نائن الیون سے قبل امریکہ میں دہشتگردی کا سب سے بڑا حملہ جس میں سابق فوجی ملوث تھے

یہ حملہ حکومت مخالف انتہا پسندانہ عقائد سے متاثر ہو کر کیا گیا تھا اور اس بم دھماکے میں 168 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔ اس وقت تک یہ امریکہ میں دہشت گردی کا سب سے مہلک حملہ تھا۔ یہ امریکی سرزمین پر کسی امریکی کی طرف سے کیا گیا آج تک کا سب سے ہولناک حملہ ہے۔

انتباہ: اس مضمون میں بیان کی گئی تفصیلات قارئین کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہیں

19 اپریل 1995 کو ابھی دن کا آغاز ہوا ہی تھا۔ لوگ معمول کے مطابق اپنے کام کاج پر جا رہے تھے کہ امریکی فوج کے ایک سابق اہلکار نے اوکلاہوما سٹی کے ایک وفاقی دفتر کی عمارت کے باہر دھماکہ خیز مواد سے بھرا ہوا کرائے کا ایک ٹرک لا کر کھڑا کیا اور موقع سے فرار ہونے سے قبل اسے اڑا دیا۔

یہ حملہ حکومت مخالف انتہا پسندانہ عقائد سے متاثر ہو کر کیا گیا تھا اور اس بم دھماکے میں 168 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔ اس وقت تک یہ امریکہ میں دہشت گردی کا سب سے مہلک حملہ تھا۔ یہ امریکی سرزمین پر کسی امریکی کی طرف سے کیا گیا آج تک کا سب سے ہولناک حملہ ہے۔

بی بی سی نے اس ہولناک بم دھماکے کی کہانی ان پانچ افراد کے ذریعے بیان کرنے کی کوشش کی ہے جن کی زندگیوں کو اس واقعے نے ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا۔

یہ امریکہ میں ایک خوبصورت بہار کی صبح تھی۔

اوکلاہوما کے ایک پولیس افسر اور میڈیکل ٹیکنیشن کیون میک کلو اپنی چھٹی والا دن گزارنے کے لیے ایک مقامی چرچ میں بچوں کے ایک گروپ سے بات کرنے کے لیے جا رہے تھے۔ ایک مقامی ٹیلی ویژن رپورٹر، رابن مارش دن کی خبروں سے متعلق منصوبہ بندی کے لیے ایک دفتری میٹنگ میں تھیں۔

فائر فائٹر کرس فیلڈز اور ان کے ساتھی اپنا بدھ کا دن فائر سٹیشن میں دیکھ بھال کے کاموں میں گزارنے کی تیاری کر رہے تھے۔ انھوں نے ابھی دوسرے فائر فائٹرز کے ایک گروہ کو 24 گھنٹے کی شفٹ سے فارغ کیا تھا اور وہ خود کچھ ناشتہ کرنے کی تیاری میں تھے۔

آرین المون جو خود تو الفریڈ پی مرہ نامی عمارت میں کام نہیں کرتی تھی لیکن قریب ہی رہتی تھیں۔ وہ ایک نو منزلوں پر مشتمل کنکریٹ سے بنی سرکاری دفاتر کی عمارت تھی۔ جہاں روزانہ کم از کم 500 سے زیادہ ورکرز موجود ہوتے تھے۔

اس عمارت کی دوسری منزل پر ’امپریکاز کڈز‘ کے نام سے ایک ڈے کیئر سنٹر بھی تھا۔ 19 اپریل 1995 کی صبح آرین نے چھ میل دور اپنی نئی نوکری پر جانے سے پہلے اپنی بیٹی کو وہاں چھوڑا تھا۔ ان کی بیٹی بیلی نے ایک دن پہلے اپنی پہلی سالگرہ منائی تھی۔

امریکہ، حملہ، 1995
Getty Images
نو منزلوں پر مشتمل کنکریٹ سے بنی سرکاری دفاتر کی عمارت تھی جہاں روزانہ کم از کم 500 سے زیادہ ورکرز موجود ہوتے تھے

روتھ شواب جو پانچ بچوں کی ماں تھیں، کے لیے اس دن بچوں کو سکول چھوڑنا معمول سے زیادہ آسان رہا تھا۔ وہ اس دن معمول سے پہلے 09:00 بجے ہی محکمہ برائے ہاؤسنگ اینڈ اربن ڈیویلپمنٹ میں اپنے کام پر پہنچ گئی تھی۔ وہ ابھی دفتر پہنچ کر اپنی میز پر بیٹھی ہی تھی اور اپنا کمپیوٹر آن کرنے لگی تھیں کہ ایک دم زور دار دھماکہ ہوا۔

انھوں نے اپنی زندگی میں اس سے زور دار دھماکہ نہیں سنا تھا۔ ہزاروں کلو کھاد اور فیول پھٹ گیا تھا جس نے ایک اس قدر شدید دھماکہ کیا تھا جو نو منزلہ عمارت کو چیر گیا۔

دھماکہ اتنا شدید تھا کہ اس نے عمارت کے شمالی حصے کو مکمل طور پر تباہ کر دیا۔ عمارت کا یہ حصہ ایک گڑھے میں کنکریٹ کا ڈھیر بن گیا۔ آس پاس کھڑی کاریں آگ کے شعلوں میں لپٹی ہوئی تھیں، جس سے شہر کی فضاؤں میں سیاہ دھواں پھیل رہا تھا۔

اس وقت کی آخری چیز جو روتھ کو یاد ہے وہ یہ تھی کہ انھیں محسوس ہو رہا تھا کہ وہ لڑکھڑا رہی ہیں اور نیچے کی طرف کسی اندھے گڑھے میں گر رہی ہیں۔

آس پاس میلوں تک، اوکلاہوما میں عمارت لرز اٹھی، فائر سٹیشن کی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے اورکیون کی ایمبولینس ہل کر رہ گئی تھی۔

یہ بدھ کی صبح نو بج کر دو منٹ کا وقت تھا اور اوکلاہوما شہر پھر کبھی بھی پہلے جیسا نہیں رہا تھا۔

کرس فیلڈز اور سٹیشن فائیو کے باقی اہلکار دھماکے کی آواز سن کر باہر بھاگے۔ اتنی قریب سے دھواں دیکھ کر انھیں علم تھا کہ انھیں مدد کے لیے کہا جائے گا۔ وہ فوراً اپنے فائر ٹرکوں کو لے کر اندرون شہر کی جانب دوڑے اور راستے میں اڑتے ہوئے شیشے اور ملبے سے زخمی ہونے والے لوگوں کی مدد کی۔

کرس نے جائے وقوعہ پر پہنچنے کی اپنی یادوں کے بارے میں کہا کہ ’میں شاید وہاں زیادہ دیر کھڑا نہیں رہا، لیکن مجھے ایسا لگا جیسے میں سب کچھ سلو موشن میں دیکھ رہا ہوں۔ ملبہ اس وقت بھی آسمان سے گر رہا تھا اور اس عمارت کو اس حالت میں دیکھنا آج بھی ایک خوفناک منظر ہے۔‘

امدادی ٹیموں کو فوری امداد کی کالیں موصول ہوئی، کیون نے فورا اپنی ایمبولینس کا رخ موڑا اور چند میل کے فاصلے پر موجود مرہ کی عمارت کی جانب لپکے۔ وہاں پہنچتے ہی سب سے پہلے ان کا سامنا ہوا میں موجود نائٹریٹ کی بو سے ہوا۔ اس بم دھماکے نے اوکلاہوما کی فضا کو بارود کی بو سے بھر دیا تھا۔

امریکہ دھماکہ
Getty Images
آرین نے اپنی بیٹی بیلی کی ایک دن پہلے پہلی سالگرہ منائی تھی

کیون یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’وہاں ہر طرف افراتفری تھی۔ کچھ لوگ سکتے کی حالت میں گھبرائے کھڑے تھے اور انھیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہوا ہے۔ باقی افراد خون اور گرد میں لپٹے اس تباہی سے نکل رہے تھے۔‘

جب روتھ شواب کو ہوش آیا تو وہ اپنے دفتر کے فرش پر تھیں۔ وہ اس جانب تھیں جہاں بم پھٹا تھا اور ان کے چہرے پر زخم آئے تھے۔ وہ اس دن کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’میں دھویں کو سونگھ سکتی تھی اور میں رونے اور کراہنے کی آوازیں سن رہی تھی۔‘ وہ کہتی ہیں کہ جب آپ اندھے ہو جاتے ہیں اور کچھ بھی نہیں دیکھ سکتے تو آپ نہیں جانتے کہ کسی کی مدد کیسے کی جائے۔

انھوں نے آواز دے کر پوچھا کہ وہاں کوئی ہے تو ان کے ایک دوست نے جواب دیا اور انھیں خبردار کیا کہ وہ وہاں سے حرکت نہ کریں۔ روتھ دیکھ نہیں سکتی تھی لیکن ان کے ارد گرد ملبہ بکھرا تھا اور وہ اس جگہ سے صرف ایک فٹ کی دوری پر تھی جہاں سے آٹھوں منزل کا حصہ منہدم ہو گیا تھا۔

ان کے دوست نے ان کی مدد کی اور انھیں بٹھایا اور حسن سلوک کا اظہار کرتے ہوئے انھیں رومال دیا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’یہ اس کا بہت پیارا عمل تھا، وہ انتہائی اچھا شخص تھا، لیکن میرے چہرے پر 200 ٹانکے لگے تھے ایسے میں رومال میرے کسی خاص کام کا نہیں تھا۔‘

امریکہ دھماکہ
Getty Images
یہ حملہ حکومت مخالف انتہا پسندانہ عقائد سے متاثر ہو کر کیا گیا تھا اور اس بم دھماکے میں 168 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے

دوسری طرف مقامی خبروں میں چند ہی منٹوں میں اس دھماکے کے متعلق اطلاعات آنا شروع ہو گئیں تھیں۔

سی بی ایس سے وابستہ مقامی نیوز چینل کے ڈبلیو ٹی وی جہاں رابن مارش کام کرتی تھیں یہ خبر دینے والا پہلا چینل تھا۔

دھماکے کی شدت کے باعث ٹی وی نیٹ ورک کے عملے کو اپنے دفتر کی عمارت دس میل دور تک ہلتی محسوس ہوئی لہذا انھوں نے فوراً اپنے نیوز ہیلی کاپٹر جو پہلے ہی کسی اور خبر کے لیے محو پرواز تھا کو جائے وقوعے پر جانے کے لیے کہا۔

اس نے جو فوٹیج بنائی تھا اور پھر جس طرح انھوں نے اس پر اس بلڈنگ کے مقام کو دائرہ لگا کر واضح کیا اس نے سب کو ہلا کر رکھ دیا تھا کیونکہ مرہ بلڈنگ کے مقام پر ایک بہت بڑا گڑھا بن گیا تھا۔

ٹی وی چینل نے فوراً تمام موجود رپورٹروں کو جائے وقوع پر بھیجا۔

شہر کے دیگر لوگوں کی طرح آرین نے بھی دھماکے کو میلوں دور محسوس کیا تھا۔ یہ دھماکہ بادلوں کی گرج کی طرح لگا تھا، لیکن اوکلاہوما سٹی کا آسمان چمکدار نیلا تھا۔ انھوں نے سوچا شاید یہ کسی عمارت کو گرایا گیا ہو گاکیونکہ شہر میں ہر وقت کوئی نہ کوئی تعمیراتی کام جاری رہتا تھا۔

مگر جب ان کے ساتھیوں نے بتایا کہ یہ ایک دھماکہ تھا تو آرین بریک روم میں ٹیلی ویژن دیکھنے گئیں اور وہاں انھوں نے ہیلی کاپٹر کی فوٹیج دیکھی، یہ تو وہ ہی عمارت تھی جہاں انھوں نے اپنی بیٹی کو چھوڑا تھا جو اب کھنڈر بن چکی تھی۔

آرین نے فوراً اپنے والدین کو اطلاع دی اور ان کا ایک ساتھی انھیں جتنی جلد از جلد ممکن تھا گاڑی چلا کر جائے وقوعے پر لے گیا۔ جب وہ عمارت پر پہنچے تو آرین اور اس کے اہل خانہ کو وہاں ہر طرف افراتفری کا منظر ملا۔

اوکلاہوما سٹی کا اندرون شہر ایک وار زون لگ رہا تھا، دھماکے سے متعدد عمارتوں کو نقصان پہنچا تھا۔

آرین کہتی ہیں کہ ’مجھے یاد ہے کہ عمارت کے سامنے کی طرف چلتے ہوئے میں نے ہر طرف لوگوں کو خون سے لت پت دیکھا تھا، میں حیران تھی کہ وہاں سے کوئی زندہ بھی نکلا ہے۔‘

کسی کے پاس بھی ان کے سوالوں کے جواب نہیں تھے۔ لہذا وہ مقامی ہسپتالوں کی طرف دوڑی تاکہ اپنی وہ بیٹی بیلی کو وہاں تلاش کر سکیں۔

دھماکے کے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد کرس فیلڈز کے ریڈیو پر ایک پیغام آیا کہ وہ وہاں سے نکل جائیں۔ انھوں نے سوچا کہ شاید وہاں ایک اور بم مل گیا ہے۔

وہ کہتے یں کہ ’ میرے خیال میں اس وقت سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور جیسے سوال کیا کہ ’تمہارا ایک اور بم سے کیا مطلب ہے؟ اس وقت تک ہمیں یہ نہیں پتا تھا کہ یہ ایک بم دھماکہ ہے۔‘

امریکہ دھماکہ
Getty Images

زیادہ تر افراد نے یہ سمجھا تھا کہ یہ قدرتی گیس کے اخراج سے ہونے والا دھماکہ یا حادثہ تھا۔ کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایسا جان بوجھ کر کیا گیا ہو گا۔ کیونکہ یہ نیویارک یا واشنگٹن ڈی سی نہیں تھا بلکہ یہ 450,000 مذہبی افراد کی آبادی والا اوکلاہوما سٹی تھا۔

بم کی اطلاع ملتے ہی لوگ جائے وقوعہ سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ ان میں رپورٹر رابن مارش بھی تھیں جو لائیو نشریات کر رہی تھی جب ایک اہلکار ان کی طرف بھاگا اور انھیں وہاں سے نکلنے کا کہا۔

وہ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’آپ وہاں کمپوزڈ رہنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن میں سوچ رہی تھیں کہ مجھے اپنے اینکرز کے پاس واپس جانے کی ضرورت ہے اور یہاں سے نکلنے کی ضرورت ہے۔‘

جیسے جیسے اس واقعے سے متعلق خبریں اور افراتفری پھیلی، مقامی نیوز سٹیشن معلومات کا ایک اہم ذریعہ بن گئے۔ انھوں نے لوگوں کو بتایا کہ کس کو فون کرنا ہے اور مدد کے لیے کہاں جانا ہے۔ لیکن اوکلاہوما سٹی جیسی جگہ پر یہ سانحہ ایسے تھا جیسے گھر میں ہوا ہے۔ رپورٹنگ کرنے والوں میں سے کچھ، جن میں رابن بھی شامل تھیں اس دن میں کئی جاننے والے لوگوں کو کھو چکے تھے۔

دن ساڑھے دس بجے تک روتھ شواب ہسپتال پہنچ چکی تھیں۔ انھوں نے پہلے تو عمارت سے باہر نکلنے کی کوشش کی تھی لیکن ملبے سے بھری سیڑھیوں کے باعث انھیں بالآخر ایک ریسکیو کرنے والے شخص باہر لے کر آیا۔ روتھ ابھی تک اندھی تھیں اور ڈاکٹر ان کی آنکھیں بچانے کی کوشش میں تھے۔

دوسرے بم کی اطلاع سے قبل تک کیون میک کلوچ نے عمارت کے ارد گرد کا جائزہ لیا اور دیکھا کہ تمام زخمی لوگ کہاں سے نکل رہے ہیں۔ اس سے پہلے انھیں قتل کے واقعات میں ہلاک ہونے والوں یا ٹریفک حادثات میں زخمی ہونے والوں کی مدد کی کالیں آتی تھی لیکن اس طرح کی تباہی انھوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔

کرس فیلڈز کہتے ہیں کہ ’فائر فائٹرز کا بنیادی کام تلاش اور بچاؤ تھا۔ آپ کوشش کریں اور ہر چیز کے لیے تیار رہیں لیکن اس وقت ہم اس نوعیت کے واقعے کے لیے تیار نہیں تھے۔‘ ایک موقع پر جب وہ عمارت کے گرد گھوم کر جائزہ لے رہے تھے ایک پولیس افسر اس کے سامنے ایک نازک حالت میں شیر خوار بچے کے ساتھ نمودار ہوا۔

ابتدائی طبی امداد کے تربیت یافتہ، کرس نے اس بچے کو طبی امداد دینے کی پیشکش کی۔ انھوں نے اس بچے کے گلے کو صاف کیا جو کنکریٹ یا ملبے کی دھول سے بند تھا اور اس کی سانس کی نالی کھولنے کی کوشش کی۔ لیکن اس دوران انھیں بچے کی کھوپڑی میں فریکچر بھی دکھائی دیا، بدقسمتی سے بچے کی زندہ ہونے کا کوئی امکان نہیں تھا۔

کرس چھوٹے سے بچے کے بے جان جسم کو ایمبولینس میں لے گئے۔ پیرامیڈیک نے کرس کی طرف دیکھا ان کی گاڑی پہلے ہی زخمیوں اور مرنے والوں سے بھری ہوئی تھی۔ اس کے فرش پر پہلے سے ہی لوگ موجود تھے اور باہر زمین پر پڑے ہسپتال منتقل کیے جانے کے انتظار میں تھے۔

کرس یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اور مجھے یاد ہے کہ اس نے مجھ سے کہا ’مجھے کمبل لانے دو کیونکہ ہم اس بچے کو زمین پر نہیں ڈالیں گے۔‘

فائر فائٹر جب کمبل آنے کا انتظار کر رہا تھا تو اس نے اس بچی کو پکڑا اور اس کی طرف دیکھا۔ کرس کا اپنا بیٹا اس بچی کی عمر کا تھا اور ان کے ذہن میں فوری اس بچی کے خاندان کے متعلق خیال آیا ’میں صرف اسے دیکھ رہا تھا اور یہ سوچ رہا تھا کہ آج کسی کی دنیا لٹ جانے والی ہے۔‘

اسے گھنٹوں تک اس کا احساس نہیں ہوا، لیکن دو فوٹوگرافروں نے اس عین اس لمحے کو قید کر لیا تھا۔ اوکلاہوما سٹی کے فائر فائٹر کی خاک اور خون میں لت پت بے جان بچی کو اٹھائے ہوئے کی تصویر اس دن سب سے مشہور ہوئی۔ وہ تصویر جسے ہم نے دوبارہ شائع نہ کرنے کے لیے فیصلہ کیا ہے، اس دن کے ظلم اور شہر کی بے گناہی دونوں کی عکاسی کرتی ہے۔

لیکن آرین المون کے لیے یہ نقصان علامتی سے زیادہ تھا۔ کرس نے ان کی بیٹی بیلی کو اٹھا رکھا تھا۔

اس دن ساری صبح وہ اور اس کے والدین ان کی بیٹی بیلی کے متعلق معلومات حاصل کرنے کی کوشش میں ہسپتالوں کے درمیان دوڑتے رہے تھے۔ اسی وقت بیلی کا معائنہ کرنے والا ماہر اطفال ڈاکٹر ایک کونے سے ایک پادری کے ساتھ نکلا اور آرین کا بدترین خوف حقیقت بن گیا۔

ایک سنگل مدر کے طور پر اس کی زندگی اپنی بیٹی کے گرد گھومتی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں 22 سال کی تھی، میرے ابھی دادا دادی بھی زندہ تھے۔ میرے خاندان میں کوئی بھی نہیں مرا تھا۔‘

بدھ کے روز یہ اطلاعات پھیل گئیں کہ بم دھماکے کا تعلق کسی بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم سے ہو سکتا ہے۔ لیکن آرین کو اس وقت اس بم دھماکے کا ذمہ دار کون تھا کی تفصیلات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے صرف اس حقیقت نے مار دیا تھا کہ میں صبح ایک بچے کے ساتھ اٹھی تھی اور اب بغیر اس کے بستر سونے جا رہی تھی۔‘

امریکہ دھماکہ
Getty Images

دن گزرتا گیا، صحافی رابن مارش ایک گرجا گھر میں چلی گئیں جہاں اہل خانہ اب بھ`چقی اپنے پیاروں کی تلاش میں تھے۔ وہ 18 گھنٹے کی سخت محنت کے بعد تقریبا 02:00 بجے گھر پہنچی۔

وہ یاد کرتی ہیں ’مجھے یاد ہے کہ میںشاور میں گئی تھی اور میں رونے لگی۔‘

کیون میکولو دن بھر بم دھماکے کی جگہ پر کام کرتے رہے اور متاثرین کی مدد کرنے کی کوشش کرتے رہے، انھیں پتا نہیں تھا کہ ان کی اہلیہ کو زچگی کی حالت میں ہسپتال لے جایا گیا ہے۔ ان کا چوتھا اور سب سے چھوٹا بچہ جارڈن پیدا ہوا۔

وہ کہتے ہیں ’عام طور پروالدین نومولود کے کے ساتھ وقت گزار رہے ہوتے ہیں خوش ہوتے ہیں لیکن میں بم دھماکے کی جگہ پر تھا اور دوسروں کو نقصان سے نمٹنے میں مدد کر رہا تھا۔‘

’میرے خیال میں اس چیز میرا لوگوں،خصوصاً والدین کے ساتھ بات چیت کرنا اور بھی مشکل بنا دیا، جنھوں نے اس دن اپنے بچوں کو کھویا تھا۔‘

بدھ کی شام تک مرنے والوں کی تعداد درجنوں تک پہنچ گئی تھی جبکہ سیکڑوں افراد زخمی اور لاپتہ تھے۔

اس رات ملبے سے نکالی گئی ایک 15 سالہ لڑکی زندہ بچ گئی تھی۔ اس کے بعد مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوا۔

حملے کی خبر پھیلتے ہی بیلی اور کرس کی تصاویر دنیا بھر میں پھیل گئیں۔

آرین کہتی ہیں کہ ’مجھے یاد ہے کہ میں اس دن گھر گئی تو سوچا میری ساتھ جو بدترین چیز ہو سکتی تھی وہ ہوگئی ہے۔ لیکن پھر میں اگلے دن بیدار ہوئی اور اخبار دیکھی۔‘

ان کی مردہ بیٹی کی تصویر سے نطر چرانا مشکل ہو گیا تھا۔ ’جب بھی میں سٹور پر جاتی تھی، تو وہ میگزینز صفحۃ اول پر ہوتی۔ میں ڈاکٹر کےپاس جاتی وہ وہاں بھی تھی۔ ہر ٹیلی ویژن شو میں، ہر نیوز سٹیشن پر، ٹی شرٹس پر ، کافی مگ پر۔ یہ ہر جگہ تھی اور یہ تباہ کن تھا۔‘

امریکہ دھماکہ
Getty Images

ان تصاویر میں سے ایک فوٹوگرافر، جس کا ورژن ایسوسی ایٹڈ پریس نیوز ایجنسی نے تقسیم کیا تھا، کو اس شوٹ کے لیے پلٹزر انعام سے نوازا گیا۔

آرین کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی دوسرے خاندانوں سے الگ محسوس کر رہی ہیں، جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ انھیں لگتا ہے کہ ان کے پیاروں کو بھلا دیا گیا ہے۔

آرین کہتی ہیں ’میرا دل دکھی ہے کہ وہ اس طرح دکھائی دی، میرا اس تصویر پر کوئی حق نہیں ہے۔ میں نہیں کہہ سکتی کہ یہ کیسے استعمال ہوتی ہے۔۔۔ جب آپمرتے ہیں توآپ کے حقوق ختم کر دیے جاتے ہیں۔‘

ہر سال آرین اپنی بیٹی بیلی کی سالگرہ پر خاندان کو کھانے پر بلاتی ہیں۔

فائر فائٹر جنھوں نےان کی بیٹی کو بچانے کی کوشش کی، ان کے قریبی دوست بن گئے۔ کرس فیلڈز کا کہنا ہے کہ’پچھتاوے کی کوئی منطق نہیں ہوتی۔ میں نے آرین کے لیے بہت زیادہ پچھتاوا محسوس کیا، اسے واقعی تصویر کی وجہ سے غم زدہ نہیں ہوتے رہنا چاہیے تھا، میں نے اس کے لیے خود کو کسی حد تک ذمہ دار محسوس کرتا ہوں۔‘

کرس اور دیگر فائر حکام نے پہلا دن زندہ بچ جانے والوں کی تلاش میں گزارا۔ لیکن کچھ دنوں کے بعد، یہ واضح ہو گیا تھا کہ اب آپریشن بحالی کی طرف مڑ گیا تھا۔ انھیں اس کیفیت سے نکلنے میں کئی سال لگ گئے جس سے وہ گزرے تھے۔

بم دھماکے کے آٹھ یا نو سال بعد وہ یاد پھر سے تازہ ہو گئی۔ وہ تالاب کی تعمیر میں کسی کی مدد کر رہے تھے، جب بارش شروع ہوئی۔ گیلے کنکریٹ کی بو انھیں19 اپریل 1995 میں واپس لے گئی۔

جیسے ہی اس دن اوکلاہوما شہر میں شام ہوئی، موسم بہار کی روشن صبح بارش میں بدل گئی۔ رپورٹر رابن مارش کا کہنا ہے کہ ’مجھے یاد ہے کہ کسی نے کہا تھا کہ ہمارے شہر کو جو کچھ ہوا ہے اس پرخدا اس وقت رو رہا ہے۔‘

پول کے واقعے کے بعد اگلے چند مہینوں میں کرس نے محسوس کیا کہ وہ کنٹرول کھو رہے ہیں۔

آخر کار انھوں نے مدد طلب کی اور ان میں پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر کی تشخیص ہوئی۔ وہ 31 سال کی سروس کے بعد 2017 میں اوکلاہوما فائر ڈپارٹمنٹ سے ریٹائر ہوئے تھے اور اب وہ امریکہ بھر کا سفر کرتے ہیں اور دماغی صحت کے بارے میں امدادی کارکنوں کو رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔

بم دھماکے کے بعد کے ہفتوں میں، کمیونٹی نے اپنے نقصان کا حساب لگایا۔ مرنے والوں میں سے کئی کی زندگی بدل گئی یا انھیں شدید چوٹیں آئیں۔ ایک خاتون کو ملبے سے نکالنے کے لیے ایک ڈاکٹر کو چاقو سے ان کی ٹانگ کاٹنی پڑی۔

روتھ ان لوگوں میں شامل تھیں جن کی بحالی میں کئی سال لگے۔ بم دھماکے کے تقریبا ایک ہفتےبعد ڈاکٹروں کو ان کی دائیں آنکھ نکالنی پڑی۔ ان کے چہرے پر درجنوں ٹانکے لگے ہوئے تھے اور ان کے جبڑے کو بند کرنا پڑا تھا۔

روتھ یاد کرتی ہیں کہ ’اپنی حالت کی وجہ سے، میں جنازوں میں نہیں جا پا رہی تھی، میرے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ ایک دن میں چار یا پانچ جنازوں میں جانا معمول کی بات نہیں ہے۔`

ان کے گھر والوں نے پہلے تو ٹیلی ویژن کی آواز بند رکھی اور بچ جانے والوں سے متعلق ان کے سوالوںپر بات بدلتے رہے۔ روتھ کہتی ہیں کہ ’میرا سب سے اچھا دوست ان آخری لاشوں میں سے ایک تھا جنہیں نکالا گیا تھا۔‘

آخریمتاثرین کو نکالنے میں ایک ماہ سے زیادہ کا وقت لگا۔ 23 مئی کو مرہ عمارت کی غیر مستحکم باقیات کو منہدم کرنے کے بعد ہی کچھ لاشیں ملی تھیں۔

جن لوگوں نے اپنے پیاروں کو کھویا انھیں انصاف کے حصول کے لیے برسوں انتظار کرنا پڑا۔ دو سال قبل ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہونے والے بم دھماکے کے بعد ابتدائی طور پر مشرق وسطیٰ کے دہشت گردوں پر شکوک و شبہات پیدا ہو گئے تھے۔ لیکن ایک وین کا ایک حصہ ملنے کے بعد، تفتیش کار آخر کار ٹموتھی میک ویگ کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

اس کے بعد وہ یہ جان کر حیران رہ گئے کہ وہ ہمیشہ حراست میں رہا تھا اور شہر سے فرار ہونے کے دوران غیر متعلقہ الزامات کی وجہ سے اسے حراست میں لیا گیا تھا۔ وہ اور فوج کے ایک سابق ساتھی ٹیری نکولس، جنھوں نے اپنے حکومت مخالف خیالات کا اظہار کیا تھا، پر اگست 1995 میں قتل اور سازش کے الزامات میں فرد جرم عائد کی گئی تھی۔

ایک تیسرے شخص نے وفاقی حکام کے ساتھ کم معاوضے پر کام کیا۔ لیکن اس حوالے سے آج بھی دائیں بازو کی وسیع تر سازش کے بارے میں سازشی نظریات موجود ہیں۔

میک ویگ کو 11 ستمبر 2001 کے حملوں سے تین ماہ قبل سزائے موت دی گئی تھی، جس نے اوکلاہوما بم دھماکے کی امریکی سرزمین پر سب سے مہلک دہشت گردانہ حملے کی حیثیت کو ختم کر دیا۔

اگرچہ میک ویگ کے اقدامات کے بارے میں ہم جو کچھ جانتے ہیں وہ حکومتی تحقیقات سےسامنے آیا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ انھیں سزائے موت دیے جانے سے کچھ دیر پہلے جاری ہونے والی ایک کتاب سے بھی بہت کچھ پتا چلتا ہے۔

بفیلو نیوز کے دو رپورٹروں نے خفیہ طور پر 75 گھنٹے سے زیادہ وقت ان کا انٹرویو کرنے میں گزارا تھا۔

لو مائیکل کہتے ہیں کہ ’اس پر بہت سخت رد عمل سامنے آیا لیکن ہم صحافیوں کی حیثیت سے سمجھتے تھے کہ ہم عوامی خدمت کر رہے ہیں۔ یہ تاریخ تھی۔‘

ڈین ہربیک اس سے اتفاق کرتے ہیں ’میں یہ کہوں گا کہ اگر مجھے ایڈولف ہٹلر کا انٹرویو کرنے اور اس کے ذہن میں داخل ہونے اور یہ جاننے کا موقع ملتا کہ کس چیز نے اسے لاکھوں بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے پر مجبور کیا، تو میں یہ کہانی بھی کرتا۔‘

’میرے خیال میں لوگوں کو زیادہ سے زیادہ جاننا چاہیے کہ ان عفریتیں کے بننے کی کیا وجوہات ہیں۔ مستقبل میں اس طرح کے اقدامات کو روکنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ سمجھیں۔‘

جہاں کبھی مرہ کی عمارت کھڑی تھی اب وہاں ایک بڑی یادگار اور عجائب گھر ہے۔

روتھ کے پوتے پوتیوں کی طرح مقامی بچے بھی بمباری کے بارے میں سنتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں اور سکول کے ٹرپس پر اس مقام کا دورہ کرتے ہیں۔ یہ اوکلاہوما کے باشندوں کے لیے جمع ہونے اور کبھی نہ بھولنے کا عہد کرنے کی جگہ بن گیا ہے۔ اس میں ہر متاثرہ کے لیے خالی کرسیوں کا ایک میدان اور دو گیٹ وے شامل ہیں، جن پر 09:01 اور 09:03 کا لیبل لگایا گیا ہے تاکہ ان لمحموں کی عکاسی ہو جو شہر نے کئی معصوموں کو کھو دیا۔

میموریل میں ایک دیو قامت امریکی ایلم بھی ہے جسے سروائیور ٹری کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بم دھماکے سے پہلے بھی یہ درخت مشہور تھا، جو کئی دہائیوں سے شہر کی ایک کنکریٹ کار پارکنگ کے وسط میں اکیلا کھڑا تھا۔

مرہ بلڈنگ سے سڑک کے دوسرے جانب کھڑے اس درخت کو دھماکے میں نقصان پہنچا تھا۔ تفتیش کاروں نے ایک موقع پر بظاہر ثبوت حاصل کرنے کے لیے اسے کاٹنا چاہا تھا۔

لیکن آج، یہ پھل پھول رہا ہے۔ ہر سال حکام اس کے بیج نکال کر تقسیم کرتے ہیں، اس امید پر کہ یہ درخت اور اس کا پیغام پوری دنیا میں زندہ رہ سکے گا۔

رابن، جو اب بھی ایک مقامی نیوز رپورٹر ہیں، کہتے ہیں،’ہم ہمیشہ کہتے ہیں کہ نے ہماری کمیونٹی میں جو کچھ ہوا اس درخت دیکھا اور ہمارا ساتھ دیا۔‘

اوکلاہوما کے باشندوں کے لیے یہ درخت شہر کی پھر سے بحال ہونے لی صلاحیت اور طاقت کی علامت بن گیا ہے۔یہ یاد دلاتا ہے،آگے بڑھتے رہیں حتیٰ کہ تب بھی جب لگے کہ سب کچھ کھوچکا ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.