زرعی اراضی کو کمرشل زمین میں بدلنے کا معاملہ، بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے سے جواب طلب 

image

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بحریہ ٹاؤن اور ریونیو ایمپلائز سوسائٹی کیس کی سماعت کے دوران نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے سے جواب طلب کرتے ہوئے مزید سماعت عید کے بعد تک ملتوی کر دی ہے۔

بدھ کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کو براہ راست چلانے کی ہدایت جاری کرتے ہوئے ریمارکس دے کہ ’یہ لوگ بہت طاقت ور ہیں۔ انہوں نے سب خریدا ہوا ہے۔ میڈیا پر بھی ان کے خلاف خبر نہیں چلتی۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’اس معاملے میں تین مرکزی کردار ہیں۔ سابق آرمی چیف پرویز مشرف، سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی، بحریہ ٹاؤن اور زاہد رفیق۔ یہ شخصیات کیس کے مرکزی کردار ہیں اور یہی پاکستان کے اصل مالک ہیں۔‘ دوران سماعت جسٹس عرفان سعادت نے ریمارکس دیے کہ بحریہ ٹاؤن نے کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی سے زمین خرید کر ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کو فروخت کی۔ ڈی ایچ اے نے اس زمین پر عسکری 14 بنا دیا، کیا یہ بات درست ہے؟

اس پر چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ ڈی ایچ اے کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ ڈی ایچ اے کے وکیل نے بتایا کہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی 2005 میں صدارتی آرڈر کے تحت قائم ہوئی۔ ڈی ایچ اے شہدا کے ورثا اور جنگ زخمی میں ہونے والوں کو پلاٹس دیتا ہے۔

’شہدا کے نام کے پیچھے چھپ کر دھندا چلا رہے ہیں‘

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ ’یہ شہدا کے نام کے پیچھے چھپ کر دھندا چلا رہے ہیں۔ شہدا کا نام استعمال کر کے پیسہ بنایا جا رہا ہے۔ آپ ان کی عزت نہ کریں۔ہم شہدا کی عزت کریں گے۔‘

’وزیراعلیٰ کون ہوتا ہے زمین الاٹ کرنے والا‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’کتنا رس نکالیں گے شہدا کے نام کا؟ یہ کھیل ہم نے بہت بار دیکھا ہے۔چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ وزیر اعلیٰ کون ہوتا ہے زمین الاٹ کرنے والا؟ کیا یہ وزیراعلیٰ کا اختیار ہے؟ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ایسا نہیں کیا جیسے وزیراعلیٰ کر رہے ہیں۔‘

اس پر جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ ’ڈی ایچ اے ہاؤسنگ اتھارٹی شہدا کے لیے بنائی گئی تھی تو کیا ڈی ایچ اے صرف شہدا کے لیے ہے؟ ڈی ایچ اے کے وکیل نے بتایا کہ اس منصوبے میں کمرشل پلاٹس بھی ہوتے ہیں۔‘

دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ’پیسے کمانے ہیں تو کمائیں لیکن شہیدوں کے نام مت لیں۔ یہ سیدھا سادا دھندہ کر رہے ہیں۔ شہدا کے نام لے کر تذلیل مت کریں۔‘

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’پھر مجھے اس کی کوئی اخباری خبر دکھا دیں۔ مجھے لوگوں کا دکھ نہیں۔ پیسے کا دکھ ہے۔ جوڈیشل کونسل میں ایک مقدمہ چلا کر ہم نے سب کے کردار دیکھ لیے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’بحریہ ٹاؤن کا تو پوچھیں ہی مت، وہ تو پاکستان چلا رہے ہیں ۔ ریاست بھی بحریہ ٹاؤن کے ساتھ کھڑی ہے۔ اس کو دھندہ نہیں کہتے تو کیا کہتے ہیں؟‘

چیف جسٹس نے کہا ’یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ زرعی زمین بچائی جائے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے دریافت کیا کہ جب یہ معاہدہ ہوا اس وقت آرمی چیف کون تھا؟ وکیل نے جواب دیا کہ اس وقت پرویز مشرف آرمی چیف تھے۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’یہ ہیں ہمارے سپہ سالار۔‘ 

قاضی فائز عیسیٰ دریافت کیا کہ اُس وقت وزیر اعلیٰ کون تھے؟ وکیل نے بتایا کہ چوہدری پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ تھے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا ’ پاکستان کے اصل مالک ہی یہ لوگ ہیں۔‘

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ کہہ رہے ہیں زرعی زمین کمرشل مقاصد کے لیے استعمال ہو سکتی ہے؟ کیا ہم آپ کو فہرست بتائیں کہ آپ نے کتنے قوانین کی خلاف ورزی کی؟ یہ فہرست ختم نہیں ہو گی۔‘

’زرعی زمین ریاست اور عوام پاکستان کا قیمتی اثاثہ ہے۔بڑھتی ہوئی آبادی کو کھلائیں گے کہاں سے؟ ڈی ایچ اے، بحریہ ٹاؤن کو دیکھیں، ان کو کوئی پوچھ نہیں سکتا؟ کیا یہ قانون سے بالاتر ہیں؟‘

قاضی فائز عیسی نے مزید کہا کہ ایک محاورہ چلتا ہے ’پہیے لگانے والا‘ آج اس کی عکاسی نظر آ رہی ہے۔ اس معاملے میں تو شاید جیٹ انجن لگایا گیا ہے۔آپ کیوں پاکستان کو تباہ کر رہے ہیں۔

’لوگ کھائیں گے کیا؟ نہ پاکستان میں گیہوں رہے گا نہ چاول ، آج کا اخبار دیکھیں۔ پاکستان دنیا کا دوسرا آلودہ ترین ملک ہے۔‘ 

’سیدھا لکھوا لیتے ڈی ایچ اے قانون سے بالاتر ہے‘

چیف جسٹس نے ڈی ایچ کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ اعتراف بھی کر لیتا ہوں ہمارے ادارے کی شہرت بھی اچھی نہیں۔ ہم تو بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، آپ تو وہ بھی نہیں کر رہے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ کیا ڈی ایچ اے کا سرکاری آڈٹ ہوتا ہے؟ ڈی ایچ اے کے وکیل نے بتایا کہ ہمارا اپنا آڈٹ ہوتا ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’آپ سیدھا لکھوا لیتے ڈی ایچ اے قانون سے بالاتر ہے۔ مشرف صاحب اس وقت صدر تھے۔ ایک اور قانون جاری کروا لیتے۔‘

جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ ’ڈی ایچ اے ہاؤسنگ اتھارٹی شہدا کے لیے بنی تو کیا ڈی ایچ اے صرف شہدا کے لیے ہے؟‘ (فائل فوٹو: سکرین گریب)قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فریقین کو آپس میں میٹنگ کر کے متاثرین کے نقصان کا ازالہ کرنے کی راہ نکالنے کا وقت دے دیا گیا تھا۔ کہیں سفر کریں، ہر طرف ہاؤسنگ سوسائٹیاں دکھائی دیتی ہیں۔ زرعی زمین شاید اتنا مالی فائدہ نہیں پہنچاتی۔ اس لیے لوگ سوسائٹیاں بنا رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ زرعی زمین بچائی جائے۔ سوسائٹی میں صرف سرمایہ کاری ہوتی ہے۔ زمین پڑی رہتی ہے۔ جن کو حقیقت میں گھر کی ضرورت ہوتی ہے، ان کی پہنچ سے یہ زمین باہر ہو جاتی ہے۔‘

اس کے بعد عدالت نے زرعی زمین کو کمرشل میں بدلنے پر بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے سے جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت عید کے بعد تک ملتوی کر دی۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.