ایکواڈور: سیاحوں کی جنت سمجھا جانے والا ملک جرائم پیشہ گروہوں کا گڑھ کیسے بنا؟

ایکواڈور سے تعلق رکھنے والی بی بی سی کی صحافی واپس اپنے ملک ہیلمٹ اور بلٹ پروف جیکٹ پہن کر رپورٹنگ کرنے آئیں۔ اپنے ملک میں انھوں نے کیا کچھ دیکھا اور سنا؟
ایکواڈور
BBC

میں جب ایکواڈور کے سب سے بڑے شہر ’گوایاکل‘ پہنچی تو میرے پاس ایک بلٹ پروف جیکٹ، ایک حفاظتی ہیلمٹ اور فرسٹ ایڈ باکس تھا۔

برسوں قبل میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں اپنے ہی ملک میں اس طرح کے ماحول میں رپورٹنگ کر رہی ہوں گی۔ اگرچہ یہ ملک ہمیشہ سے سیاسی ہلچل کی لپیٹ میں رہا ہے لیکن پھر بھی اس کا شمار لاطینی امریکہ کے محفوظ ترین ممالک میں ہوتا تھا۔

ایکواڈور دنیا میں منشیات بنانے کے لیے استعمال ہونے والے پودوں کی افزائش کرنے والے دو ممالک کولمبیا اور پیرو کے درمیان واقع ہے۔ ہمسایہ ممالک کولمبیا اور پیرو میں تاریخی طور پر پُرتشدد واقعات دیکھنے میں آتے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود ایکواڈور کو ’امن کا جزیرہ‘ کہا جاتا تھا۔

بیرونِ ملک جب میں لوگوں کو بتایا کرتی تھی کہ میرا تعلق ایکواڈور سے ہے تو وہ مجھ سے میرے ملک میں واقع جزائر گالاپاگوز یا دارالحکومت کیٹو کے بارے میں دریافت کیا کرتے تھے۔

لیکن اب ایسا نہیں ہے: اب وہ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میرا خاندان کیسا ہے، کیا سب ٹھیک ہیں؟

سلسلہ کوہ انڈیز کے اطرف کوکین کی افزائش اور بین الاقوامی منڈی میں اس کی قیمتوں میں اضافے کے بعد حالیہ دور میں ایکواڈور میں بھی تبدیلیاں آنا شروع ہو گئیں۔

چند ابتدائی خبروں میں سے ایک جس نے ہمیں حیرت میں ڈال دیا وہ مارچ 2018 میں اخبار ’ال کمرزیو‘ سے وابستہ ایکواڈور کے تین صحافیوں کا اغوا اور پھر قتل تھا۔ اس قتل کی ذمہ داری باغی گوریلا گروہ ’ایف اے آر سی‘ نے قبول کی۔ یہ وہ گروہ ہے جس نے منشیات سمگلنگ کی اپنی کارروائیوں سے اس خطے کا نقشہ ہی بدل کے رکھ دیا ہے۔

ایکواڈور میں سنہ 2023 میں آٹھ ہزار قتل ہوئے۔ یہ سنہ 2018 کے مقابلے میں آٹھ گنا زیادہ تعداد بنتی ہے اور یہ تعداد میکسیکو اور کولمبیا جیسے ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔

اس کے بعد آہستہ آہستہ دیگر واقعات سننے کو ملے، جس میں ایکواڈور کی متعدد جیلوں میں فروری 2021 میں ہونے والا پہلا منظم جیل فساد بھی شامل ہے جس میں 75 سے زیادہ قیدی ہلاک ہوئے۔

اب میں ایکواڈور میں یہ دیکھنے کے لیے واپس آئی ہوں کہ وقت کے ساتھ میرا ملک کس طرح بدل گیا ہے اور وہ یہاں منشیات فروش گینگز کیسے کام کرتے ہیں۔ ان گینگز کو صدر ڈینیئل نبوا نے ’دہشت گرد گروہ‘ قرار دیا تھا۔

یہاں میری ایک غیرمعمولی ملاقات جرائم پیشہ گروہ کے ایک رکن سے بھی ہوئی۔

ایکواڈور
BBC

پال (فرضی نام) نامی یہ کارندے ایکواڈور کے دس انتہائی خطرناک گروہوں میں سے ایک کا حصہ ہیں۔ انھوں نے مجھ سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرنے پر حامی بھری۔

اپنے جرائم کی وجہ سے وہ فوج کو بھی مطلوب ہیں۔ انھوں نے اپنی کار سٹارٹ کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ اس وقت صورتحال بہت خطرناک ہے، موت کہیں سے بھی آ سکتی ہے۔ پال کو لگتا ہے کہ وہ کسی اور مخالف گینگز کی ہٹ لسٹ پر ہیں اور وہ ابھی تک صرف اپنی ماں کی دعاؤں کی وجہ سے زندہ ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ایسا لگتا ہے کہ خدا مجھے نہیں بلانا چاہتا اور شیطان مجھے چھونا نہیں چاہتا۔‘

30 برس کے پال نے مجھے بتایا کہ انھوں نے 15 برس کی عمر میں جرائم پیشہ گروہ میں شمولیت اختیار کی۔ ابتدا میں انھیں مقامی سطح پر منشیات سمگلنگ کے کام کے عوض فی ہفتہ 200 ڈالر ملتے تھے۔

ہم پال کے ساتھ یہ بات چیت ایکواڈور کے سب سے بڑے شہر ’گائیوکوئل‘ میں کر رہے تھے۔ اس شہر میں 20 گینگ سرگرم ہیں اور اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے آئے روز فائرنگ اور تشدد کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔

پول نے ہم سے تمام تر گفتگو چلتی ہوئی گاڑی میں کی کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ اگر ہم ایک جگہ رُک کر بات کریں گے تو اُن کے دشمن انھیں نشانہ بنا سکتے ہیں۔ چنانچہ ان کے مشورے پر ہم شہر میں گاڑی میں گھومتے پھرتے پال کا انٹرویو کر رہے تھے۔ پال نے مجھے بتایا کہ ’میں عزت کا بھوکا تھا۔‘

پال اور ان کے گینگ نے ایکواڈور میں بڑھتے تشدد میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

ایکواڈور
BBC

ایکواڈور لاطینی امریکہ کا سب سے محفوظ ملک ہوا کرتا تھا۔ اس ملک میں گھنے جنگلات ہیں اور گالاپاگوس جیسے دلکش جزیرے بھی ہیں۔ لیکن گذشتہ پانچ برسوں میں ملک کے حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے ہیں۔

اور جنوری 2024 میں ایکواڈور پوری دنیا میں اُس وقت مشہور ہو گیا جب ٹی وی پر چلنے والے ایک لائیو شو کے دوران کچھ بندوق بردار ایک ٹی وی سٹیشن میں داخل ہوئے۔

اسی دوران ملک کے کئی حصوں سے جیلوں میں دھماکوں اور ہنگاموں کی خبریں آنے لگیں۔ کئی لوگوں کے اغوا کی بھی اطلاعات سامنے آئیں۔

صدر ڈینیئل نبوا نے اس کے بعد ملک میں ایمرجنسی کا اعلان کیا تھا۔ ان کا ہدف منشیات سمگل کرنے والے مجرم تھے۔

ایمرجنسی کا اعلان کرتے ہوئے صدر ڈینیئل نبوا نے کہا تھا کہ ’یہ دہشت گرد ہمیں ڈرانا چاہتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہم خوفزدہ ہو جائیں گے اور ان کے مطالبات مان لیں گے۔‘

اس کے بعد سے ایکواڈور میں 16 ہزار افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

ملک میں نافذ ایمرجنسی کا اختتام آٹھ مارچ کو ہوا لیکن صدر نے کہا ہے کہ ملک کی سلامتی کے پیش نظر فوج کو بہت سے خصوصی اختیارات دیے گئے ہیں۔

صدر ڈینیئل نبوا مجرموں کے لیے سخت سزاؤں کے ساتھ ساتھ قانون سازی چاہتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ اسلحہ رکھنے سے متعلق قوانین میں بھی تبدیلیاں لانے کے خواہاں ہیں۔

یہ تمام تجاویز 21 اپریل کو ہونے والے ریفرنڈم کا حصہ ہیں۔

crime
Getty Images

گھر سے باہر نکلنے کا خوف

ملک میں جاری گینگ وار نے عوام کی معمولات زندگی درہم برہم کر کے رکھ دیے ہیں اور اب صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ لوگ گھروں سے نکلنے سے بھی خوفزدہ ہیں۔ اغوا اور تاوان کی کارروائیاں عام ہے۔

ہم نے بہت سے لوگوں سے بات کی جنھوں نے واضح طور پر کہا کہ اب وہ باہر جانے سے ڈرتے ہیں، خاص طور پر رات کو۔ حکومت نے ملک کے دارالحکومت سمیت بہت سے شہروں میں رات کے اوقات میں کرفیو کے نافذ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔

ملک کے دارالحکومت میں گیبریلا المیڈا نامی ڈاکٹر نے ہمیں بتایا کہ ’میں ہر روز ایسے مریضوں سے مل رہی ہوں جو بہت زیادہ ذہنی دباؤ میں ہیں۔‘

ڈاکٹر المیڈا ایسی جگہ رہتی ہیں جہاں ایک بڑا گیٹ نصب ہے تاکہ کوئی غیرمتعلقہ یا اجنبی شخص کالونی میں داخل نہ ہو سکے۔ انھوں نے اپنے کلینک کا معمول بھی بدل لیا ہے اور اب وہ بھی رات کو باہر جانے سے گریز کرتی ہیں۔

گھر سے باہر نکل کر وہ فوری طور پر اپنے گھر والوں کے ساتھ لوکیشن شیئر کرتی ہیں۔

پولیس
Getty Images

ایکواڈور: منشیات کی تجارت کا مرکز

ڈاکٹر المیڈا کہتی ہیں کہ ’میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک دن ہمارے ملک کی حالت ایسی ہو جائے گی۔ لیکن میں موت سے نہیں ڈرتی۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم ایک خوفناک خواب میں جی رہے ہیں۔‘

ڈاکٹر المیڈا ایک بچے کی ماں ہے اور اب وہ اپنے ملک کی صورتحال کے باعث سپین میں آباد ہونے پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں اپنے بیٹے کو ایسی جگہ لے جانا چاہتی ہوں جہاں وہ تشدد اور اغوا کے خوف کے بغیر گھوم سکے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’میں اپنے ملک سے محبت کرتی ہوں، میں چاہتی ہوں کہ میرا بیٹا اپنے لوگوں اور روایات کے ساتھیہیں پلے بڑھے۔ مگر جب میں یہاں عدم تحفظ دیکھتی ہوں تو پھر ایسے میں اپنے بچے کو میں ایسا ماحول دینا چاہتی ہوں کہ جو باہر گلی میں بغیر کسی خوف کے باہر نکل سکے۔‘

ایکواڈور کے صدر کی رائے میں منشیات کی تجارت اس مسئلے کی جڑ ہے۔ پولس کی کہانی سے بھی یہی بات سمجھی جا سکتی ہے۔ پال نے بتایا کہ جب وہ گینگ میں شامل ہوئے تو وہ اپنے علاقے میں ’گانجہ‘ اور ’کوکین‘ فروخت کرتے تھے۔

اقوام متحدہ کے مطابق سنہ 2020 اور سنہ 2021 کے درمیان کوکین کی مجموعی پیداوار میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔

کنٹینر
BBC

میکسیکو، کولمبیا اور البانیہ کے گینگ اب منشیات کے کاروبار کے لیے نئی جگہوں کی تلاش میں ہیں۔

ایکواڈور ان لوگوں کے لیے ایک مناسب جگہ ثابت ہوا ہے کیونکہ اس کی سرحد دنیا کے دو سب سے بڑے کوکین پیدا کرنے والے ممالک سے ملتی ہے۔ یہ دو ممالک کولمبیا اور پیرو ہیں۔

نتیجہ یہ ہے کہ ایکواڈور ایک عالمی ’ڈسٹری بیوشن مرکز‘ میں تبدیل ہو گیا ہے جہاں منشیات کو ذخیرہ کیا جاتا ہے اور ٹرانزٹ پوائنٹ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہاں سے انھیں شپنگ کنٹینرز کے ذریعے دوسرے ممالک میں پہنچایا جاتا ہے۔ گینگ اس عمل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔‘

پال نے ہمیں بتایا کہ پہلے وہ اپنا کاروبار تھوڑی مقدار میں منشیات سے چلاتے تھے لیکن بعد میں انھوں نے کلو کی مقدار میں کوکین کی سمگلنگ شروع کر دی۔

انھوں نے بتایا کہ اپنے نئے کردار میں وہ دیگر پروڈکٹس کے ساتھ غیر قانونی ادویات بھی چھپاتے اور کنٹینرز میں رکھتے تھے۔

ایکواڈور کی تین چوتھائی سے زیادہ برآمدات گوئیوکوئل کی بندرگاہ سے ہوتی ہیں۔ کیلے اور جھینگے بنیادی طور پر بحرالکاہل کے ساحل پر واقع اس بندرگاہ سے برآمد کیے جاتے ہیں۔

لیکن ایکواڈور کے کوسٹ گارڈ نے ہمیں تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھایا۔

اُن کا کہنا ہے کہ ایکواڈور سے ہونے والی منشیات کی سمگلنگ کا 90 فیصد اس بندرگاہ کے ذریعے ہوتا ہے۔

ایکواڈور میں اندرونی مسلح تصادم کے اعلان کے بعد سے کوسٹ گارڈ نے اپنی معمول کے گشت میں اضافہ کر دیا ہے۔ جب کوسٹ گارڈ کی ٹیم بندرگاہ کے آس پاس کے علاقوں میں گشت کر رہی تھی تو ہم ان کی ٹیم میں شامل ہو گئے۔

ان کے ایک کمانڈر نے ہمیں بتایا کہ ’ماضی میں ہم عام مجرموں سے نمٹتے تھے۔ لیکن اب ہم جن لوگوں سے نمٹتے ہیں وہ بھاری ہتھیاروں والا کوئی بھی (گروہ یا شخص) ہو سکتا ہے۔‘

ایکواڈور
BBC

ان گروہوں سے خوف کی وجہ سے وہ اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔ انھوں نے اپنا چہرہ چھپانے کے لیے سیاہ ماسک پہن رکھا تھا۔

ان کی مسلح ٹیم اس جگہ پر دن میں چار بار گشت کرتی ہے۔ وہ تیز رفتار کشتیوں میں ان مجرموں کی تلاش کرتے ہیں جو بڑے جہازوں پر رکھے ہوئے کنٹینرز میں منشیات چھپانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔

لیکن کرپشن کے مسئلے نے ان کا کام مشکل بنا دیا ہے۔

پال بتاتے ہیں کہ اگر بندرگاہ پر تعینات کسی شخص کو مناسب رقم دی جائے تو وہ سکیورٹی کیمروں کو موڑ دے گا تاکہ کوئی بھی غیر قانونی سرگرمیاں کرنے والا مجرم اس کی نظروں میں نہ آئے۔

کوسٹ گارڈ کے کمانڈر کا کہنا ہے کہ ’نظام میں بہت سے لوگ کرپٹ ہیں، کبھی کبھی میں بندرگاہ کے اندر سکیورٹی چیک پوائنٹس پر کہہ سکتا ہوں کہ کنٹینرز کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے لیکن سچ یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر پہلے ہی چھیڑ چھاڑ کر چکے ہیں۔‘

تیز رفتار کشتیاں
BBC

’ہر کوئی اپنا علاقہ چاہتا ہے‘

پال کے نزدیک زیادہ سمگلنگ کا مطلب ہے ’زیادہ پیسہ اور بہتر ہتھیار‘۔ سنہ 2020 کے بعد ایکواڈور کی پولیس کے ہاتھوں برآمد ہونے والے ہتھیاروں میں 58 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے ہتھیاروں کی ضبطگی کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں ہتھیاروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ چونکہ سڑکوں پر جرائم پیشہ گروہوں کے درمیان تناؤ بڑھ گیا ہے چنانچہ جیل کی دیواروں کے اندر پُرتشدد جھڑپیں بھی مہلک حد تک بڑھ گئی ہیں۔

پال بتاتے ہیں کہ ’ہر کوئی اپنا علاقہ چاہتا ہے۔ مجرم منشیات کی فروخت کے لیے علاقہ، سمگلنگ کے لیے علاقہ اور یہاں تک کہ بھتہ خوری اور اغوا کے لیے علاقہ چاہتے ہیں۔‘

ہم نے پال سے پوچھا کہ وہ گینگ کیوں نہیں چھوڑتے؟ اس پر پال نے جواب دیا کہ جب سے وہ روپوش ہیں مجرمانہ سرگرمیوں سے ان کی دوری بڑھ گئی ہے۔

لیکن پال یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کی تلاش میں لوگ ’ہر جگہ‘ موجود ہیں۔

پال کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی اپنے گینگ کے ارکان سے رابطے میں ہیں تاکہ ضرورت پڑنے پر وہ سکیورٹی کے لیے مدد حاصل کر سکیں۔ اگر وہ چاہتے تو پولیس کے سامنے ہتھیار ڈال سکتا تھے لیکن ان کا دعویٰ ہے کہ گینگ کو چھوڑنے کا واحد راستہ ملک چھوڑنا ہے کیونکہ گینگ کے ارکان جیلوں میں بھی سرگرم ہیں۔

ہم نے اُن کے جرائم سے متعلق تفصیلات پوچھیں تو پال نے ہچکچاتے ہوئے اعتراف کیا کہ انھوں نے لوگوں کو قتل بھی کیا ہے۔ تاہم انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ انھیں لوگوں کے گھر تباہ کرنے پر افسوس ہے۔

ان کے مطابق ’مجھے لوگوں کو مارنے پر افسوس ہوتا ہے۔ میں حلفاً کہتا ہوں کہ میں نے جو نقصان پہنچایا اس پر مجھے افسوس ہے۔‘

نظام انصاف
BBC

انصاف کے لیے لڑو

جب ہم نے یہ تمام معاملات حکومت کے سامنے رکھیں تو ہمیں بتایا گیا کہ تشدد سے ہونے والی اموات میں ’نمایاں کمی‘ واقع ہوئی ہے، جیلوں میں منظم گروہوں کی طاقت ’ختم‘ کر دی گئی ہے اور بدعنوانی کے معاملات کی تحقیقات ہو رہی ہیں۔ اور یہ کہ حکومت کو ’مافیا‘ کے خلاف فتح حاصل ہو رہی ہے۔

جہاں ایک طرف حکومت ان گینگز سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے، وہیں دوسری طرف جو لوگ ان مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی ذمہ داری لے رہے ہیں وہ اب خود نشانہ بن رہے ہیں۔

صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گذشتہ دو سالوں میں چھ سرکاری وکلا قتل ہو چکے ہیں۔

سیزر سوریز ان میں سے ایک تھے۔ وہ ٹی وی سٹیشن حملہ کیس اور بدعنوانی کے بڑے کیس ’میسٹاساس کیس‘ کی تحقیقات میں پیش پیش تھے۔ انھیں جنوری 2024 میں گائیوکوئل میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

ان کی ساتھی اور سرکاری وکیل مشیل لونا کہتی ہیں کہ ’وہ خوش مزاج آدمی تھے۔ ایک اچھے آدمی تھے۔ انھیں اپنا پیشہ پسند تھا۔‘

لونا بتاتی ہیں کہ جب وہ چھ سال کی تھیں تو ان کے والد دھوکہ دہی کا شکار ہو گئے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اس عمر سے ہی میں سمجھ گئی تھی کہ ناانصافی کا اصل مطلب کیا ہے۔‘

’جب میں بڑا ہوئی تو میں نے خود سے وعدہ کیا کہ میں اس کے خلاف لڑوں گی۔‘

تاہم اب وہ خوفزدہ ہیں اور اپنے کریئر تبدیل کرنے کا سوچ رہی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اگر ہمیں اپنی حفاظت کی کوئی ضمانت نہیں ملی تو میں استعفیٰ دے دوں گی۔‘

لونا اور ان کے ساتھی چاہتے ہیں کہ سرکاری وکیلوں کی شناخت خفیہ رکھی جائے اور ان کے مقدمات کو صحیح معنوں میں سُنا جائے تاکہ وہ مجرموں کی طرح عدالتوں میں پیش ہونے کے خطرے سے بچ سکیں۔

اٹارنی جنرل ڈیانا سالزار ’میسٹاساس کیس‘ میں سمگلروں اور سرکاری محکموں کے درمیان تعلق کی بھی تحقیقات کر رہی ہیں۔ انھیں دھمکیاں بھی مل رہی ہیں۔ انھوں نے پولیس اور فوج سے مزید مدد مانگی ہے۔

لیکن وسائل کی کمی بھی ایک مسئلہ ہے۔ مشیل لونا پوچھتی ہیں کہ ’یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک سرکاری وکیل کو پانچ ہزار مقدمات نمٹانے میں مدد کے لیے صرف دو افراد دیے جائیں؟‘

اگرچہ لونا کو ذاتی طور پر کوئی دھمکی نہیں ملی ہے لیکن وہ پریشان ہیں کہ کسی بھی وقت ایسا کچھ ہو سکتا ہے۔ انھیں خدشہ ہے کہ جو بھی ایکواڈور کے پرتشدد گروہوں سے نمٹنے کی کوشش کرے گا وہ منظم جرائم کا نشانہ بن جائے گا۔

اب یہ تمام کہانیاں قلمبند کرنے کے بعد میرے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ ڈاکٹر گیبریلا المیڈا سمیت جو لوگ اب ملک چھوڑنے کا سوچ رہے ہیں، میری کہانی ان سے مختلف ہے۔

’میں نے تو ایکواڈور اپنی مرضی سے چھوڑا تھا۔ مگر یہ بہت واضح ہے کہ یہ وہ ایکوڈور نہیں ہے جب میں اسے چھوڑ کر گئی تھی۔ جب مجھے اپنے ہی ملک میں رپورٹنگ کے لیے ہیلمٹ اور بلٹ پروف کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.