چین کی معیشت پر پانچ سوالات:پاکستان سمیت دیگر ممالک میں چینی سرمایہ کاری کا مستقبل کیا ہے؟

چین نے حال ہی میں رواں برس کے لیے پانچ فیصد پیداوار یقینی بنانے کے ہدف کا اعلان کیا ہے۔ تاہم کورونا وائرس کی وبا کے بعد سے چین کی معیشت دیگر بڑے ممالک کے مقابلے میں سست روی کا شکار ہے۔ چین کی معیشت کو کون سے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے؟
Three cargo ships sail on Huangpu River in China's financial centre Shanghai
EPA
رواں سال کے آغاز میں چین کی سٹاک مارکیٹ میں پانچ برسوں کے دوران سب سے زیادہ مندی کا رحجان دیکھا گیا

چین سنہ 1978 میں جب آزاد معیشیت کی طرف بڑھا اور اس میں اصلاحات شروع کیں تو تب سے اس کی مجموعی پیداوار یعنی جی ڈی پی کی شرح نمو اوسطاً نو فیصد سالانہ رہی۔

جب کورونا کے وبائی مرض نے دنیا میںتباہی مچائی تو چین جو کہ عالمی ترقی میں انجن بن چکا تھا تب اس نے پچھلی کئی دہائیوں کی نسبت سنہ 2020 میں سب سے کم ترقی ریکارڈ کی جو کہ منفی دو اعشاریہ دو فیصد تھی۔

اگلے برس یہ تناسب آٹھ فیصد سے زیادہ ہو گیا لیکن سنہ 2022 میں صرف یہ تین فیصد تھی۔

تو کیا چین اب کم شرح سے ترقی کے طویل مدتی عرصے میں داخل ہو گیا ہے؟

یہاں ہم پانچ اہم سوالات کا خاکہ پیش کرتے ہیں کہ معیشت کے ساتھ کیا گڑبڑ ہو سکتی ہے اور دنیا میں اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔

چینی معیشت کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟

چین نے رواں برس جنوری میں اعلان کیا تھا کہ سنہ 2023 میں اس کی معیشت میں پانچ اعشاریہ دو فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ شرح نمو کے لحاظ سے دنیا کی بڑی معیشتوں میں انڈیا کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ چین کی معیشت انڈیا کے حجم سے پانچ گنا زیادہ ہے۔

تاہم ملک میں لوگ اس سے مختلف سوچتے ہیں کیونکہ پہلی بار سنہ 2023 میں چین میں بیرونی سرمایہ آنے سے سے زیادہ واپس گیا ہے، گذشتہ سال جون میں بے روزگاری ریکارڈ 20 فیصد پر پہنچ گئی اور سال کے شروع میں سٹاک مارکیٹ پانچ سال کی نچلی سطح پر آ گئی۔

ملک کی سٹاک مارکیٹ بھی رواں برس کے آغاز کے ساتھ ہی پانچ سال کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی تھی۔

چین میں امریکی سفارت خانے کے ویبو اکاؤنٹ پر گذشتہ سال میں کچھ ناراض چینیوں نے اپنے ملک کی گرتی ہوئی معیشت کے بارے میں اظہار خیال کیا۔

A bar chart showing GDP per capital and GDP growth rate of China, US, Japan, Germany and India in 2022
BBC

ایک صارف طویل عرصے سے بے روزگار اور قرض میں ڈوبے رہنے، کے بعد مدد کے لیے پکار رہا تھا۔

ایک اور پوسٹ سٹاک مارکیٹ میں پیسہ ڈوبنے کے بارے میں تھی جس میں اس سوچ کا اظہار کیا گیا تھا کہ کیا امریکی حکومت شنگھائی سٹاک ایکسچینج پر بمباری کرنے کے لیے ہمیں کچھ میزائل دے سکتی ہے۔

لیکن مغربی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق بہت سے تبصرے بعد میں ہٹا دیے گئے۔

ڈچ بینک آئی این جی میں گریٹر چائنا کے چیف اکانومسٹ لین سانگ کا کہنا ہے کہ کوویڈ 19 وبائی مرض کے بعد سے چین کی کمزور حالت کی وجہ یہ ہے کہ ’بہت سے ممالک کی نسبت چین نے ترقی کو تیز کرنے کے لیے انتہائی سخت پالیسیوں کا استعمال نہیں کیا۔‘

دوسرے ممالک مثلاً امریکہ نے کورونا کے بعد بچاؤ کے منصوبے نافذ کیے ہیں۔ امریکہ کے ایک اعشاریہ نو ٹریلین کے منصوبے نے وبائی امراض کے دوران بے روزگاروں کے لیے مدد اور چھوٹے کاروباروں، ریاستوں اور مقامی حکومتوں کے لیے اضافی مدد کی پیشکش کی۔

لین سانگ بتاتے ہیں کہ ’چین کی معاشی پالیسی مکمل طور پر محدودہے۔ اس کے نتیجے میں چین میں افراط زر کوئی مسئلہ نہیں رہا۔

Overgrown grass in front of a few unfinished residential blocks in Hebei Province in China [February 2024]
Reuters
بہت سے چینیوں نے رہائشی فلیٹس کے لیے پیسے دے رکھے ہیں جو کہ ابھی یا تو بنے نہیں یا مکمل نہیں ہوئے۔

انویسٹمنٹ بینک ’یو بی ایس‘ سے منسلک وانگ تاؤ چینی معیشت کی ترقی کی کمزور بحالی کے پیچھے ایک اور بڑی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ چین اپنی تاریخ میں پراپرٹی کی بدترین مندی سے دوچار ہے۔

چین میں جب گھروں کی قیمتیں گرتی ہیں، لوگ خرچ نہیں کرتے، خاص طور پر متوسط ​​طبقے کے لوگ۔

مثلاً ایک واضح نشانی یہ ہے کہ بڑے آلات کی کھپت میں نمایاں کمی آئی ہے۔

چین کی پراپرٹی مارکیٹ میں مسائل کا بڑا اثر پڑ رہا ہے کیونکہ یہ اس شعبے کی معیشت کا ایک تہائی حصہ ہیں۔

اس صنعت کو سنہ2021 سے بڑے مالیاتی دباؤ کا سامنا ہے۔ جب حکام نے بڑی پراپرٹی کمپنیاں قرض لینے والی رقم کو روکنے کے لیے اقدامات متعارف کرائے تھے۔

برسوں سے چین کے پراپرٹی سیکٹر نے نئے منصوبوں کے لیے بینکوں سے قرض لے کر بانڈز جاری کر کے اور خریداروں کو نئے گھر فروخت کر کے فنڈز اکٹھے کیے ہیں۔

یہ کاروباری ماڈل بہت سے ممالک میں ایک طویل عرصے سے موجود ہے۔ لیکن چین کے ڈویلپرز زیادہ فائدہ اٹھا رہے ہیں اور بہت زیادہ رقم ادھار لے رہے ہیں۔

حالیہ برسوں میں کئی بڑے پراپرٹی ڈویلپرز نے پچھلے کچھ سالوں میں اپنے قرضوں میں ڈیفالٹ کیا ہے۔

بہت سے چینیوں نے ان ڈویلپرز کواب تک تعمیر شدہ یا آدھے تیار شدہ اپارٹمنٹس کے لیے ادائیگیاں کی تھیں اور انھیں اپنی رقم کھونے کے امکان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور یہ تو کچھ لوگوں کے لیے ان کی زندگی کی تمام جمع پونجی ہے۔

مقامی حکومتیں، جنھوں نے انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے اربوں کا قرضہ لیا ہے اور ریونیو لانے کے لیے زمین کی فروخت پر انحصار کیا ہے وہ بھی اس بڑھتے ہوئے دباؤ کا شکار ہیں۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ، آئی ایم ایف کے مطابق ان کا قرض دو برس قبل میں 92 ٹرلین یانیا چین کی اقتصادی پیداوار کے 76 فیصد تک پہنچ گیا تھا جو کہ سنہ 2019 میں 62.2 فیصد تھا۔

تاہم اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ کے سینیئر ماہر اقتصادیات تیانچن سو کا کہنا ہے کہ چین کی معیشت یقینی طور پر بحران کا شکار نہیں ہے۔

ان کا خیال ہے کہ سنہ 2010 کی دہائی میں چین کی ترقی نمایاں تھی، جس میں کریڈٹ فیولنگ تیزی سے پھیل رہی تھی اور پراپرٹی اور انفراسٹرکچر میں تیزی آئی تھی۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایاکہ چونکہ چین خود کو اس ماڈل سے دوبارہ متوازن کر رہا ہے، اس لیے ایک اصلاح ناگزیر ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے جیسے کام کے بوجھ کے احساس کے ساتھ ایک بڑی مشین چل رہی ہے، اور اس کے حصے میں کچھ دراڑیں نظر آنے لگی ہیں۔

A line chart showing China's annual GDP growth rate from 1978 to 2023
BBC

2. کیا چین کی معیشت امریکہ سے آگے نکل جائے گی؟

چین جب سنہ 2010 میں جی ڈی پی کے حجم میں سب سے بڑا ملک بن گیا تھا۔ تواس کے بارے میں امریکہ سے بڑھ کر پیشین گوئیاں کی گئیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک میں قابل ذکر اقتصادی توسیع ہوئی تھی۔ سنہ دو ہزار دس تک دو دہائیوں میں، چین نے دو ادوار میں سالانہ طور پرریکارڈ ترقی کی۔ یہ عرصہ 1992 سے سنہ 1995 اور سنہ 2003 سے سنہ 2007 تک کا تھا۔

معیشت کی سست روی سے پہلے چین کے لیے امریکہ کو پیچھے چھوڑنے کا سب سے بڑا حوصلہ افزا اندازہ سنہ 2028 تھا جب کہ زیادہ سے زیادہ مدت سنہ 2032 تک بتائی گئی۔

لیکن حال میں معاشی طور پر غیر یقینی صورتحال کے باوجود کیا چین اب بھی ایسا کر سکتا ہے؟

ہانگ کانگ یونیورسٹی میں ’سنٹر آن کنٹیمپریری چائنا اینڈ دی ورلڈ‘ کے بانی ڈائریکٹر اور بروکنگز انسٹیٹیوشن میں چائنا سنٹر کے سابق سربراہ پروفیسر لی چِنگ نے کہا کہ ’ہاں، لیکن شاید چند سالوں کے لیے نہیں۔‘

پروفیسر لی بتاتے ہیں کہ امریکہ کو کئی غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے جن میں اس سال کے آخر میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے نتائج بھی شامل ہیں۔

’یہ امریکہ کے لیے آگے بڑھنا نہیں ہے، نسلی تناؤ، امیگریشن پالیسی کے ساتھ ہی آگے بہت سی غیر یقینی صورتحال ہیں جن کو مدنظر میں رکھنا چاہیے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جہاں تک چین کا تعلق ہے، نئے فوائد سامنے آئے ہیں، مثال کے طور پر، یہ چند سالوں میں الیکٹرک کاروں کی صنعت میں سرفہرست ہو گیا ہے، جس نے بہت سے لوگوں کو حیران کر دیا ہے۔‘

لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’چین کے لیے بری خبر اس یہاں عمر رسیدہ معاشرہ ہے۔ اس کے مقابلے میں امریکہ، جس کی شرح پیدائش چین سے زیادہ ہے اور تارکین وطن کی آبادی جو افرادی قوت کو پورا کرتی ہے، بہت کم دباؤ میں ہے۔

امریکہ کی جانز ہاپکنز یونیورسٹی میں ایس اے آئی ایس چائنا گلوبل ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر پروفیسر اینڈریو مرتھا کا خیال ہے کہ چینی قیادت کو بھی شک ہو سکتا ہے۔

’چین شاید معیشت کی پٹری سے اترنے کے خطرے کے معاملے میں امریکہ کو پیچھے چھوڑنا بھی نہیں چاہتا ہے۔

’کم متوقع شرح نمو، ہاؤسنگ بحران، اور سپلائی چینز کی عالمی سطح پر دوبارہ ترتیب کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ چینی قیادت کسی حد تک خطرے سے دوچار ہے اور ایسے جرات مندانہ اقتصادی اقدامات کرنے کا امکان کم ہے جو امریکی بالادستی کو چیلنج کریں گے۔

چین
Getty Images

3- چین کے لیے اس کے مضمرات کیا ہوں گے؟

جب بھی طویل معاشی جمود کا سوال اٹھتا ہے تو ’گمشدہ دہائی‘ کا ذکر کیا جاتا ہے۔

لین سانگ کا خیال ہے کہ منفی اعتماد معیشت کو گھاٹے میں لے جاتا ہے۔

اعتماد کی کمی سرمایہ کاری اور کھپت کو کم کرتی ہے، جس کے نتیجے میں کارپوریٹ منافع کم ہوتا ہے۔ اور اس کی عکاسی اثاثوں کی کم قیمتوں میں ہوتی ہے، جو پھر کمزور اعتماد کی صورت میں سامنے آتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اس سے نکلنے کے لیے معاون پالیسیوں کی ضرورت ہے۔‘

کچھ لوگوں کو خدشہ ہے کہ چینی صدر شی جن پنگ اندرونی عدم اطمینان کو دور کرنے کے لیے تائیوان پر حملہ کر سکتے ہیں۔

چین خود مختار تائیوان کو ایک الگ ہونے والے صوبے کے طور پر دیکھتا ہے جو ایک نہ ایک دن بیجنگ کے کنٹرول میں ہو گا۔

پروفیسر میرتھا کا خیال ہے کہ یہ بے وقوفی سے بھی زیادہ ہو گا۔

پروفیسر لی نے خبردار کیا کہ ’جو کوئی بھی تائیوان کے خلاف جنگ چاہتا ہے، چاہے وہ چین، امریکہ یا تائیوان کے پالیسی ساز ہوں، انھیں سوچنا چاہیے۔ یہ جنگ یوکرین سے مختلف ہوگی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ مصنوعی ذہانت کی پہلی جنگ ہو سکتی ہے۔ یہ ایک آل آؤٹ ہائی ٹیک، مشین سےمشین کی جنگ ہوگی۔ یقینی طور پر تائیوان چین کے لیے بنیادی مسئلہ ہے لیکن چینی قیادت یہ بھی تسلیم کرتی ہے کہ جنگ ہی آخری حربہ ہے۔۔ جبکہ معاشی جمود اس کے لیے کافی وجہ نہیں ہے۔‘

چین
Getty Images

4- یہ سست روی دنیا کی معیشت کو کیسے متاثر کرے گی ؟

لین سانگ کے خیال سے یہ دنیا کو تین طریقوں سے متاثر کرے گا، جن میں اشیائے ضروریہ، چینی سیاحت اورجغرافیائی سیاست۔

پہلی بات تو یہ کہ چین دنیا میں اشیا برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے تو اس میں کمی کا مطلب ہو گا کہ ان کے لیے اس کی طلب کم ہو گئی ہے خاص طور پر تعمیراتی سامان جیسے لوہا اور باکسائیٹ وغیرہ۔

دوسرےچینی سیاحوں کی کمی بڑے سیاحتی مقامات کے لیے نقصان دہ ہوگی اور دوسری جانب بیرونی سیاحوں کو لانے کے لیے اور کورونا وائرس سے پہلے والی صورتحال میں لانے کے لیے بہت محنت کرنا ہو گی۔

تیسرے، ایک سست روی، خاص طور پر اگر داخلی طور پر عوامی مالیاتی بحران کے ساتھ ہو تو پھرامداد اور سرکاری قرضے کے ذریعے جغرافیائی سیاست کو تشکیل دینے کی چین کی صلاحیت کو محدود ہو جائے گی۔

گذشتہ دہائی میں چین نے کئی سرمایہ کاری اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے ذریعے اپنی عالمی موجودگی کو مسلط کرنے کے لیے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو منصوبہ شروع کیا۔ اس نے 152 ممالک کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کیے اور 3000 سے زائد منصوبوں میں سرمایہ کاری کی۔

لیکن کچھ ناقدین یہ بھی کہتے ہیں کہ بی آر آئی محض ’قرضوں کا جال‘ ہے۔۔ چین بی آر آئی کے ذریعے بہت سے کم یا متوسط ​​آمدنی والے ممالک کے لیے ایک سہارا بھی بن کر سامنے آیا ہے۔

سنہ 2022 میں ورلڈ بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین مالدیپ، پاکستان اور سری لنکا کا سب سے بڑا دو طرفہ قرض دہندہ ہے۔

شی جن پنگ کے سرمایہ کاری کے حالیہ وعدوں میں جیسا کہ مارچ میں نیشنل پیپلز کانگریس (این پی سی) کے اجلاسوں کے دوران رپورٹ کیا گیا تھا کہ مقابلے میں نمایاں طور پر کمی واقع ہوئی ہے۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ چین کی معاشی بدحالی کے پیش نظر بڑے پیمانے پر بیرونی سرمایہ کاری غیر پائیدار ہے۔

لیکن لین سانگ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ سست روی کے باوجود، چین کی معیشت کا حجم اب بھی اسے عالمی نمو میں ایک اہم شراکت دار بننے کی طاقت دیتا ہے۔

’چین اگلے پانچ سالوں میں عالمی ترقی میں 20 فیصد یا اس سے زیادہ کا حصہ بنائے گا۔‘

5- کیا چین دوبارہ اوپر جا سکتا ہے

لین سانگ سمجھتے ہیں کہ چین کے لیے اگلا مرحلہ کامیابی کے ساتھ اقتصادی منتقلی کو اعلیٰ معیار کی ترقی کی جانبلے جانا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ نیشنل پیپلز کانگریس کے ’دو اجلاسوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ پالیسی ساز اس بڑی تصویر اور طویل مدتی ترجیحات پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ یہ آخر میں فیصلہ کریں گے کہ آیا چین منتقلی کے اگلے مرحلے میں جا ہوسکتا ہے یا نہیں۔‘

چین کے صدر کے پاس اس سے متعلق چند تجاویز ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ چین کے لیے اس وقت پراپرٹی کے بحران سے نمٹنا ایک اہم ذمہ داری ہے۔

دوسرا اسے معیشت کے سپلائی سائیڈ پر ایک دم سے توجہ مرکوز کرنے کی بجائے طلب پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

چین کو یہ بھی کرنا چاہیے کہ وہ نجی اور غیر ملکی فرموں کے لیے معیشت کے مزید شعبوں کو آزاد کرے اور ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک جاری رہنے والی مالیاتی توسیع کے بعد عوامی مالیات کی طویل مدتی پائیداری کو یقینی بنانے والی مالیاتی اصلاحات کو آگے بڑھائے۔

ساتھ ہی لین سانگ کا یہ بھی ماننا ہے کہ چینی لیڈر شپ جی ڈی پی کی پانچ فیصد پیداوار حاصل کرنے کے پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں گے۔

’اور اگرچہ ہم نے اعتدال سے زیادہ معاون مالیاتی پالیسی کے اہداف دیکھے ہیں، ہم اب بھی آنے والے ہفتوں میں مزید متحرک پالیسیوں کی تلاش میں ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ ہم نے یہ بتدریج معاون مالیاتی پالیسی کے اہداف کا مشاہدہ کیا ہے اور ہمیں اگلے ہفتوں میں مزید ایسی پالیسیوں کو لاگو کرنے کی ضرورت ہے جن کے ذریعے سنہ 2024 کے پیداوار کا مقررہ ہدف حاصل کیا جا سکے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.