجوڑ کے ایک شہری مصباح نے بتایا کہ یہ حیران کن بات تھی کہ اس مرتبہ مختلف علاقوں میں رہائش پذیر باجوڑ کے لوگ ووٹ ڈالنے پہنچے ہیں۔

مقامی صحافی فضل الرحمان نے بتایا کہ انھیں ایک ووٹر نے بتایا کہ وہ ظلم کا مقابلہ ووٹ کے ذریعے لیں گے کیونکہ ’ریحان زیب کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا اور کسی نے اس قتل میں ملوث افراد کی گرفتاری یا انھیں سزا دینے کے لیے کوئی کوششیں نہیں کیں بلکہ تمام اپنے، اپنے مقاصد کے لیے سیاست کر رہے ہیں۔‘

کیا یہ پی ٹی آئی کی ’نالائقی‘ ہے؟

باجوڑ کے اس ضمنی انتخاب میں جیتنے اور دوسرے نمبر پر آنے والے دونوں امیدواروں کو ووٹ پاکستان تحریک انصاف کے نام پر ہی ملا۔ دونوں امیدوار سابق وزیر اعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان کا نام اور تصاویر استعمال کرتے رہے ہیں جبکہ صوبائی اسمبلی کے انتخاب میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار تیسرے نمبر پر آئے ہیں جبکہ جماعت اسلامی کے امیدوار دوسرے نمبر پر رہے ہیں۔

حیران کن بات یہ ہے کہ عام لوگوں کے جذبات اور حمایت ریحان زیب کے بھائی مبارک زیب کی جانب تھی۔ اس دوران پی ٹی آئی نے موقف اپنایا کہ صرف گل ظفر ان کے حمایت یافتہ امیدوار ہیں۔

اس بارے میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ جماعت کی پالیسی رہی ہے کہ وہ قائدین یا سابق اراکین اسمبلی جو مشکل وقت میں جماعت کے ساتھ کھڑے رہے ہیں ان انتخابات میں ٹکٹ انھیں امیدواروں کی دی جائے گی اور باجوڑ میں گل ظفر اور صوبائی اسمبلی کے لیے گل داد کو ٹکٹ دیے گئے۔

شوکت یوسفزئی کے مطابق یہ پارٹی کی ’نالائقی‘ ہے کہ وہ زمینی حقائق کو جانچ نہیں سکے حالانکہ تمام اشارے اسی طرف تھے کہ نوجوان مبارک زیب کی حمایت کر رہے ہیں اور انھیں ہمدردی کا ووٹ بھی مل رہا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ قائدین کے اس فیصلے پر تنقید بھی کی جا رہی ہے اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جماعت کتنی سنجیدگی سے اس طرح کے فیصلے کر رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دونوں جانب ہی ووٹرز پی ٹی آئی کے تھے اور مبارک زیب نے کہا تھا کہ وہ یہ نشستیں جیت کر پی ٹی آئی کو تحفے میں دیں گے۔

اگرچہ ضمنی انتخابات کے نتائج کے حوالے سے بڑے پیمانے پر سیاسی جماعتیں زیادہ فکر مند نہیں ہوتیں لیکن اس وقت پی ٹی آئی کو ایسے کامیاب امیدواروں کی ضرورت ہے جو سنی اتحاد کونسل کی ٹکٹ پر کامیاب ہوں اور اس کی بنیاد پر وہ مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے کوششیں تیز کر سکیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.