ججز کے الزامات کی تحقیقات کے لیے قائم انکوائری کمیشن کے سربراہ تصدق حسین جیلانی کون ہیں؟

کابینہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے آئی ایس آئی اور دیگر خفیہ اداروں کی عدالتی امور میں مداخلت کے الزام کی تحقیقات کے لیے تصدق حسین جیلانی کو انکوائری کمیشن کا سربراہ بنایا ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس کو 2018 میں تحریک انصاف نے نگران وزیر اعظم نامزد کیا تھا۔

وفاقی کابینہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے آئی ایس آئی اور دیگر خفیہ اداروں کی عدالتی امور میں مداخلت کے الزام کی تحقیقات کے لیے تصدق حسین جیلانی کو انکوائری کمیشن کا سربراہ بنایا ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس کو 2018 میں تحریک انصاف نے نگران وزیر اعظم کے لیے نامزد کیا تھا۔

25 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے ایک خط میں عدالتی امور میں آئی ایس آئی اور دیگر انٹیلیجنس اداروں کی طرف سے براہ راست مداخلت اور ججز پر دباؤ ڈالنے کے الزامات عائد کیے تھے۔

اس کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نہ صرف وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کی بلکہ اس بات پر زور دیا کہ عدالتی امور میں مداخلت کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ دونوں کے بیچ انکوائری کمیشن کے قیام پر اتفاق ہوا تھا۔

تاہم وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں کابینہ کے اجلاس نے ججز کے اس خط میں ایگزیکٹو کی مداخلت کے الزام کی ’نفی کرتے ہوئے اسے نامناسب قرار دیا‘ ہے۔

دنیا نیوز کو دیے ایک انٹرویو میں تصدق جیلانی نے کہا ہے کہ یہ معاملہ حساس نوعیت کا ہے لہذا اس میں صاف و شفاف تحقیقات کی جائیں گی۔ انھوں نے کہا کہ وہ قوم کی توقعات پر پورا اتریں گے۔

ادھر پاکستان تحریک انصاف نے اس انکوائری کمیشن کو مسترد کرتے ہوئے اسے چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ
EPA

انکوائری کمیشن کی ذمہ داری کیا ہوگی؟

وفاقی کابینہ کی جانب سے انکوائری کمیشن کے ’ٹی او آرز‘ کی بھی منظوری دی ہے۔ ان ضوابط کے تحت انکوائری کمیشن معزز جج صاحبان کے خط میں عائد کردہ الزامات کی مکمل چھان بین کرے گا اور تعین کرے گا کہ یہ الزامات درست ہیں یا نہیں۔ اور اس حوالے سے ایک رپورٹ پیش کی جائے گی۔

کابینہ کے اعلامیے کے مطابق کمیشن یہ جانچ کرے گا کہ آیا انٹیلیجنس ایجنسی کا کوئی اہلکار براہ راست مداخلت میں ملوث تھا۔ کمیشن اپنی تحقیق میں سامنے آنے والے حقائق کی بنیاد پر کسی ایجنسی، محکمے یا حکومتی ادارے کے خلاف کارروائی تجویز کرے گا۔ کمیشن کو یہ بھی اختیار ہوگا کہ وہ انکوائری کے دوران ضروری سمجھے تو کسی اور معاملے کی بھی جانچ کرسکے گا۔

یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز نے 25 مارچ کو عدلیہ پر ’دباؤ‘ سے متعلق خط میں لکھا تھا کہ آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے ’ججز پر دوستوں، رشتہ داروں کے ذریعے دباؤ ڈالا اور جج شدید ذہنی دباؤ کے باعث ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہو کر ہسپتال داخل ہوئے۔‘

اس میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اور چیف جسٹس پاکستان کے علم میں لایا گیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا ان کی آئی ایس آئی کے ڈی جی سی سے بات ہو گئی ہے اور چیف جسٹس نے کہا یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ آئی ایس آئی کا کوئی آفیشل ہائیکورٹ کے کسی جج کو ’اپروچ‘ نہیں کرے گا، لیکن اس کے باوجود آئی ایس آئی کے آپریٹوز کی مداخلت جاری رہی۔

سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی حال ہی میں بحالی کے فیصلے کو نظیر بنا کر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز نے آئی ایس آئی کے دباؤ سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو تفصیلی خط لکھا ہے، جس کے ذریعے آئی ایس آئی سمیت انٹیلیجنس ایجنسیوں اور انتظامیہ کی عدالتی امور میں مداخلت سے متعلق تحقیقات کا دائرہ وسیع کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔

تصدق جیلانی کون ہیں؟

تصدق حسین جیلانی چھ جولائی 1949 کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے ایف سی کالج سے ایم اے سیاسیات کیا اور اس کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔

اُنھوں نے 1974 میں جنوبی پنجاب کے شہر ملتان سے بطور وکیل اپنی پریکٹس کا آغاز کیا۔ وہ 1979 میں سابق فوجی آمر ضیا الحق کے دور میں پنجاب کے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل تعینات ہوئے۔

1988 میں وہ پنجاب کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل تعینات کیے گئے۔ اُنھیں 1993 میں ترقی دے کر پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل کے عہدے پر تعینات کیا گیا۔

دھیمے مزاج والے تصدق حسین جیلانی کو سابق وزیر اعظم بےنظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں سات اگست 1994 میں لاہور ہائی کورٹ کا جج اور تقریباً دس سال کے بعد جولائی 2004 میں سپریم کورٹ کا جج تعینات کیا گیا۔ وہ 2013 میں عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس بھی بنے۔

وہ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری سمیت اُن دیگر ججوں میں شامل تھے جنھوں نے اکتوبر سنہ 1999 میں اُس وقت کے فوجی آمر پرویز مشرف کے عبوری آئینی حکم نامے کے تحت حلف اُٹھایا تھا۔

جسٹس تصدق حسین جیلانی جسٹس خلیل الرحمٰن رمدے کی سربراہی میں قائم ہونے والے اُس بینچ کا حصہ تھے جس نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی طرف سے اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف بھیجے گئے ریفرنس کی سماعت کی تھی۔

اس ریفرنس کا فیصلہ افتخار محمد چوہدری کے حق میں دیا گیا تھا جس کے بعد وہ اپنے عہدے پر بحال ہوگئے تھے۔ اس ریفرنس میں چوہدری اعتزاز احسن افتخار محمد چوہدری کے وکیل تھے۔

جسٹس تصدق حسین جیلانی اُس سات رکنی بینچ کا بھی حصہ تھے جس نے تین نومبر 2007 میں سابق فوجی صدر کی طرف سے ملک میں لگائی جانے والی ایمرجنسی کے موقع پر حکم جاری کیا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ کا کوئی بھی جج پی سی او کے تحت حلف نہ اُٹھائے اور بیوروکریسی فوجی آمر کا کوئی حکم نہ مانے۔

وہ اُس بینچ کا بھی حصہ تھے جس نے 31 جولائی سنہ 2009 میں تین نومبر کے اقدام کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔

جسٹس تصدق حسین جیلانی اُن ججوں میں شامل تھے جنھیں سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے تین نومبر 2007 میں ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد گھروں کو بھیج دیا تھا تاہم وہ مارچ 2009 میں عدلیہ کی بحالی کے لیے شروع کیے جانے والے لانگ مارچ کی وجہ سے چیف جسٹس سمیت بحال ہونے والے دیگر ججوں میں شامل نہیں تھے۔

جسٹس تصدق حسین جیلانی اور سپریم کورٹ کے دوسرے سینیئر جج جسٹس ناصر الملک کو سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے دور ہی میں دوبارہ حلف لینے کے بعد اُن کے عہدوں پر بحال کردیا گیا تھا۔

وہ اُس بینچ کا بھی حصہ تھے جس نے سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کے دور میں پاکستان سٹیل ملز کی نجکاری کے خلاف فیصلہ دیا تھا اور یہی فیصلہ اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور اُس وقت کے فوجی صدر پرویز مشرف کے درمیان اختلافات کا باعث بنا۔

تصدق حسین جیلانی نے اُس پانچ رکنی بینچ کی سربراہی بھی کی تھی جس نے وزیر اعلیٰ پنجاب کی حکومت کو بحال کیا تھا۔ پی سی او کے تحت حلف اُٹھانے والے سپریم کورٹ کے جج موسی کے لغاری نے میاں شہباز شریف کو نااہل قرار دیا تھا جس کے بعد سابق صدر آصف علی زرداری نے پنجاب میں گورنر راج لگا کر حکومت ختم کردی تھی اور اُس وقت کے گورنر سلمان تاثیر کو تمام انتظامی اختیارات سونپ دیے گئے تھے۔

جسٹس تصدق حسین جیلانی سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی طرف سے مختلف معاملات پر لیے جانے والے از خودنوٹسوں کی سماعت کرنے والے بینچوں کا حصہ نہیں رہے ہیں۔

وہ سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے خلاف توہینِ عدالت کے مقدمات کی سماعت کرنے والے بینچ میں بھی شامل نہیں تھے۔

سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی اہلیہ کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ اس کے علاوہ سابق سیکرٹری دفاع سلیم عباس جیلانی اور قومی اسمبلی میں ایڈیشنل سیکرٹری شاہد عباس جیلانی اُن کے بھائی ہیں۔ سابق نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی ان کے بھانجے ہیں۔

ان کے عدالتی کیریئر پر نظر رکھنے والے مبصرین کے مطابق وہ دھیمے مزاج کے جج ہونے کے ساتھ ساتھ مقدمات کو زیادہ طوالت نہیں دیتے تھے اور فوری مقدمات کو نمٹا دیتے تھے۔

انھوں نے ’انصاف سب کے لیے‘ نامی ایک نظم بھی لکھی تھی جو سپریم کورٹ کے مرکزی دروازے کے ساتھ آویزاں کی گئی تھی۔

’انکوائری کمیشن کو چیلنج کریں گے‘

2018 میں پاکستان تحریک انصاف نے نگران وزیراعظم کے لیے جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی اور ماہر معاشیات عشرت حسین کے نام تجویز کیے تھے۔ عمران خان نے اس حوالے سے ایک انٹرویو میں بیان دیا تھا کہ وہ ان دو افراد پر ’آنکھیں بند کر کے اعتماد کرتے ہیں۔‘

تاہم اب عمران خان کی جماعت تحریک انصاف نے جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں بننے والے کمیشن کو مسترد کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا کہ ’ہم اس کمیشن کو مسترد کرتے ہیں۔ صرف حاضر سروس ججز کا کمیشن بنایا جائے، ہم ریٹائرڈ ججز پر مشتمل کمیشن کو مسترد کرتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ کمیشن میمو گیٹ اور الیکشن انکوائری کمیشن کی طرز پر بنایا جائے جس کی سربراپی حاضر چیف جسٹس نے کی تھی۔

جبکہ تحریک انصاف کے ترجمان رؤف حسن کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت ججز کے الزامات پر تصدق جیلانی کے انکوائری کمیشن کو چیلنج کریں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہم اس انکوائری کمیشن کو چیلنج کریں گے، یہ ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔ یہ معاملہ ایسا نہیں ہے کہ اس کو دبایا جاسکے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ہماری عدلیہ ایک طرف کھڑی ہے۔ ان لوگوں نے خط والا معاملہ خراب کر دیا ہے۔ ایک ریٹائر جج کیسے تحقیقات کرسکتا ہے؟ ہم پہلے دن سے کہہ رہے ہیں ہم اس کمیشن کو قبول نہیں کریں گے۔‘

دوسری طرف پاکستان بار کونسل نے جسٹس تصدق جیلانی پر مشتمل کمیشن کو خوش آئند قرار دیا ہے اور ہائیکورٹ ججز کے معاملے پر ’چیف جسٹس پر تنقید‘ کو مسترد کیا ہے۔

ایک بیان میں بار کونسل نے کہا کہ ’چھ ججز کے خط کے معاملے پر تحقیقات ہونی چاہیے۔ ججز کے الزام ثابت ہونے پر کارروائی بھی ہونی چاہیے۔ ججز کو تحفظ اور پرائیوسی فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔‘

اعلامیہ میں کہا گیا کسی ادارے کو بھی عدلیہ میں مداخلت کا اختیار نہیں، پاکستان بار کونسل اور وکلا برادری چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور عدلیہ کے ساتھ ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.