’سفارش بھی چلتی ہے اور میرٹ بھی۔۔۔‘ پاکستان کے سول ایوارڈز ہر سال متنازع کیوں ہو جاتے ہیں؟

پاکستان میں ہر سال 23 مارچ کو اعلیٰ ترین سول ایوارڈز مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو ان کی خدمات کے اعتراف میں دیے جاتے ہیں۔ لیکن بعض مبصرین کا خیال ہے کہ ان ایوارڈز میں ’سفارش‘ اور دباؤ‘ کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔

پاکستان میں ہر سال 23 مارچ کو اعلیٰ ترین سول ایوارڈز مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو ان کی خدمات کے اعتراف میں دیے جاتے ہیں۔ لیکن یہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ ان ایوارڈز میں ’سفارش‘ اور دباؤ‘ کا بھی عمل دخل ہوتا ہے لہذا 100 فیصد شفافیت کی توقع نہیں کی جا سکتی۔

اس بار حکومت نے بہت سی شخصیات کو یہ ایوارڈ دیے لیکن کچھ ناموں کو اس حتمی فہرست سے نکال بھی دیا جو خود گذشتہ سال 14 اگست کو جاری کی گئی تھی۔

ایوارڈ حاصل کرنے والی نمایاں شخصیات میں شیما کرمانی کا نام بھی شامل ہے۔ ان کے علاوہ پوفیسر عادل نجم، پروفیسر انور مسعود، اداکار عدنان صدیقی اور دیگر کو یہ اعزاز حاصل ہوا ہے۔

لیکن پاکستان میں فلم اور آرٹ انڈسٹری کی ایک معروف شخصیت سرمد کھوسٹ کا نام اس فہرست سے نکال دیا گیا اور یہ معاملہ سوشل میڈیا پر صارفین کے لیے حیرت کا باعث بنا ہوا ہے۔

https://twitter.com/pid_moib/status/1771563209750720897

سول اور صدارتی ایوارڈز کے لیے نامزدگی کیسے ہوتی ہے؟

آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ اس کا طریقہ کار کیا ہوتا ہے اور اس میں کتنی شفافیت ہوتی ہے اور یہ کہ اس معاملے میں ’سفارش‘ بھلا کیسے چل جاتی ہے۔

ان سوالات کے جواب جاننے کے لیے ہم نے حکومت کی اس مخصوص کمیٹی کے ایک سابق سربراہ عرفان صدیقی سے رابطہ کیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ایوارڈز کے لیے چناؤ اور اس کی فہرست کو حتمی شکل دینے کے لیے وفاقی حکومت ایک کمیٹی بناتی ہے۔ اس کیمٹی کے پاس مختلف شعبوں میں کام کرنے والی شخصیات کے ناموں کی فہرستیں جاتی ہیں۔

’حکومت کی متعلقہ وزارتیں اپنےتجویز کردہ نام چیف سیکریٹریز کو اور وہ اسے کابینہ ڈویژن کو دیتے ہیں جو کہ آگے اس مخصوص حکومتی کمیٹی کو پہنچاتی ہیں۔‘

اس بار ایوارڈز کے لیے بنی کمیٹی کے سربراہ احسن اقبال تھے۔

عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ کمیٹی کو ناموں کی فہرست کے ساتھ متعلقہ افراد کی پروفائلز اور خدمات کی تفصیلات بھی بھجوائی جاتی ہیں جنھیں دیکھنے کے بعد کمیٹی فیصلہ کرتی ہے کہ مذکورہ نام ایوارڈ کا اہل ہے یا نہیں اور اگر ہے تو اسے کون سا ایوارڈ دیا جائے۔

سنہ 2014 میں اس کمیٹی کی سربراہی کرنے والے سینیٹر عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ ’اس سے اوپر بھی ایک بات ہے۔ کمیٹی کا سربراہ یا ممبران ایوارڈز کی فہرست میں نااہل افراد کو بھی اپنے اثر و رسوخ سے شامل کرتے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یہاں سفارش چلتی ہے اور ٹِکا کر چلتی ہے۔ چہیتا پن بھی چلتا ہے اور کہیں کہیں میرٹ بھی چلتا ہے۔‘

لیکن یہاں یہ وضاحت کرتے چلیں کہ سفارشیں بھی دو طرح کی ہوتی ہیں۔ ایک وہ جس میں حکومتی کمیٹی کو کہا جاتا ہے کہ کہیں نہ کہیں کسی مخصوص شخصیت کو اعزاز دے دیا جائے۔ لیکن دوسری وہ سفارش ہوتی ہے جس میں بیوروکریٹس کی جانب سے تجویز نہیں ہوتی۔

ہر سال ایوان صدر میں منعقد ہونے والی اس پروقار تقریب کو دیکھیں تو بہت سے ایسے نام بھی شامل ہوتے ہیں جنھیں بعد از مرگ ایواڈ دیا جاتا ہے۔

شاید ان کی زندگی میں ان کی خدمات حکومت کی کمیٹی اور متعلقہ وزارتوں سے اوجھل ہوتی ہیں یا ان کی ترجیح میں شامل نہیں ہوتیں۔ اس کی ایک مثال سعادت حسن منٹو ہیں جن کی وفات کے دہائیوں بعد ان کی خدمات کا اعتراف کیا گیا۔

https://www.instagram.com/p/C4xp_xNNWEZ/?igsh=ZzV6OXAycGVhMGZr

’پہلی بار ریاست نے ڈانس کو آرٹ کا حصہ تسلیم کیا‘

اس سال مختلف شعبوں سے وابستہ 397 افراد کو صدارتی سول ایوارڈز دیے گئے۔ ادب کے شعبے میں افتخار عارف اور معروف شاعر انور مسعود کو نشانِ امتیاز عطا کیا گیا۔

نیوکلیئر سائنس کے شعبے میں حفیظ قریشی کے علاوہ ایئر مارشل (ر) نجیب اختر کو بھی نشان امتیاز عطا کیا گیا۔ سابق وزیراعظم عمران خان سے منسوب ’کپتان چپل‘ بنانے والے چاچا نُور دین کو بھی صدارتی ایوارڈ دیا گیا۔ تعلیم کے شعبے میں خدمات میں گرین کریسٹ ٹرسٹ کے سی او زاہد سعید کو تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔

پاکستان کی معروف کلاسیکل ڈانسر کو بھی پرائڈ آف پرفارمنس کے ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ شاید میری طرح آپ کے لیے بھی یہ حیرت کی بات ہو کہ گذشتہ 50 سالہ کیریئر میں یہ پہلا موقع ہے کہ شیما کرمانی کو کوئی قومی ایوارڈ ملا ہے۔

اور شاید شیما کے لیے بھی یہ ایک سرپرائز تھا۔

بی بی سی سے گفتگو کے دوران وہ کہتی ہیں کہ ’صدارتی ایوارڈ مجھے پہلی بار ملا ہے۔ میں اسے صرف اپنے لیے نہیں سمجھتی۔ پہلی بار ریاست نے آرٹ کی فارم میں ڈانس کو تسلیم کیا ہے۔ یہ تسلیم کیا ہے کہ یہ ہماری ثقافت کا حصہ ہے۔ اس سے پہلے رائٹر، پینٹرز کو ایوارڈ ملتا تھا۔ میں نے پچاس سال تک کام کیا ہے۔ اب مجھے ایوارڈ ملا ہے تو میری نظر میں سب سے بڑی بات یہی ہے۔‘

شیما کرمانی بتاتی ہیں کہ گذشتہ سال فون پر رابطہ کر کے کسی حکومتی منسٹری کی جانب سے ان کی پروفائل مانگی گئی جو انھوں نے بھجوا دی تھی۔

لیکن شیما کے برعکس سرمد کھوسٹ کا نام فہرست میں شامل ہونے کے باوجود انھیں تقریب میں شرکت کے لیے نہیں بلایا گیا۔

سرمد جنھیں 14 اگست کو حتمی فہرست موصول ہوئی تھی انھیں تب سے مبارکباد دیے جانے کا سلسلہ شروع ہوا اور اب گذشتہ روز جب وہ تقریب میں موجود ہی نہیں تھے، نہ ہی ان کا نام لیا گیا تو یہ سوال میڈیا، ان کے حلقہ احباب کی جانب سے کیا گیا کہ یہ کیوں ہوا؟

بی بی سی سے گفتگو میں سرمد کھوسٹ نے کہا کہ ’میں نہ مایوس ہوں اور نہ ناراض ہوں لیکن میرے لیے حیرت انگیز ہے۔ مجھے چڑ ہو رہی ہے۔ لوگ مجھے مبارکباد کے پیغامات دے رہے ہیں۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’14 اگست کو ایک لسٹ مجھے ملی جو سب کو ملی۔ اس میں میرا نام بھی تھا۔‘ مگر پھر مارچ میں انھیں دعوت نامہ وصول نہیں ہوا۔

سرمد کھوسٹ پاکستان میں فلم، ٹی وی پروڈکشن، ایکٹنگ اور سکرین رائٹنگ کا جانا مانا نام ہیں۔ ان کی فلموں کے موضوعات گو کہ معاشرے کی حقیقت کو بیان کرتے ہیں لیکن اسی وجہ سے وہ اکثر حکومتی سنسر بورڈ کی متنازع پالیسیوں کی زد میں بھی دکھائی دیتے ہیں۔

خیال رہے کہ سرمد کو اس سے قبل سنہ 2017 میں پرائیڈ آف پرفارمنس مل چکا ہے اور اس بار ان کا نام ستارہ امتیاز کے لیے دیا گیا تھا۔

یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ حکومت کی جانب سے جب کسی شخصیت کا نام چُنا جاتا ہے تو 14 اگست کو حتمی فہرست جاری ہونے سے پہلے بھی متعلقہ شخصیت سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا وہ یہ ایوارڈ لینا چاہیں گے۔ ایسے میں اگر انکار ہو جائے تو حکومت ان کا نام نکال دیتی ہے۔

سرمد کا نام حتمی فہرست سے کیوں نکالا گیا، اس کی وجوہات جاننے کے لیے بی بی سی نے حکومتی کمیٹی کے سربراہ احسن اقبال سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی جواب نہ مل سکا۔

لیکن بقول عرفان صدیقی ’یہاں سفارش بھی چلتی ہے‘ اور ’اثر و رسوخ بھی‘۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے دو ایسے ناموں کو دوبارہ ڈلوانا پڑا جنھیں کسی نے نکلوا دیا تھا۔

سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے حامی صارفین جہاں انٹرٹینمنٹ انڈسٹری سے وابستہ شخصیات کو صدارتی ایوارڈ لینے پر ٹرول کر رہے ہیں وہیں بہت سے صارفین سرمد کھوسٹ کا نام ایوارڈ لسٹ سے نکالنے پر برہمی کا اظہار کر رہے ہیں۔

سینئیر اداکارہ سیمی راحیل نے بہت سے اداکاروں کو نظر انداز کرنے پر مایوسی کا اظہار تو کیا لیکن سرمد کے نام پیغام میں لکھا ’ایوارڈ کیا ایوارڈ! پیارے سرمد تم ایک بہترین اور ایماندار آرٹسٹ ہو۔‘

مسلم لیگ ن کے سینئیر رہنما عرفان صدیقی سمجھتے ہیں کہ سلیکشن کمیٹی جو کہ سیاست دانوں اور بیوروکریٹس پر مشتمل ہے اسے سیاست سے الگ ہونا چاہیے اور تعلیم و ادب کے افراد کو اس کی ذمہ داری ملنی چاہیے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.