نواز شریف اور اتحادیوں کی حکومت سے بے رُخی، شہباز شریف کہاں کھڑے ہیں؟

image

نو فروری کی شام جب سابق وزیراعظم نواز شریف انتخابی نتائج پر بات کرنے کے لیے میڈیا کے سامنے آئے تو انہوں نے شہباز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے ہدایت کی کہ ’جائیں اور اتحادیوں سے بات کرکے حکومت بنائیں۔‘

یہ پہلا موقع تھا جب انتخابی نتائج کے فوری بعد نواز شریف حکومت سازی کے عمل سے لاتعلق ہونے کا اشارہ دیا تھا۔

اس کے کچھ ہی دنوں بعد جب اتحادی جماعتوں نے شہباز شریف کو وزیراعظم نامزد کیا اس دن چوہدری شجاعت حسین کے گھر پر چھ سے زائد سیاسی جماعتوں کی قیادت جمع تھی لیکن نواز شریف وہاں موجود نہیں تھے۔

حکومت بننے سے پہلے ہی اگرچہ پیپلز پارٹی نے وزارتیں نہ لینے کا اعلان کر دیا تھا لیکن شہباز شریف کے حلف اٹھانے اور صدر زرداری کے کاغذات نامزدگی جمع ہو جانے کے بعد پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے قومی اسمبلی میں پہلے خطاب ہی میں یہ واضح کر دیا تھا کہ وہ حکومتی بینچوں پر بیٹھ کر اپوزیشن بھی کریں گے۔

اس دن کے بعد سے پیپلزپارٹی کے کسی بھی رہنما نے حکومت کی جانب سے کسی بھی حکومتی اقدام کا دفاع نہیں کیا بلکہ موقع ملنے پر تنقید ضرور کی ہے۔

ن لیگ کے قائد نواز شریف نے وفاقی حکومت سے ایسا رخ موڑا ہے کہ سوائے لازمی ووٹ ڈالنے کے وہ اسلام آباد ہی نہیں آتے۔

شہباز شریف کے وزیراعظم ہاؤس میں گزرے تین ہفتوں میں ایک مرتبہ بھی نواز شریف وزیراعظم ہاؤس نہیں گئے۔ تاہم وہ پنجاب کے معاملات میں کسی حد تک دلچسپی لیتے دکھائی دیے ہیں۔

مریم نواز بھی بحیثیت وزیراعلیٰ وفاقی حکومت اور وزیراعظم پر انحصار نہیں کر رہیں۔ ان کی سوشل میڈیا سٹریٹجی اور مہم سے شہباز شریف سرے سے غائب ہیں۔

یہ کہا جا سکتا ہے کہ حکومتی اور سیاسی معاملات میں مریم نواز اب سولو فلائٹ پکڑ چکی ہیں۔

نواز شریف کے قریبی ساتھیوں خواجہ آصف، عرفان صدیقی اور جاوید لطیف کے بیانات سے بھی لگ رہا ہے کہ نواز شریف بظاہر موجودہ سیٹ اَپ سے خوش بھی نہیں۔ نواز شریف کی طویل خاموشی اس بات کی تائید کرتی نظر آ رہی ہے۔

مریم نواز بھی بحیثیت وزیراعلیٰ وفاقی حکومت اور وزیراعظم پر انحصار نہیں کر رہیں (فائل فوٹو: ایکس، پی ایم ایل این میڈیا)آٹھ فروری کے بعد سے اب تک نواز شریف نے پبلک کے سامنے صرف ایک دفعہ 9 فروری کو جبکہ اپنی جماعت کے منتخب ارکان یعنی پارلیمانی پارٹی سے بھی ایک دفعہ مخاطب ہوئے۔

اس کے علاوہ نواز شریف سیاسی معاملات بالخصوص وفاقی حکومت سے متعلق گہری چپ سادھے ہوئے ہیں۔

دوسری جانب وفاقی کابینہ میں سے کچھ وزراء کی سرگرمیاں بھی بظاہر وزیراعظم شہباز شریف کے کنٹرول سے باہر دکھائی دے رہی ہیں اور ان کے سامنے شہباز شریف کی مبینہ بے بسی انہیں مزید تنہا کر رہی ہے۔

کیا شہباز شریف اس وقت واقعی سیاسی تنہائی کا شکار ہیں؟ ن لیگ تو اس بات کو ماننے کو تیار نہیں تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شہباز شریف نبھا رہے ہیں اور اپنی فطرت کے مطابق اچھے طریقے سے نبھائیں گے۔ کیونکہ نواز شریف اور عمران خان کے برعکس شہباز شریف مختلف طبیعت کے مالک ہیں۔

مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر رانا ثناءاللہ کا کہنا ہے کہ شہباز شریف نے اب تک ایک بھی فیصلہ نواز شریف کی مرضی کے بغیر نہیں کیا۔ نواز شریف وفاقی اور پنجاب حکومت کے سرپرست ہیں۔ چونکہ شہباز شریف تجربہ کار ہیں، اس لیے نواز شریف عملی طور پر وہاں سرگرم دکھائی نہیں دے رہے۔

رانا ثناءاللہ کا کہنا تھا کہ ’ن لیگ کی حکومت وفاق اور پنجاب میں اپنے منشور کے تحت آگے بڑھ رہی ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے اتحادی اچھے کام اپنے کھاتے میں اور خامیاں ہمارے کھاتے میں ڈالتے رہیں گے۔ پیپلز پارٹی نے ارسا چیئرمین والے معاملے میں یہی کیا۔ ہم ذہنی طور پر اس کے لیے تیار ہیں لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی وقت سٹینڈ لینا پڑے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’یہ بات درست ہے کہ شہباز شریف اپنے اتحادیوں کو اکاموڈیٹ کر لیتے ہیں۔ ارسا چیئرمین کے معاملے پر اگر نواز شریف ہوتے تو شاید وہ فیصلہ واپس نہ لیتے لیکن شہباز شریف نے فیصلہ واپس لیا۔‘

مسلم لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ ’ہماری اس وقت خواہش ہے کہ یہ حکومت کامیاب ہو کیونکہ یہ آخری امید ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ نواز شریف کی مرضی کے بغیر شہباز شریف کوئی بھی کام کریں۔‘

کسی بھی پیپلزپارٹی رہنما نے حکومت کی جانب سے کسی بھی حکومتی اقدام کا دفاع نہیں کیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)تجزیہ کار اجمل جامی نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں کہا ’نواز شریف کی بے رخی، مریم نواز کی سولو فلائٹ اور پیپلز پارٹی کی دوری کے باوجود شہباز شریف کے پاس کوئی دوسرا آپشن موجود بھی نہیں ہے کہ اپنے عہدے پر رہتے ہوئے مفاہمت کے پیامبر بن کر اپنی سلیکشن کو جواز فراہم کرتے رہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’یہ نواز لیگ اور سسٹم کی مجبوری تھی کہ مخلوط حکومت بنانا پڑی لیکن وزارت خزانہ اور وزارت داخلہ کے وزیروں کی انٹری نے بتا دیا ہے کہ آنے والے دنوں میں ’ان‘ کا کردار زیادہ اہم ہوتا جائے گا۔ عین ممکن ہے کہ ان میں سے ایک وزیر کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہو جائے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’نواز شریف کی عملاً بے رخی اور مریم نواز کی سولو فلائٹ کے باوجود شہباز شریف خود کو سیاسی طور پر تنہا محسوس نہیں کر رہے کیونکہ وہ نبھانے میں بہت اچھے ہیں اور ہمیشہ سسٹم کے من چاہے فرد رہے ہیں۔ وہ جب تک ہاں میں ہاں ملاتے رہیں گے کوئی تنازع ہی جنم نہیں لے گا۔ لیکن یہاں پر ایک سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ لیکن کب تک؟‘

تجزیہ کار احمد بلال محبوب شہباز شریف کو درپیش سیاسی مسائل کو ان کے حق میں بہتر قرار دیتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اگر نواز شریف وفاقی حکومت کے معاملات میں دلچسپی لیں گے تو شہباز شریف کو ان کی بات ماننا پڑے گی۔ اس سے شہباز شریف کی حیثیت کمزور پڑ جائے گی۔ مریم اگر اپنا کام اپنے طور پر کر رہی ہیں تو انہوں نے شہباز شریف سے لاتعلقی بھی اختیار نہیں کی۔ اسی طرح پیپلز پارٹی جو کر رہی، وہ انہوں نے پہلے دن ہی کہہ دیا تھا اور وہی کر رہے ہیں۔ اس لیے ان باتوں کو زیادہ کریدنا نہیں چاہیے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس سارے کے ساتھ ساتھ جو بات اس وقت سمجھنے اور بطور حقیقت تسلیم کرنے کی ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت سارا حکومتی سیٹ اپ اسٹیبلشمنٹ کی گوند سے جڑا ہوا ہے۔ جب تک وزیراعظم شہباز شریف ہوں یا ماضی کا کوئی بھی وزیراعظم اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جُڑا رہے وہ اپنے عہدے پر موجود رہتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ جس سے پیچھے ہٹ جائے وہ اپنے عہدے پر ہوتے ہوئے بھی ختم ہو جاتا ہے بلکہ وزیراعظم ہی نہیں رہتا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے آپ پسند کریں یا ناپسند کریں لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے اندر اب یہی کچھ ہے اور ہوتا رہے گا۔‘


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.