حماس کے حملے کو روکنے میں ناکامی کا اعتراف، اسرائیلی فوج کے انٹیلیجنس سربراہ اپنے عہدے سے مستعفی

اسرائیلی فوج کے انٹیلیجنس سربراہ کا کہنا ہے کہ وہ حماس کے سات اکتوبر کے حملے کو روکنے میں ناکامی کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔

اسرائیلی فوج کے انٹیلیجنس سربراہ کا کہنا ہے کہ وہ حماس کے سات اکتوبر کے حملے کو روکنے میں ناکامی کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔

اسرائیلی دفاعی فورسز (آئی ڈی ایف) کا کہنا ہے کہ میجر جنرل اہارون ہالیوا اپنے جانشین کے انتخاب کے بعد ریٹائر ہوجائیں گے۔

ایک خط میں ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی انٹیلیجنس پر ’جس کام کے لیے اعتماد ظاہر کیا گیا وہ اسے نبھانے میں ناکام رہی۔‘

حماس کے حملے کے بعد پہلی بار اسرائیلی فوج کے کسی سینیئر عہدیدار نے استعفی دیا ہے۔

اسرائیلی فوج اور انٹیلیجنس کے اہلکاروں نے حماس کے ممکنہ حملے کے حوالے سے وارننگز کو نظر انداز کیا۔ حماس کے مسلح جنگجوؤں نے سات اکتوبر کو غزہ کی سرحد عبور کر کے اسرائیلی کمیونٹی، فوجی اڈے اور میوزک فیسٹیول پر حملہ کیا تھا۔

اس حملے میں 1200 اسرائیلی اور غیر ملکی افراد (جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی) ہلاک ہوئے۔ اسرائیلی حکام کے مطابق حماس نے 253 افراد کو یرغمال بنایا۔

اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ میں زمینی و فضائی جنگ کا آغاز کیا جس کا مقصد حماس کا ’نام و نشان مٹانا‘ اور یرغمالیوں کو آزاد کرانا تھا۔

غزہ میں اب تک 34 ہزار سے زیادہ شہری ہلاک ہوئے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ یہ اعداد و شمار حماس کے زیرِ انتظام فلسطینی وزارت صحت کے فراہم کردہ ہیں۔

بنیامن نیتین یاہو
Reuters

امریکہ کی جانب سے اسرائیلی فوج پر پابندیوں کا خدشہ: میں اپنی پوری طاقت کے ساتھ مقابلہ کروں گا، نتن یاہو

اسرائیل کے وزیراعظم بنیامن نتن یاہو نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ ملک کی فوج پر عائد کسی بھی قسم کی پابندیوں کو مسترد کر دیں گے۔

اُن کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ امریکی انتظامیہ اسرائیلی فوج کی ایک یونٹ کو فراہم کی جانے والی فوجی امداد پر پابندی لگانے کا سوچ رہی ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم نے اتوار کے روز کہا کہ ’میں اپنی پوری طاقت کے ساتھ ان حالات کا مقابلہ کروں گا۔‘

اس سے قبل ایکسیوس نیوز کی ویب سائٹ پر یہ خبر دی گئی کہ امریکہ مقبوضہ مغربی کنارے میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر اسرائیل کی ’نیتزہ یہودا بٹالین‘ کو پابندیوں کی صورت میں نشانہ بنائے گا۔

بی بی سی کا خیال ہے کہ اس پابندی کا اثر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث دیگر غیر ملکی یونٹس کی امداد پر بھی ہوگا، یعنی وہ بھی اسی پابندی کے دائرے میں آئیں گی۔

گزشتہ ہفتے جب ان اطلاعات کے بارے میں پوچھا گیا تھا کہ مقبوضہ مغربی کنارے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات پر اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) کی یونٹس کو دی جانے والی امریکی فوجی امداد میں کٹوتی کی جا سکتی ہے؟ تو امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا تھا کہ ’میں نے اس بارے میں سوچ بچار کی ہے اور فیصلہ کر لیا ہے، جس کے بارے میں آپ آنے والے دنوں جان سکیں گے۔‘

اسرائیل کے اہم اتحادی واشنگٹن نے اس سے قبل کبھی بھی آئی ڈی ایف یونٹ کی امداد معطل نہیں کی۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اُن کی فوج کی بٹالین ’نیتزہ یہودا‘ بین الاقوامی قوانین کے مطابق کام کرتی رہی ہے۔

اسرائیل کے وزیر دفاع یواو گیلنٹ نے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ’نیتزہ یہودا‘ پر پابندی عائد کرنے کا اپنا ارادہ ترک کر دے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ دنیا امریکہ اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو پہلے سے کہیں زیادہ قریب اور توجہ سے دیکھ رہی ہے۔‘

یواو گیلنٹ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’یونٹ پر تنقید کی کسی بھی کوشش سے آئی ڈی ایف کے اقدامات پر بُرے اثرات پڑیں گے، دوستوں اور شراکت داروں کے درمیان ایسے اقدامات درست اور مناسب نہیں۔‘

سنیچر کے روز ایکسیوس نیوز نے تین امریکی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ انھیں ایسا لگتا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ بلنکن چند دنوں کے اندر ’نیتزہ یہودا‘ کے خلاف اقدامات کا اعلان کریں گے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’یہ اقدام مغربی کنارے میں مبینہ زیادتیوں پر کیا جائے گا، جس میں جنوری 2022 میں مغربی کنارے میں تلاشی کے دوران اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں ایک فلسطینی نژاد امریکی شہری عمر اسد کی موت کا واقعہ بھی شامل ہے۔‘

اس وقت امریکہ نے اس معاملے میں ’مکمل مجرمانہ تحقیقات اور مکمل احتساب‘ کا مطالبہ کیا تھا۔

بعد ازاں آئی ڈی ایف نے کہا کہ ’انھیں اسد کی موت پر افسوس ہے اور اس پر ’نیتزہ یہودا‘ کے کمانڈر کی سرزنش کی گئی۔‘ اس میں مزید کہا گیا کہ ’دو فوجیوں کو دو سال تک سینیئر عہدوں پر خدمات انجام دینے سے روک دیا گیا لیکن ان پر مقدمہ نہیں چلایا جائے گا۔‘ بیان میں آگے چل کر کہا گیا کہ ’اسد کی موت پہلے سے موجود طبی حالت کی وجہ سے ہوئی۔‘

تاہم اسد کے اہل خانہ، جن میں سے زیادہ تر امریکہ میں مقیم ہیں، نے مقدمے پر کارروائی کے روکے جانے کے فیصلے کی مذمت کی۔

یہ تمام مبینہ خلاف ورزیاں 7 اکتوبر کو غزہ کی پٹی سے اسرائیل پر حماس کے حملے سے قبل ہوئیں۔

آئی ڈی ایف یونٹ کو امریکی فوجی امداد سے روکنے کا کوئی بھی فیصلہ ’لیہی لا‘ کے تحت کیا جائے گا، جسے 1997 میں اس وقت کے سینیٹر پیٹرک لیہی نے بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

واضح رہے کہ یہ قانون انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث غیر ملکی فوجی یونٹس کے لیے امریکی فنڈنگ یا تربیت کے استعمال کی جانے والی امداد کی ترسیل کو روکتا ہے۔

ایک سابق سینیئر امریکی عہدیدار نے بی بی سی کو بتایا کہ گزشتہ برس امریکی حکام کے ایک گروہ نے اسرائیلی یونٹس کے خلاف لگائے گئے کم از کم ایک درجن الزامات کا جائزہ لیا تھا، جن میں نیتزہ یہودا بٹالین بھی شامل تھی۔

امریکی اسلحے کی منتقلی کی نگرانی کرنے والے محکمہ خارجہ کے پولیٹیکل ملٹری افیئرز بیورو کے سابق ڈائریکٹر جوش پال کا کہنا تھا کہ ’ہمارا ماننا تھا کہ زیادہ تر کیسز میں ان کا ازالہ نہیں کیا گیا اور دوسرے لفظوں میں مجرموں کا مناسب طریقے سے احتساب نہیں کیا گیا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’جب ہم نے ان سفارشات کو وزیر خارجہ کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی تو ہم انھیں سیاسی سطح پر کبھی بھی توجہ حاصل نہیں ہوئی۔

پال نے نومبر میں اسرائیل کو ہتھیاروں کی منتقلی پر احتساب کے فقدان پر احتجاجاً اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا انھوں نے جن سفارشات کا ذکر کیا وہ بلنکن کی میز تک پہنچیں، انھوں نے حالیہ میڈیا رپورٹس کا حوالہ دیا جن میں کہا گیا تھا کہ ایسا ہوا ہے۔

یاد رہے کہ سنہ 1999 میں قائم ہونے والی ’نیتزہ یہودا بیٹالین‘ صرف مردوں کے لیے ایک خصوصی یونٹ ہے جہاں الٹرا آرتھوڈوکس یہودی خدمات انجام دیتے ہیں۔

اسی بارے میں


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.