سمیع چوہدری کا کالم: ’بابر اعظم سے پہیہ دوبارہ ایجاد کروانے کی کوشش‘

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بابر اعظم اس دہائی کے عظیم ترین بلے بازوں میں سے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پریشر میچز کے فیصلہ کن لمحات پہ وہ اندازے کی بنیادی غلطیوں میں الجھ کر میچ گنوا بیٹھتے ہیں۔
بابر اعظم
Getty Images

1999 کے کرکٹ ورلڈ کپ میں سٹیو وا ایک نو آموز آسٹریلوی ٹیم کی قیادت کر رہے تھے۔ پہلے مرحلے میں ہی ان کی ٹیم پاکستان اور نیوزی لینڈ سے شکست کھانے کے بعد ٹائٹل کی دوڑ سے باہر ہونے کے دہانے پہ تھی۔

پریس کانفرنس میں جب سٹیو وا سے اس کارکردگی بارے سوال ہوا تو ان کا کہنا تھا کہ ابھی اس ٹورنامنٹ میں بہت کرکٹ باقی ہے۔ اور پھر چشم فلک نے یہ تماشہ دیکھا کہ انہی کی نوجوان ٹیم فائنل میں، سٹارز سے لدی پھندی پاکستانی ٹیم کو شرمناک شکست دے کر چیمپئین بن گئی۔

سٹیو وا جیسا کرکٹنگ ذہن خال ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ مشکل ترین حالات میں بھی وہ امید کا دامن چھوٹنے نہیں دیتے تھے اور دباؤ کے ہنگام، اپنی غیر معمولی ذہانت اور اچھوتے فیصلوں سے جیت اچک کر لے جاتے تھے۔

سابق جنوبی افریقی کپتان علی باقر نے کہا تھا کہ کپتان پیدا ہوا کرتے ہیں، کپتان بنائے نہیں جا سکتے۔ کرکٹ کی تاریخ کے کامیاب ترین کپتانوں پہ نظر ڈالی جائے تو یہ بات درست معلوم پڑتی ہے کہ کئی ایک کامیاب ترین کھلاڑی بدترین کپتان ثابت ہوئے جبکہ کئی اوسط کھلاڑی بھی عمدہ قائدانہ صلاحیتوں کے حامل نکلے۔

یہاں، پی سی بی ایک بار پھر پہیہ ایجاد کرنے کی سمت چل پڑا ہے اور چار ماہ قبل لیے گئے اپنے ہی فیصلے کو پلٹتے ہوئے بابر اعظم کو بطور کپتان بحال کر دیا گیا ہے۔ ایسے میں مخمصہ محض یہ ہے کہ غلطی چار ماہ پہلے ہوئی تھی یا اب کی جا رہی ہے؟

اور اس سارے قضیے میں شاہین آفریدی کا کیا قصور تھا کہ جنہیں طویل مدتی اہداف کے تحت کپتان بنا کر ایک تجرباتی سکواڈ تھمایا گیا اور فری ہینڈ دیا گیا کہ وہ اپنی مرضی سے ورلڈ کپ کے لیے ٹیم تیار کریں؟

شاہین کی زیر قیادت صرف ایک ہی سیریز کھیلی گئی اور وہ سیریز بھی پلیئنگ الیون طے کرتے کرتے گزر گئی۔

اب اس دوران پی سی بی کی قیادت بدل گئی تو نئے چئیرمین نے نیا کپتان لانا بھی ناگزیر سمجھ لیا۔ تو ایسے میں کیا گارنٹی ہے کہ کل کو اگر خدانخواستہ محسن نقوی بے شمار قومی ذمہ داریوں کے 'بوجھ' کے سبب پی سی بی کی نظامت سے سبکدوش ہو گئے تو آئندہ چئیرمین کو بھی بابر اعظم کی قیادت پہ اتنا ہی اعتماد ہو گا؟

اور اگر بنیاد یہاں پی ایس ایل کی کارکردگی کو بنایا جا رہا ہے تو بھی اس امر سے صرفِ نظر کیسے کیا جا سکتا ہے کہ جہاں شاہین آفریدی وسائل کی عدم دستیابی کے باعث ناکام رہے، وہاں بابر اعظم اپنا بہترین کمبینیشن ہونے کے باوجود، اہم ترین میچ میں، ایک اچھے مجموعے کے دفاع میں ناکام کیوں رہے؟

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بابر اعظم اس دہائی کے عظیم ترین بلے بازوں میں سے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پریشر میچز کے فیصلہ کن لمحات پہ وہ اندازے کی بنیادی غلطیوں میں الجھ کر میچ گنوا بیٹھتے ہیں۔

حالیہ ون ڈے ورلڈ کپ کو ہی لیجیے تو صرف کامن سینس ہی نہیں، ڈیٹا بھی چیخ چیخ کر بتاتا رہا کہ حارث رؤف نئی گیند کے بولر نہیں ہیں مگر بابر اعظم اوپر تلے انہیں پہلے پاور پلے میں استعمال کر کے شروع سے ہی میچ کا توازن بگاڑتے رہے۔

اسی طرح شاداب خان ایشیا کپ سے پہلے ہی اپنی فارم کھو چکے تھے مگر بابراعظم کرکٹ کمیٹی کے اصرار کے باوجود ابرار احمد کو 15 رکنی سکواڈ میں شامل کرنے پہ رضا مند نہ ہوئے۔

بابر اعظم
Getty Images

گو قیادت کا بوجھ ہٹنے کے بعد بابر کی بیٹنگ فارم میں مزید بہتری اور نکھار واضح تھا مگر نجانے ان کے سر میں کیا سمائی کہ پھر اس ذمہ داری کو قبول کرنا ضروری جان بیٹھے۔ ایسے میں ایک عقدہ یہ بھی ہے کہ ورلڈ کپ میں ہی ٹی وی پہ بیٹھ کر ان کی قیادت کے لتے لینے والے عماد وسیم اور محمد عامر جب ڈریسنگ روم کا حصہ ہوں گے تو باہمی موافقت کی فضا کون سے مدارج طے کرے گی؟

اور اگر پی سی بی کو شاہین کی قیادت سے کوئی دقت تھی بھی سہی، تو کیا بابر اعظم کے سوا کوئی اور قیادت کے لیے موزوں نہ تھا؟

اگر معمہ میڈیا کے رجحانات اور چند مخصوص لابیز کے 'صحافیانہ' رسوخ کا نہ ہوتا، فیصلہ خالصتاً کرکٹنگ بنیادوں پہ کیا جاتا تو فی الوقت اس ٹیم کی قیادت کے لیے محمد رضوان سے بہتر کوئی امیدوار نہ ہوتا جو بارہا اپنی قائدانہ صلاحیتوں، کرکٹنگ ذہانت اور دباؤ کے دوران حاضر دماغی کا ثبوت دے چکے ہیں۔

لیکن کیا کیجیے کہ پیرا شوٹ کے ذریعے اتارے گئے پی سی بی سربراہان کو بھی اپنی ہستی کے ثبوت کے لیے میڈیا کے کسی نہ کسی ایک دھڑے کی غیر مشروط تائید ناگزیر ہوتی ہے اور محمد رضوان نہ تو کراچی کی 'صحافت' کے منظورِ نظر ہیں اور نہ ہی لاہور کے، تو پھر بابر اعظم سے ہی پہیہ دوبارہ ایجاد کروانے میں کیا مضائقہ ہے؟


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
کھیلوں کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.